تین ماہ کے مختصر وقفے کے بعد اٹھنے والی تشدد کی نئی لہر نے صرف چند دنوں کے اندر ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کے پانچ اہلکاروں کی جان لے لی۔ 29 جنوری کی سہ پہر نامعلوم دہشت گردوں نے اندرون شہر کے گنجان آباد محلہ قریشیاں میں سٹی ٹی ڈی پولیس کے کانسٹیبل کامران کو سر میں گولیاں مار کے موت کی نیند سلا دیا۔ دہشت گردوں کا تعاقب کرنے یا کوئی موثر رد عمل دینے کی بجائے پولیس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہی؛ چنانچہ اسی بے عملی سے حوصلہ پا کر 12 فروری کو ایک مسلح جتّھے نے مصروف ترین شاہرہ انڈس ہائی وے پر دن دہاڑے پروآ پولیس کی موبائل پہ یلغار کر کے چار پولیس اہل کاروں کو شہید کرنے کے بعد سرکاری اسلحہ بھی لوٹ لیا۔ پندرہ سے زیادہ حملہ آور پچھلی رات سے ہی انڈس ہائی وے کی غربی کنارے درختوں میں گھات لگائے بیٹھے تھے‘ لیکن کسی کو ان کی وہاں موجودگی کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ پولیس وین جونہی قریب پہنچی، دہشت گردوں نے سامنے، دائیں اور عقب سے حملہ کر کے ڈرائیور اور پیچھے بیٹھے تین جوانوں کو موقعہ پہ ڈھیر (شہید) کر دیا؛ تاہم فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ایس ایچ او طاہر نواز نے زخمی ہونے کے باوجود گاڑی سے نکل کے کرالنگ کرتے ہوئے ہائی وے کے مشرقی کنارے واقع چھوٹی سی مسجد کی دیوار کے پیچھے پوزیشن لے کر جان بچائی۔ موقعہ واردات کے آس پاس بارود سے بھرے موٹر سائیکل رکشہ کے علاوہ ایک کالعدم تنظیم کے پمفلٹ اور قریبی درختوں سے چند رضائیاں اور کمبل بھی برآمد ہوئے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے پولیس کو نشانہ بنانے کے لئے متبادل پلان تیار کر رکھا تھا۔ پولیس وین اگر پٹرول پمپ کی طرف موڑی جاتی تو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے رکشہ میں نصب بارودی مواد دھماکے سے اسے نشانہ بنایا جاتا۔
دہشت گردوں کی اتنی بڑی تعداد کا دن دہاڑے پولیس موبائل پہ حملہ اس امر کی نشان دہی تھا کہ اس علاقہ میں تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کی قابل لحاظ تعداد موجود ہے، جو لمبے عرصے تک پولیس پہ حملے کرتی رہے گی۔ ضلع کی تین تحصیلوں، کلاچی، پروآ اور ڈیرہ سٹی میں فعال ٹارگٹ کلرز کا یہی نیٹ ورک بغیر کسی رکاوٹ کے ایک مخصوص فرقے کے علاوہ پولیس کو ٹارگٹ کرتا ہے۔ انہی کے ہاتھوں سن دو ہزار سترہ میں دس پولیس اہل کار اور سن دو ہزار اٹھارہ میں تیرہ پولیس والے شہید ہوئے، خدا خیر کرے، اب دو ہزار انیس کے پہلے ڈیڑھ ماہ میں ٹارگٹ کلنگ کی دو وارداتوں میں پولیس کے پانچ جوان شہید ہو چکے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پولیس ان کے خلاف آپریشن کر سکتی ہے نہ دہشت گردوں کے مکمل قلع قمع کی صلاحیت رکھتی ہے؛ چنانچہ پچھلے دس سالوں سے پولیس اہلکار بغیر کسی موثر مزاحمت کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جس بے کسی سے شہید ہو رہے ہیں‘ اس نے فورس کے مورال کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ میرے خیال میں پولیس شہر کے انتظامی امور اپنے سر لینے کی بجائے اگر تھوڑی سی گنجائش ڈپٹی کمشنر کو دیتی تو انہیں پبلک ڈیلنگ کی سرگرانی سے نجات ملتی، جس سے پولیس کا ڈیٹرنٹ مضبوط ہوتا۔ افسوس کہ لا محدود اختیارات کے حصول کا سودا پولیس کو مہنگا پڑا۔ پچھلے سترہ سالوں میں دہشت گردی کی مہیب لہروں نے سماجی تحفظ کی آخری فصیل یعنی پولیس فورس کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق 1970ء سے 2006ء تک، چھتیس سالوں میں ڈیوٹی کے دوران خیبر پختون خوا پولیس کے 275 اہلکار شہید ہوئے‘ لیکن 2006ء سے 2017ء کے گیارہ سالوں میں اٹھنے والی تشدد کی لہر1265 افسران و جوان نگل گئی۔
حیرت انگیز طور پہ دہشت گردی کی جنگ میں مسلح تنظیموں نے معاشرے کو براہ راست نشانہ بنانے کی بجائے‘ پولیس فورس کو ٹارگٹ کر کے ملک کی سول اتھارٹی کو تحلیل کرنے کی زبردست کوشش کی‘ جس نے قانون کی عمل داری کے ذریعے معاشرے کو منظم رکھنا تھا۔ دہشت گردی کی جدید سائنس کا یہ مہلک ترین حربہ تھا‘ جس میں تشدد کے ذریعے روایتی انتظامی ڈھانچے کو منہدم کر کے معاشرے کو انارکی اور کبھی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنا مطلوب تھا۔ بلا شبہ پولیس کو مرنے کے لئے تیار نہیں کیا جاتا‘ بلکہ دنیا بھر میں پولیس کا اصل ماٹو Survive to Protect ہے، لیکن ان بیس سالوں میں بتدریج پولیس فورس کی ہیئت تبدیل کر کے انہیں جانوں کی قربانیاں دینے کے لئے تیار کیا گیا۔ دوسری جانب جنرل مشرف کے نئے بلدیاتی نظام کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے ہنگام ڈسٹرکٹ مینجمنٹ سسٹم کی بساط لپیٹ کر پولیس فورس کو موثر انتظامی کشن سے جدا کر کے براہ راست سوسائٹی کے سامنے صف آرا اور دہشت گردوں سے نبرد آزما کر دیا گیا۔ نہتے شہریوں پہ پولیس کی دست درازیوں کو روکنے کے لئے پبلک سیفٹی کمیشن جیسے ادارے کو متعارف کرانے کی نوید تو سنائی گئی‘ لیکن بالا دستی کے زعم میں مبتلا پولیس نے نئے ایکٹ کی وساطت سے اختیارات و مراعات تو کشید کر لیں‘ لیکن سیفٹی کمیشن کی تخلیق کی راہ میں روڑے اٹکا کے خود ہی ان معاون اداروں کو اپنے وجود سے الگ کر دیا‘ جن کی وابستگی اسے طاقت فراہم کر سکتی تھی۔ اس سے قبل ضلعی انتظامیہ اور مجسٹریسی نظام معاشرے کو مینج کرتا اور پولیس کرائم فائٹنگ فورس کی طور پہ اپنے ڈیٹرنس کو محفوظ رکھتی تھی‘ لیکن اب جرائم کی بیخ کنی، انتظامی نظم و نسق اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پولیس تنہا لڑے گی، اس لئے پولیس کمانڈ کے لب و لہجہ میں مصنوعی خود اعتمادی اور فورس میں جنگی جارحیت کا جوش بھرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ ادھر سٹی ٹی ڈی، ایلیٹ فورس اور پولیس کمانڈوز کے جنگی مزاج نے معاشرے کی نازک انگلیوں کو تو کچل ڈالا لیکن پولیس عملاً دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی کر سکی‘ نہ ہی انتظامی امور چلانے کے قابل ہوئی؛ چنانچہ اب یہ سوال اہمیت اختیار کر رہا ہے کہ پولیس کرائم فائٹنگ فورس ہے یا کوئی دفاعی ادارہ؟ کیونکہ پچھلے دو تین سالوں سے پولیس شہدا بارے منعقد ہونے والی تقاریب میں پولیس کمانڈ کا لب و لہجہ دفاعی اداروں کی کمانڈ سے مماثل دکھائی دیا۔ اب وہ جرائم کے قلع قمع اور معاشرے کو منظم رکھنے کی بجائے جنگ و امن اور ملک دشمن قوتوں سے نبرد آزما ہونے کی بلند آہنگ باتیں کرنے کے علاوہ اپنے حقوق و فرائض کے تعین کا اختیار خود اپنے ہاتھ میں لیتے نظر آتی ہے۔ اسی تعلّی نے پولیس کو ایک متوازی گورننس کی راہ دکھا کے سول انتظامیہ کے مقابل لا کھڑا کیا۔ ابھی حال ہی میں قبائلی اضلاع کے انتظامی امور نمٹانے کے معاملہ پہ ایپکس کمیٹی میں آئی جی پی اور چیف سیکرٹری کے مابین تلخی انہی تغیرات کا شاخسانہ تھی۔ کیا اب پولیس انتظامی ڈھانچے اور قانونی نظام سے ماورا ہو گئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان خود پولیس کو اٹھانا پڑے گا کیونکہ تمام سرکاری اداروں کی باہمی جڑت اور ایک مربوط انتظامی ڈھانچہ ہی موثر قوت بن سکتا ہے۔ اگر کوئی ادارہ سسٹم سے نکل کر سولو فلائٹ کی کوشش کرے گا تو لا محدود اختیارت کے باوجود تباہ ہو جائے گا۔ وہ وقت آ گیا ہے کہ پولیس خود کو اس سول نظام سے جوڑے، جس سے وابستگی میں اس کی قوت کا راز پنہاں تھا، اس کے بغیر وہ برادر اداروں کی معاونت حاصل نہیں کر پائے گی؛ اگرچہ نئے آئی جی پی نعیم خان نے صوبہ بھر کے آر پی اوز اور ڈی پی اوز کو پہلی ہدایت یہی دی کہ بہترین پولیسنگ کا اصل پیمانہ عوامی اعتماد کا حصول ہے۔ پولیس کو اختیار ضرور دیا گیا لیکن ذمہ داریوں سے پہلو تہی قابل قبول نہیں ہو گی، پولیس، ضلعی انتظامیہ، سیشن ججز اور ماتحت عدلیہ سے بہتر روابط اور پیشہ ورانہ تعلقات استوار کرے۔ انتظامیہ اور عدلیہ سے صرف بہتر تعلقات قائم کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، ہم سب کی بقا اسی میں ہے کہ پولیس سویلین اتھارٹی کے تابع رہے۔