"AAC" (space) message & send to 7575

انتخابات پہ بے یقینی کے سائے

عام انتخابات کی مہم کے دوران جہازی سائز کے پینا فلیکس، ہورڈنگ اور پوسٹرز کی بہار جمہوری عمل میں شہریوں کی پُرجوش تلویث اور زندگی کی بوقلمونی کا پتہ دیتی ہے۔ اگرچہ نت نئے قوانین و ضوابط کے ذریعے جمہوری آزادیوں کو پا بہ زنجیر بنانے کی کوششیں اور انتخابی سرگرمیوں کے ارد گرد منڈلاتے دہشتگردانہ حملوں کے خطرات کم نہیں ہوئے‘ اس کے باوجود پچھلے دس سالوں میں معاشرے کا سیاسی شعور بڑھا اور جمہوری روایات کی جڑیں گہری ہوئی ہیں؛ چنانچہ تمام تر خرابیوں کے باوجود دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے انعقاد کا تاریخی مرحلہ سماج کے اجتماعی نظم کو توانا اور فعال بنانے کا وسیلہ بنے گا؛ تاہم انتخابی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے میں خیبر پختون خوا کی عبوری گورنمنٹ نے اپنے مینڈیٹ اور دائرۂ عمل کو سمجھے بغیر معمول کے ان کاموں کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے‘ جنہیں سیکشن آفیسر کی سطح کا اہلکار بھی بخوبی سرانجام دے سکتا تھا۔ ول ڈیورانٹ کہتے ہیں ''قواعد و ضوابط کے پردوں میں جدید انسان کی جہالت چھپی ہے، اس لئے یہ دیانت کم اور جرأت زیادہ استعمال کرتا ہے‘‘۔ ہماری عبوری حکومت نے بظاہر انتخابی عمل کو غیرجانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف بنانے کی خاطر بیوروکریسی اور پولیس میں تبادلوں کا جو طریقہ اختیار کیا وہ خود فریبی کا دلچسپ نمونہ ثابت ہوا کیونکہ اس پیش قدمی نے کارپردازوں کی نااہلی کا پردہ چاک کر دیا۔ صوبائی حکومت نے اہم پوسٹوں پر تعینات پچھلی گورنمنٹ کے منظور نظر افسران کو نہیں چھیڑا‘ لیکن جن پولیس اور انتظامی افسران کے تبادلوں کا ہنگامہ کھڑا کیا، انہیں محض ری ایڈجسٹمنٹ تک محدود رکھا، گویا یہاں تحریک انصاف حکومت کی وفادار انتظامیہ ہی الیکشن کا انعقاد کرائے گی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ نگران حکومت نے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے چہیتے افسران کو تبدیل کرنے کی بجائے صرف ری ایڈجسٹمنٹ کرنے پہ اکتفا کر کے اس حساس صوبے میں نئی روایت قائم کر ڈالی؛ البتہ ایک مقتدر شخصیت، جس کا بیٹا لیبر ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہے، نے اپنی ذاتی رنجش کی بنا پہ صرف لیبر، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور ماحولیات کے سیکرٹریز کو تبدیل کرا دیا‘ لیکن داخلہ، خزانہ، پی اینڈ ڈی، تعلیم، بلدیات، سپورٹس اینڈ کلچر، سی اینڈ ڈبلیو، ٹرانسپورٹ اور اوقاف جیسے اہم محکموںکے سیکرٹریز اور پشاور سمیت سنٹرل ڈویژنز کے کمشنر بدستور اپنے عہدوں پہ قائم ہیں۔ حیرت انگیز طور پہ کمشنر ڈیرہ کو کمشنر بنوں، آر پی او بنوں کو آر پی او ڈیرہ‘ آر پی او ڈیرہ اسماعیل خان کو آر پی او بنوں، آر پی او ہزارہ کو آر پی او مالاکنڈ‘ آر پی او مالاکنڈ کو آر پی او مردان اورآر پی او مردان کو آر پی او ہزارہ تعینات کر کے انتظامی ڈھانچے کو بدلنے کی بجائے عملاً صرف 30 افسران کی ری ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔ اگر متذکرہ بالا افسران کو ایک سے دوسرے ریجن میں ایڈجسٹ ہی کرنا تھا تو پھر تبادلوں کی اس بے فیض مشق کی ضرورت کیا تھی؟ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق حالیہ تبادلوں میں صرف انیس پولیس آفیسرز، آٹھ کمشنر اور تین ڈپٹی کمشنرز کو ری ایڈجسٹ کیا گیا۔ صوبے میں تعیناتی کے منتظر سینکڑوں افسران اب بھی اسی طرح نظر انداز کئے گئے جس طرح پی ٹی آئی عہد حکومت میں انہیں کھڈے لائن لگایا گیا تھا۔ اس مہمل مساعی کے بعد سول بیوروکریسی میں اضطراب بڑھ گیا اور صوبائی حکومت کی ساکھ پہ انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ اس کے برعکس پنجاب میں جس بے رحمی کے ساتھ سیکرٹریز سے لے کر ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنرز اور آئی جی پی سے لے کر انسپکٹرز تک کے اہلکاروں کے بلا تفریق تبادلے ہوئے اس سے چند دنوں کے اندر مسلم لیگی دور کا پورا انتظامی ڈھانچہ معدوم ہو گیا۔ پنجاب کی عبوری حکومت نے چونتیس سے زیادہ آفیسرز وفاق کو سرنڈر کئے جن میں اٹھارہ سینئر پولیس افسران بھی شامل تھے‘ لیکن خیبر پختونخوا سے کسی ایک ڈی ایم جی آفیسر یا پولیس آفیسر کو وفاق کے حوالے نہیں کیا گیا۔ بہرحال ان ساری پیش رفتوں کے باوجود انتخابی سرگرمیوں کی طاقتور لہر اپنی پوری توانائی کے ساتھ اجتماعی زندگی کے فطری رجحانات کو حرکت کناں کرکے معاشرتی تضادات میں توازن پیدا کرنے میں سرگرداں نظر آتی ہے۔
