آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی شٹل ڈپلومیسی کے نتیجے میں امریکہ‘ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات میں کچھ توازن پیدا ہو رہا ہے۔ اٹھارہ سالوں میں پہلی بار افغان طالبان کی طرف سے عیدالفطر کے تین دنوں کے لیے سیزفائر پہ آمادگی اور صوبہ کنڑ میں امریکی ڈرون حملے میں تحریکِ طالبان کے امیر ملا فضل اللہ کی ہلاکت باہمی اعتماد کے رشتوں کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب تک پاکستان اور امریکہ کے مابین بد اعتمادی کی تاریکی چھٹتی نہیں‘ اُس وقت تک افغانستان میں وسیع تر مفاہمت کے امکانات معدوم رہیں گے۔ تین دن کے وقفے کے بعد طالبان نے دوبارہ طبلِ جنگ بجا دیالیکن افغان حکومت نے عید کے بعد بھی یکطرفہ جنگ بندی جاری رکھنے کا فیصلہ کرکے دیرپا مفاہمت کا اشارہ دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغان گورنمنٹ اور طالبان عسکریت پسندوں کے مابین امن مذاکرات میں سہولت کاری کی پیشکش کرکے اس جنگ کے تمام سٹیک ہولڈرز کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا امریکی قیادت اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ ان کے اصل مفادات افغانستان میں نہیں بلکہ نیوکلیئر پاکستان کی بقا سے وابستہ ہیں؟ کیا امریکی افغانستان کی بے مقصد جنگ کے اس جہنم میں چہل قدمی کا شوق پورا کرکے اپنے چہرے جھلسانے کی بجائے نیوکلیئر پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں؟ شاید یہی سچ ہو‘ اسی لئے امریکی مصیبتوں بھری ہزیمت کے بجائے ایک ایسی نمائشی فتح پہ اکتفا کر لینے کو تیار نظر آتے ہیں جو دنیا کی واحد سپر پاور کی ساکھ کا معقول لباس بن سکتی ہے۔ پاکستان کے لئے بھی یہ مفاہمت علاقائی تنازعات سے جان چھڑانے کا نادر موقعہ ثابت ہو گی۔ ہم ایک ایسی جنگ سے دامن بچا کے خود کو امن و ترقی کی شاہراہ پہ گامزن کر سکتے ہیں‘ جس کی افادیت اب ختم ہو چکی ہے۔ افغانستان میں اب صرف جنگ ہی رہ گئی ہے‘ اس کی لذت باقی نہیں رہی۔
پچھلی سات دہائیوں میں پاک امریکہ تعلقات پُرجوش ملاپ اور ایک افسردہ کر دینے والی جدائی کے درمیان جھولتے نظر آتے رہے۔ بسمارک نے کہا تھا ''قوموں کے باہمی روابط میں اخلاق کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘‘ اگر حقیقت یہی ہے تو پھر ہم امریکہ کو اور امریکی ہمیں ناقابل بھروسہ دوست کیوں سمجھتے ہیں؟ جب پلٹ کے دیکھتے ہیں تو ہمیں پاک امریکہ تعلقات میں کنفیوژن اور ایسی عمیق پیچیدگیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا‘ جن کی توضیح ممکن نہیں۔ حتیٰ کہ سرد جنگ کے تقاضے بھی ان رشتوں کو استحکام نہ دے سکے۔ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان اور اس عہد کے امریکی صدور،کینیڈی اور جانسن کے درمیان دوستی عروج کو چھوتی رہی لیکن جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں امریکہ سے دوستی کے رشتے کمزور ہوتے نظر آئے۔ 1971ء میں پاکستانی مقتدرہ کی بنگال میں ساتویں امریکی بحری بیڑے کے انتظار میں آنکھیں پتھرا گئیں، مگر وہی سانحۂ بنگال شاید ہماری مقتدرہ کو دفاعی خود انحصاری کا سبق پڑھا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی جمہوریت اس دفاعی خود انحصاری کے تصور کی ہی پیداوار تھی۔ 1979ء میں افغانستان میں روسی مداخلت ایک بار پھر صدر جمی کارٹر اور بعد ازاں ریگن کو جنرل ضیاالحق کے قریب لے آئی اور اس صورتحال نے ہی دنیا کی پہلی مسلم ایٹمی مملکت کے خواب کی تعبیر کو ممکن بنایا۔ 1987ء میں وہ جنیوا معاہدہ، دونوں ممالک کے اس دوستانہ رومانس کا اختتامیہ ثابت ہوا، جس میں افغانستان کے اندر ایک وسیع تر قومی حکومت کے قیام سے دانستہ گریز کرکے امریکہ نے خود ہی افغان سرزمین پہ کبھی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کے افغان وار کی پیداوار جہادی تنظیموں کی حربی قوت اور سیاسی قیادت کو اسی آگ میں جلانے کی منصوبہ بندی کی۔ امریکی خفیہ اداروں نے افغان جنگجوئوں کے اثرات کو زائل کرنے کی خاطر طالبان اور القاعدہ کے ظہور کو یقینی بنایا جو بالآخر دو دھاری تلوار کی مانند امریکہ اور پاکستان دونوں کو کاٹنے لگے۔ اس سب کے باوجود 1996ء سے 7 اکتوبر 2001ء تک افغانستان میں طالبانی دور کو پاکستانی ریاست کے تزویری تحفظ کا احساس سمجھا گیا اور نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ ایٹمی پاکستان کی تزویری گہرائی کے اس اعتماد کو متزلزل کرنے کا سبب بنا۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کو مجبوراً قبول کرنے کے باوجود ایک موثر اتحادی کے طرح امریکہ کا ساتھ دیا‘ لیکن بن لادن کی گرفتاری میں عدم تعاون کو جواز بنا کر امریکہ نے پاکستان سے ہاتھ کھینچ لئے۔ صدر بل کلنٹن کی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ پاکستان کو آدھے سر کا درد کہتی رہیں اور اب امریکی خفیہ ادارے یہاں کے گلی کوچوں میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے؛ تاہم امریکی حکومتیں پاکستان کے بارے میں اپنے عزائم کو پوشیدہ رکھتی ہیں۔ واشنگٹن کی پالیسیوں پہ اثر انداز ہونے والے اہل دانش بھی خاص حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کی حمایت و مخالفت میں منقسم نظر آتے ہیں۔ بعض امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ پاکستان امریکی مقتدرہ کو افغانستان میں اپنے ابتدائی مفادات بارے قائل نہیں کر سکا، جس میں انڈیا کی پراکسی سے تحفظ بنیادی ایشو تھا۔ اس کے برعکس انڈیا ہمیشہ افغانستان کو مالی معاونت کی فراہمی پہ کمربستہ رہا، اسی لئے افغان لیڈرشپ کابل میں انڈیا کو خوش آمدید کہتی رہی۔ پاکستانی پالیسی ساز بھارتی مقتدرہ اورپاکستان مخالف افغانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پچھلے دو چار سالوں میں یہ شک یقین میں بدل چکا ہے۔
امریکی دانشوروں کے مطابق امریکہ بھی پاکستان کو افغانستان میں اپنے پرائمری مفادات کے تحفظ کی ضمانت دینے میں ناکام رہا اور امریکہ و پاکستان، دونوں امن کی خاطر نیک نیتی سے افغان طالبان کو مفاہمت پہ راضی نہ کر سکے۔ یو ایس اے پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کی بڑی منڈی اور امریکہ میں پاکستانی ساتواں بڑا مہاجر گروہ ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دے کر وسیع مالی امداد اور جدید ہتھیار فراہم کئے لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں انڈیا کے بڑے کردار کے اعلان کے بعد پاکستان کے دل میں سلگنے والی آگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ یہ سب کچھ فقط پاکستانی مقتدرہ کے غیر عقلی طرز عمل کا نتیجہ ہی نہیں بلکہ وہ بھی احمق ہیں جو افغانستان میںپاکستان کے کردار کو محدود دیکھنا چاہتے ہیں۔ خود امریکی کہتے ہیں: اگر افغانستان میں پاکستان مسئلہ ہے تو یہ پرابلم امریکی پالیسی سازوں کی اپنی حکمت عملی کی پیداوار ہے، جب تک امریکہ پوری دیانتداری کے ساتھ انڈیا کے کشمیر پہ ظالمانہ تسلط کے خاتمہ اور افغانستان میں پاکستان کے مفادات کے تحفظ پہ بھارت کو آمادہ نہیں کر لیتا اس وقت تک وہ افغانستان کے دلدل سے نکل نہیں پائے گا۔ امریکہ اورپاکستان، دونوں اپنے تعلقات سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ بہت سے معاملات اور بہت سی وجوہات ہیں جو اس خطے میں امریکی مفادات کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں۔ نیوکلیئر بھارت کے ساتھ گرم سرحد‘ پاکستان کے پاس موجود ایک سو سے زیادہ وہ ایٹمی ہتھیار‘ چین کی ابھرتی ہوئی معیشت جس نے خطے کے ممالک پہ اثر انداز ہو کے پاکستان سمیت دیگر متعدد ممالک کے امریکہ پہ انحصار کو کم کر کے بالواسطہ امریکی قوت کو ضعف پہنچایا اور ان سب سے بڑھ کر تاریخ کا یہ اہم ترین اصول کہ جو چیز ابھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے امریکی فرضی حقائق کے جال میں پھنسے کے وسیع علم اور طاقت کے باوجود اپنے مقاصد اور منصوبوں کے متعلق پختہ یقین کھو بیٹھے ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد جنرل مائک مولن کا یہ بیان کہ صوبہ وردگ میں خود کش ٹرک حملے میں77 امریکی فوجیوں کے زخمی ہونے اور افغانستان میں امریکی ایمبیسی پر خود کش مشن کے دوران امریکی سفیر کے 22 گھنٹوں تک بنکر میں پناہ لینے پہ مجبور ہونے جیسے حملوں کے پیچھے پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے، کافی حد تک اپنی طاقت کے بارے میں ان کی بے یقینی کا پتا دیتا ہے۔