افغان تنازعہ کے حل کی خاطر امریکی نمائندوں اور طالبان وفود کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے چھ روزہ مذاکرات میں فریقین تنازعہ کے حل کے لئے بنیادی اصولوں پہ متفق ہو سکے‘ نہ جزیات پہ اتفاق رائے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے؛ تاہم دونوں گروہوں نے جلد کسی قابل عمل فارمولے تک پہنچنے کے اشارے ضرور دیئے ہیں۔ طالبان‘ جو پہلے سیز فائر کے امکان کو مسترد کر دیتے تھے‘ اب اس سوال پہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کہتے ہیں کہ وقت نے حصول امن کے مواقع پیدا کر دیئے‘ اب افغان تنازعہ کے حل کی کنجی خود افغانوں کے ہاتھ میں ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ طالبان کی پہلی خواہش غیر ملکی فورسز کا فوری انخلا، امریکیوں کی ترجیح اول سیز فائر اور افغان گورنمنٹ امن مذاکرات میں شمولیت کی متمنی نظر آتی ہے۔ سن دو ہزار بارہ کی ملٹی نیشنل کانفرنس کی ناکامی کے بعد دنیا نے تسلیم کر لیا تھا کہ افغانستان کی اصل سیاسی قوت طالبان ہیں، اس لئے آج امریکی فورسز کے انخلاء کا مطلب ہو گا، کابل میں طالبان کی واپسی، جو اس خطہ کی تاریخی جدلیات، تہذیبی رجحانات ، سیاسی حرکیات اور معاشی جہتوں میں کئی جوہری تبدیلیوں کا پیغام لائے گی۔ اس وقت بھارت کے سوا خطے کی تمام مملکتیں امن عمل میں شریک ہو گئیں‘ کیونکہ علاقائی طاقتوں کی طالبان کے ساتھ وابستگی ہی ان کے لئے نئے امکانات سے استفادے کا تعین کرے گی؛ تاہم بھارت کے لئے طالبان پہ پاکستان کا اثر و رسوخ ہی اصل مسئلہ ہے، شاید اسی لئے انڈیا طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کی مخالفت کرتا رہا ہے کیونکہ اسے صاف دکھائی دے رہا تھا کی طالبان کی طاقت پاکستان کے بھارت مخالف ایجنڈے کو تقویت پہنچائے گی‘ لیکن ایک وسیع تناظر میں عالمی برادری نے بھارت کے اعتراضات کو در خور اعتنا نہ سمجھا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 1979 سے لے کر اب تک انڈیا نے طالبان حکومت کے سوا افغانستان کی ہر حکومت سے خوشگوار تعلقات رکھے۔ اس لئے طالبان کی بالا دستی والے افغانستان میں ان کے پاس کوئی چوائس نہیں ہو گی۔ یہ بھی سچ ہے کہ چالیس سالوں پہ محیط افغان تنازعہ میں صرف بھارت ہی ایسا ملک تھا جس نے مہاجرین کی میزبانی کی‘ نہ ہی مہیب جنگ میں اپنی افرادی قوت جھونکی‘ اس لئے وہ اس جنگ کے نتائج پہ اثر انداز ہونے کی صلاحیت کھو بیٹھا؛ تاہم کسی حد تک وہ اپنے روایتی اتحادیوں روس اور ایران کی وساطت سے اپنی پالیسیوں کے مضمرات پہ قابو پانے کی کوشش ضرور کرے گا۔ بلا شبہ طویل مدتی تزویری توازن کے لئے اب وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا خواہش مند بھی ہو گا، اس پورے تناظر میں بھارت کی دو ترجیحات رہیں‘ اول افغانستان میں پاکستان کے اثر و رسوخ کو محدود کر کے وہاں بھارتی مفادات کے خلاف کارروائیوں کا تدارک کر سکے۔ دوسرے وسط ایشیائی ریاستوں کی انرجی مارکیٹ تک رسائی حاصل کر لے۔ لیکن عقل مندوں نے کہا ہے کہ مملکتوں کے مابین مفادات کے حصول کا فیصلہ تلوار کرتی ہے، جو کار زار کشمکش سے باہر رہا وہ محروم رہے گا۔ چالیس سالوں پہ محیط اس طویل جنگ کے دوران پندرہ لاکھ افغان شہید اور کم و بیش ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ پاکستانی موت کی آغوش میں سو گئے۔ مہیب جنگ نے پاکستانی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان اور ریاست کے بنیادی ڈھانچہ کو برباد کر ڈالا؛ تاہم یہ نا قابل یقین کشمکش خطے کی سماجی و سیاسی اقدار اور قدیم میتھالوجی میں کئی صحت مند بنیادی تبدیلیوں کی محرک بھی بنی اور جنوبی ایشیا کی تہذیب و ثقافت اور سیاست و معیشت میں امکانات کے نئے دریچے کھول دیئے، جس کے سب سے زیادہ فوائد خود افغانوں کو ملیں گے۔ ''دی پٹھان‘‘ کے مصنف الف کیرو نے لکھا ہے کہ شوق جہاں بانی کے خُوگر افغان قبائل جنگیں تو لڑ سکتے ہیں‘ مگر رموز حکمرانی سے نا واقف نکلے، افغان اپنے چھوٹے سے ملک افغانستان کو کبھی منظم نہیں رکھ سکے‘‘۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ صدیوں سے افغانستان کا داخلی نظم و ضبط پراگندہ، ریاستی ڈھانچہ مضمحل اور حکومتیں انتشار کے لا متناہی سلاسل میں الجھی رہیں، یہاںکہ جمود پرور فضا میں معاشرتی نشوونما ہوئی نہ سیاسی ارتقاء کا عمل ہموار بنیادوں پہ استوار ہو سکا،۔ مختلف قبائل سماجی بالا دستی کے حصول کی خاطر ہمہ وقت محو جنگ رہے، خاص طور پر سلیمان خیل اور ناصر قبیلہ کے درمیان ایک خدو نامی خاتون کے تنازعہ پہ ڈیڑھ سو سال تک جاری رہنے والی باہمی غارت گری نے جنوبی افغانستان میں تہذیب و تمدن کی کونپلیں جلا ڈالیں، قبائلی عصبیتوں کی بدولت افغانوں کا سماجی نظام ازمنہ رفتہ کی فرسودہ روایات میں منجمد ہو کے رہ گیا‘ اور ایک طاقت ور ریاست کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کا سماج، سیاسی ارتقاء کی منزلیں طے کرنے کے قابل نہیں ہو سکا‘ لیکن اس طویل جنگ نے افغانوں کو قبائلیت کی یبوست سے نکال کے زندگی کی وسعتوں میں ایک قدم آگے بڑھنے کا موقعہ دینے کے علاوہ انہیں عقلی قومیت (Rational Nationility) کا شعور بخشا، انہیں دوست، دشمن کی پہچان اور باہمی عداوتوں سے دامن چھڑانے کی مہلت اور اپنے گرد و پیش کے ماحول سے باخبر رہنے کا احساس دے کر ان کی زندگی میں کلیت پیدا کی۔ اسی ذہنی ارتقاء کی بدولت انہیں داخلی انتشار اور بیرونی خطرات سے نجات ملنے والی ہے۔ اب وہ اپنی مملکت کی جغرافیائی حدود کے تحفظ اور ایک منظم ریاست کی صورت میں اس آزادی کو انجوائے کرنے کے قابل ہو جائیں گے‘ جو دنیا کی مہذب اقوام کو حاصل ہے۔ رومی کہتے تھے: دانش کبھی بھی الفاظ کے ذریعے آگے منتقل نہیں کی جا سکتی، یہ صرف مثال اور تجربہ کے ذریعے دوسروں تک پہنچتی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں افغانستان کی تعمیر نو کے امریکی انسپکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ''طالبان جنگجوئوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا، ان میں سیاسی بلوغت اور رموز حکمرانی کا ادراک پختہ ہوا اور اس طویل جنگ کے دوران ان کے ذہنی روّیوں میں کئی صحت مندانہ تبدیلیاں رونما ہوئیں‘‘۔ رپورٹ میں لکھا ہے ''گزشتہ اٹھارہ سالوں میں طالبان جنگجوئوں نے افغانستان کے بڑے حصہ کو، افغان گورنمنٹ سے زیادہ بہتر انداز میں کنٹرول کیا‘ اور اپنے زیر تصرف منطقہ میں درست طور پہ انتظام چلایا، اب وہ تنہائی میں جینے کی بجائے دنیا سے اپنی بہترین صلاحیتوں کی تائید چاہتے ہیں‘‘۔ گویا امریکی جان چکے ہیں کہ صرف طالبان ہی افغانستان کو کنٹرول کر کے یہاں امن لا سکتے ہیں۔
بلا شبہ جغرافیائی لحاظ سے افغانستان شمالی اور جنوبی ایشیا کے درمیان زمینی رابطے کا واحد ذریعہ اور پاکستان سمیت چین، بنگلہ دیش اور بھارت کی وسط ایشیائی ریاستوں کی انرجی مارکیٹ تک رسائی کا موثر وسیلہ ہے۔ لا ریب، اس لحاظ سے افغانوں کو ہمیشہ پاکستان کا ممنون احسان رہنا چاہیے، جس نے اخوت اسلامی کے عظیم رشتہ کی بنیاد پہ لا زوال قربانیاں دے کر انہیں اس قابل بنایا کہ وہ دنیا میں ایک منظم اور با عزت قوم کی حیثیت سے جینے کے قابل ہوئے، جس نے انہیں دنیا کی واحد سپر پاور کے ساتھ برابری کی بنیادوں پہ بات چیت کرنے کی سکت دلائی اور افغانستان کی جغرافیائی وحدت کو مربوط رکھنے کی خاطر انہیں قبائلی تفریق سے دامن چھڑانے کا اہل بنایا۔ ہمیں جنگ کی دیوی سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، بلا شبہ یہ درد ناک جنگ یہاں ایک نیّر رخشاں کے طلوع کی موجب اور ایک نئے دور کے افتتاح کا وسیلہ بنے گئی۔ افغان اب آزاد ہیں اور دنیا اس خطے میں پاکستان کی سیاسی اہمیت‘ عسکری حیثیت اور ایٹمی قوت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو چکی ہے۔ پاکستان زندہ باد!