تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات پر سوال تو اُٹھائے جا رہے ہیں لیکن مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف سے آنے والا ردِعمل مضحکہ خیز ہے کہ اپنی آنکھوں میں شہتیر لیے پھرنے والے کس طرح مخالفین کی آنکھ کے بال پر وبال کھڑا کیے ہوئے ہیں؟ کئی دہائیوں سے پارٹی قیادت پر خاندانی تسلط اور اجارہ داری پر بضد مسلم لیگ(ن) ہو یا پیپلز پارٹی‘ دونوں ہی ڈھٹائی سے تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات پر تنقید کے نشتر برسا رہی ہیں۔ آمریت کے ساتھ پارٹیاں چلانے والے جمہوریت کے ٹھیکیدار بنے اقتدار کی شدتِ طلب میں اس قدر بے حال ہیں کہ اپنے جذبات اور دلوں میں چھپی کدورتوں سمیت حسرتوں اور خواہشات کو روکے نہیں روک پا رہے۔ انہیں مخالف پارٹی کے انتخابات کی جہاں فکر کھائے جا رہی ہے وہاں ایک دوسرے سے شاکی اور خوف بھی کھائے ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو تو اپنے خدشات اور تحفظات کا اس طرح کھل کر اظہار کر رہے ہیں جیسے انہیں یقین ہو چلا ہو کہ (ن) لیگ بازی لے چلی ہے۔ حالیہ حکومتی اتحاد میں شامل اور اقتدار کے برابر مزے لوٹنے والی پیپلز پارٹی وہ روایتی حریف بنتی چلی جا رہی ہے جیسے یہ سبھی ماضی میں ایک دوسرے کے لتے لیتے رہے ہیں۔
اس افراتفری اور اودھم میں سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ جہاں یہ سبھی حصولِ اقتدار کے لیے بے تاب ہیں وہاں نگران سرکار طولِ اقتدار کی خواہشات کو دبا نہیں پارہی۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اس طرح دل لگائے ہوئے ہیں جیسے سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔ اصل کام اور مینڈیٹ کے بجائے سبھی کام اس طرح جاری ہیں کہ انتخابات ثانوی سے بھی کم توجہ اور اہمیت کا شکار چلے آرہے ہیں۔ بالخصوص دو سینئر صوبائی سرکاریں الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی شیڈول جاری ہونے کے باوجود انتخابات سے گریزاں اور بے نیاز ہی نظر آتی ہیں۔ سبھی حکومتی امور میں ان کی دلچسپیاں جہاں غیر معمولی رہیں وہاں انتخابات بھی ترجیحات سے کوسوں دور ہی نظر آئے۔ ملک کے طول و عرض سے نہ کوئی آواز سنائی دی نہ دہائی‘ جہاں انتخابات سے فرار اور التوا مسلسل آئین شکنی کا باعث رہا ہے وہاں متوقع انتخابات بھی غیر متوقع ہونے کی بازگشت برابر سنائی دے رہی ہے۔ طولِ اقتدار اور حصولِ اقتدار کی اس رسہ کشی میں کسی کو ہوش ہے نہ فکر کہ زوال کا عذاب مستقل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
یہ جمہوریت کا حسن ہے یا آمریت کا کرشمہ کہ مملکتِ خداداد پر وہ ہربے اور تجربے آزمائے گئے ہیں کہ یہ بنجر ہوتی چلی گئی ۔ کہیں عبادات کا اثر کردار اور اخلاقیات سے اُٹھ گیا تو کہیں سیاست تجارت اور دھندہ بنتی چلی گئی‘ ریاست ماں نہ بن سکی اور دانشوری افکار اور نظریات کی ضد بننے کے علاوہ دانش سے عاری ہوتی چلی گئی۔ ضرورتیں اور مصلحتیں مجبوریوں کا وہ طوق بنتی چلی گئیں کہ قول و فعل کے تضاد پر سبھی نازاں اور اترائے پھرتے ہیں۔ کہیں ننھے منے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ اوزار دے دئیے گئے تو کہیں طلب کی چادر بنیادی ضروریات کا کفن بن گئی۔ قانون اور ضابطے کمزور کے لیے عذاب اور طاقتور کے لیے اس کا ہتھیار بن گئے۔ زمین دادرسی اور انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوئی تو قدرت کی مدعیت میں آسمانوں پر مقدمات درج ہونے لگے‘ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں آج بھی انصاف کے لیے بھٹک رہی ہیں۔
اشرافیہ کی اکثریت ہوشربا ترقی اور مال و زر کے انبار کا حساب دینے سے قاصر اور ناکام ہے۔ منطق اور دلیل کے باوجود وکالتیں بے اثر اور بے بس ہیں۔ فلاح اور بھلے کے نام پر صدقات‘ خیرات اور عطیات جمع کرنے والے شکم پروری سے بندہ پروری تک‘ محفلِ یاراں سے بزمِ ناز تک‘ تام جھام سے اَللّے تلّوں‘ موج مستی اور سیر سپاٹوں تک سبھی اخراجات اس مال سے کر رہے ہیں جو دینے والوں کی آمدن کا میل کچیل ہوتا ہے۔ انسانیت کے نام پر اکٹھا کیا جانے والا صدقہ بلائیں تو کھا جاتا ہے لیکن معاشرے میں ایسی بلائیں بھی موجود ہیں جو صدقہ کھاکر نازاں اور اترائی پھرتی ہیں۔ عوام سے خواص بننے والے ضرورتوں کی دلالی سے لے کر اَنا اور خوداری پر سمجھوتوں کے ساتھ ساتھ مار دھاڑ سمیت حرام حلال سے بے نیاز ہیں۔ ثانوی اور واجبی پس منظر رکھنے والے کم مایہ بستیوں سے نکل کر پوش اور مہنگے علاقوں کے محلات اور کوٹھیوں میں کس طرح آن بسے ہیں یہ معمہ پون صدی سے حل طلب ہی رہا ہے۔ سرکاری بابوؤں کی تنخواہیں ان کے طرزِ زندگی‘ اثاثوں اور ذوق و شوق کے آگے بے معانی اور حقیر ہیں۔ یہ سبھی تضادات ہماری ریاست اور سیاست کا وہ اصل اور بھیانک چہرہ ہے جسے ہم کبھی جمہوریت کا حسن تو کبھی حکمرانی کا اعجازسمجھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر آرمی چیف کے ساتھ وطن پر جان نثار کرنے والے شہید کی کم سن بچی کا ایک مکالمہ وائرل ہوا ہے۔ بچی کی فریاد اور دہائی پر ذرا غور کریں تو پورے ملک میں بسنے والے رعایا نما عوام اس بچی کی جگہ کھڑے نظر آئیں گے۔ بچی نے آرمی چیف کو سامنے پاکر بے اختیار فریاد کر ڈالی کہ وڈیرا ہماری زمین پر پانی چھوڑ دیتا ہے جس پر آرمی چیف نے وڈیرے کے نام جو پیغام اور حکم جاری کیا اس کے بعد یقینا وڈیرا اب پانی چھوڑنا تو درکنار ایسا سوچے گا بھی نہیں۔ کاش! ہمارے سماج سیوک نیتاؤں کی بھی کوئی خبر لے‘ جو عوام کی چھوٹی چھوٹی خواہشات سے لے کر حسرتوں اور ارمانوں سمیت مستقبل کے سبھی سہانے خوابوں پر پانی پھیرتے چلے آرہے ہیں۔ پانی چھوڑنے والا وڈیرا ہو یا پانی پھیرنے والے حکمران‘ جس طرح سبھی ایک برابر ہیں وہاں عوام کو بھی ان شہدا کی اولادیں ہی تصور کر لیں جو شوقِ حکمرانی کے عذاب بھگتتے بھگتتے نسل در نسل رزقِ خاک بنتے چلے آئے ہیں۔ جس طرح جل کر اور ڈوب کر مرنے والوں سمیت دیگر ذرائع سے ناگہانی موت کا شکار ہونے والے شہادت کے کسی نہ کسی درجے پر فائز ہوتے ہیں اسی طرح مملکتِ خداداد میں پیدا ہونے سے لے کر موت تک عام آدمی جن حالات سے گزرتا ہے وہ سبھی ان ناکردہ جرائم کی سزا ہوتے ہیں جس کے وہ کبھی مرتکب ہی نہیں ہوئے۔اس تناظر میں طرزِ حکمرانی کی تاب نہ لاکر مرنے والے بھی شاید شہادت کے کسی نہ کسی درجے پر ضرور فائز ہوں ۔
جس طرح آرمی چیف نے شہید کی بیٹی کے سر پر دستِ شفقت رکھا ہے عوام بھی اسی دستِ شفت کے مستحق ہیں‘ وہ بھی نسل در نسل شوقِ حکمرانی کی بھینٹ چڑھتے چلے آتے ہیں۔ میں کوئی سکالر تو نہیں لیکن کچھ استعاروں کا سہارا لے کر باور کروانے کی جسارت ضرور کرنے جا رہا ہوں کہ ناکردہ گناہوں کے عذابوں اور عتابوں کو بھگتتے بھگتتے زندگیاں ہارنے والوں کو اگر علامتی شہید ہی مان لیں تو بچ جانے والے زندہ عوام غازیوں سے کم نہیں‘ جو پہلی سانس سے لے کر آخری ہچکی تک نسل در نسل ان بنیادی سہولتوں سے محروم چلے آرہے جو بحیثیت انسان ان کا بنیادی حق ہے۔ جنہیں بچپن کی بے فکری نصیب ہے اور نہ بڑھاپے کا سہارا۔ ان کی جوانیاں تو اُن سبھی کی حکمرانیاں ہی کھا گئیں‘ یہ سبھی محرومیاں اگلی نسلوں کو ترکے میں دے کر مرتے چلے آئے ہیں۔ کیا یہ یونہی رُلتے اور مرتے رہیں گے؟ خدارا! کچھ توجہ ان کی طرف بھی۔