اس دفعہ خیبر پختون خوا کے ڈیڑھ کروڑ ووٹوں میں 25 فیصد نوجوان ووٹرز کا اضافہ ٹرن آئوٹ بڑھانے اور انتخابی مہم کے جوش و خروش میں اضافے کا سبب بنے گا۔ انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کرنے والی تنظیموں کے سروے کے مطابق قوانین سے آگاہی اور سیاسی شعور بڑھنے سے الیکشن میں دھاندلی کے امکانات کم اور شخصیت پسندی کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ ووٹرز کی قابل لحاظ تعداد اب سیاسی ہیروز کی بجائے مملکت کی تعمیر و ترقی اور معاشرتی فلاح کے پروگرام پیش کرنے والی جماعتوں کی پیروی کرتی ہے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے مابین کم و بیش ون آن ون مقابلہ کی توقع ہے لیکن سندھ،خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں منقسم مینڈیٹ مخلوط حکومتوں کے قیام کی راہ ہموار بنائے گا۔ خیبر پختون خوا کی 99 صوبائی نشستوں میں سے کوہاٹ سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک کے سات جنوبی اضلاع کے 21 حلقوں میں ایم ایم اے کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے؛ تاہم وسطی خیبر پختون خوا کے پانچ گنجان آباد شہروں پشاور، چارسدہ، مردان، صوابی اور نوشہرہ کی 38 نشستیں، حکومت سازی میں بنیادی کردار ادا کریں گی۔ پشاور ویلی میں پی ٹی آئی اور ایم ایم اے میں گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے لیکن یہاں اے این پی، قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے محدود ووٹ طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل نے اگر وسطی اضلاع میں نواز لیگ اور اے این پی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی تو نتائج حیران کن بھی ہو سکتے ہیں؛ تاہم تحریک انصاف انہی پانچ وسطی اضلاع سے زیادہ نشستیں ملنے کی امید لگائے بیٹھی ہے لیکن داخلی خلفشار اور ناقص انتخابی حکمت عملی کی بدولت پی ٹی آئی تاحال وسطی اضلاع کے آزاد ووٹرز کی توجہ حاصل کر پائی نہ انتخابی مہم کو مومنٹم دینے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ سوات، مالاکنڈ اور چترال کی24 نشستوں پہ ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کے علاوہ نواز لیگ کے کئی امیدواروں کی پوزیشن بھی مضبوط ہے۔ ہزارہ ڈویژن کی 16 صوبائی نشستوں پر اگرچہ نواز لیگ کا پلڑا بھاری سمجھا جاتا ہے لیکن اس بار ہزارہ میں بھی نواز لیگ اور پی ٹی آئی میں سخت مقابلہ ہو گا۔ سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے35، جے یو آئی نے 13، جماعت اسلامی نے 7 اور نواز لیگ نے 13 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اسی طرح قومی وطن پارٹی نے 7، اے این پی نے 4، پیپلز پارٹی نے 3سیٹیں حاصل کیں، جنرل مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کا 1 اور 12 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے‘ جن کی اکثریت نے حکمراں جماعت کو جوائن کر لیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی تبدیلی فریب کے سوا کچھ نہیں تھا‘ کیونکہ سیاسی طاقت فقط شکل بدلتی ہے اپنی فطرت نہیں بدلتی (جیمز سٹفن)، اس لئے تحریک انصاف کی قیادت، جس نے اپنی پیٹھ پہ جمہوری نظام کے زخم نہیں کھائے، باغیانہ مسرت کی تلاش میں سرگراں رہی۔ بلاشبہ واقعات کا پس منظر ہی حقائق کے ادراک کا واحد طریقہ ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنی فطری حلیف جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کو نظرانداز کرکے تنہا میدان میں اترنے کا فیصلہ کرکے اس صوبے کی سیاست کو سمجھنے میں اپنی کم مائیگی کا تاثر گہرا کیا ہے۔ کہنہ مشق تجزیہ کاروںکے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مخالف سیاسی قوتوں کے غیر علانیہ اشتراک کے باعث اس بار تحریک انصاف کی سیٹیںکم اور ایم ایم اے کی نشستیں بڑھ جائیں گی۔ کیا ایم ایم اے ایک بار پھر سیاسی قوت بن کے ابھرنے والی ہے؟ جی ہاں، اس پُرزور اور پیچیدہ عہد میں اگرچہ مذہبی جماعتیں سیاسی محرکات پہ پردہ ڈالنے کی خاطر مذہب کو استعمال کرتی رہیں‘ لیکن ایم ایم اے نے عملاً مذہبی نعروں کو ترک کر کے انسانی دکھوں کے مداوے، سماجی انصاف اور معاشرتی فلاح کو اپنے منشور کا حصہ بنا کے خود کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر لیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن جیسا عملیت پسند سیاستدان‘ جو مذہبی جماعتوں کو سایوں کا تعاقب کرنے والی مزاحمتی تحریکوں کی وادیٔ پُرخار سے نکال کے اقتدار کے گلستانوں تک لے آئے‘ اب طاقت کے مراکز کے قریب اور اقتدار کی حرکیات کو سمجھنے والے سیاستدان کے طور پہ جانا جاتا ہے؛ چنانچہ قوی امکان ہے کہ ایم ایم اے خیبر پختون خوا کے علاوہ بلوچستان اور سندھ میں بھی بہتر نتائج لائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں