بظاہر تو ڈیرہ اسماعیل خان میں اجتماعی حیات کی روانی ہموار دکھائی دیتی ہے‘ مگر سطح کے نیچے موجود نفرتوں کی آتش فشانوں سے اٹھنے والی تشدد کی چنگاریاں وقفے وقفے سے گلستانِ سماج کی نازک کلیوں کو جھلساتی رہتی ہیں۔ فرقہ وارانہ دہشتگردی کے اسی عفریت نے پولیس کے بعد اب واسا کے دو اہلکاروں کو نگل لیا۔ بے باک ٹارگٹ کلرز نے نظام خان گیٹ کی پولیس چوکی کے سامنے عملہ صفائی کی نگرانی کرنے والے اہلکار قیصر عباس سمیت خاکروب دلاور علی کو سر میں گولیاں مار کے موت کے گھاٹ اتار دیا‘ لیکن مسلح پولیس اہلکار قاتلوں کا تعاقب کرنے کی بجائے بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ تھکے ہوئے سپاہی اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتے تھے؟ لیکن اس سے بھی زیادہ اذیت ناک منتخب قیادت کی انسانی دکھوں سے لا تعلقی اور انتظامی افسران کی وہ روایتی بے حسی تھی، جس نے متاثرہ خاندانوں کے زخموں پہ نمک پاشی کا کام کیا۔ کوئی ممبر اسمبلی دلجوئی کیلئے پہنچا‘ نہ کسی سرکاری افسر نے مظلوموں کے آنسو پونچھنے کی زحمت گوار کی۔ ذمہ داروں نے حسب روایت مقتولین کے جسد خاکی کے ساتھ اس سانحہ کو بھی منوں مٹی تلے دفن کر دیا۔ ریاست کے مرکز سے دور اور نظر انداز کردہ خطوں کی بد نصیبی یہی رہی ہے کہ یہاں کی منتخب لیڈر شپ اور انتظامی افسران کسی خاموش معاہدے کے تحت ایک دوسرے کی کوتاہیوں سے چشم پوشی کے ذریعے باہم تعاون جاری رکھتے ہیں۔ انتظامی افسران فرض کی ادائیگی کی بجائے ان گمبھیر مسائل کو قالین کے نیچے دبانے کو دانائی سمجھتے ہیں، جنہیں اگر وہ بر وقت نمٹا دیتے تو آج ہمیں یہ روز سیاہ نہ دیکھنا پڑتے اور منتخب نمائندے اسمبلی فلور پہ کھڑے ہو کے یہ نہ پوچھتے کہ انتظامی اتھارٹی اپنا فرض ادا کیوں نہیں کرتی؟ روزمرہ عوامل سے پیدا ہونے والے مسائل رفتہ رفتہ جمع ہو کے انبار میں بدلتے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ وقت کے ساتھ انتہائی پیچیدہ بھی ہو جاتے ہیں، جیسے تجاوزات کی بھرمار۔ یہ معاملہ اب اتنا گمبھیر ہو چکا ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن بغاوت کا سبب بن سکتا ہے، اس لئے کوئی انتظامی افسر اس میں ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرتا۔ مستزاد یہ کہ ہزاروں ایکڑز پہ محیط سرکاری اراضی پہ قبضہ ہو یا اندرونِ شہر کی سرکاری املاک پہ ناجائز تصرف، یہ سارے دھندے اب ادنیٰ و اعلیٰ اہلکاروں کی آمدن کا مستقل وسیلہ بھی ہیں۔ دراصل اس مملکت کی رگوں میں بن کمائی دولت کا زہر پھیل چکا ہے، لوگ کام کئے بغیر سب کچھ پانا چاہتے ہیں۔ کرپشن نے لوگوں کی بصیرت کو کند کر دیا ہے۔ اگر اوپر کی کمائی نہ ملے تو ان کا عمل انہضام بگڑ جاتا ہے۔ افسران اب نوکری اس لئے نہیں کرتے کہ وہ جان جوکھوں میں ڈال کے شہریوں کے مسائل حل کریں یا بہادری اور دیانتداری سے امور مملکت چلائیں‘ بلکہ عہدے حاصل کرنے کا مقصد قانون کی محفوظ پناہ گاہ میں بیٹھ کے زیادہ سے زیادہ تنخواہ، سماجی مراتب اور سہولیات و مراعات کا حصول ہوتا ہے۔ انتظامی وظائف اب معذرتی تاویل بن کے رہ گئے ہیں، اس لئے قوانین غریبوں پہ بوجھ لادنے اور طاقتوروں کو زیادہ توانائی بخشنے کا ذریعہ بنتے جا رہے ہیں۔ بیشک، اس سیاہ بختی میں کچھ قصور شہریوں کا اپنا بھی ہے‘ جنہوں نے ہمیشہ آزمودہ اور پختہ کار سیاسی رہنمائوں کو مسترد کر کے احساس زیاں سے عاری ایسے غیر سنجیدہ کرداروںکو منتخب کیا‘ جو عوامی مسائل کو اتنا وقت بھی نہیں دے پاتے‘ جتنا وہ ہر روز اپنے میک اپ کو دیتے ہیں۔
شومئی قسمت، جب سے مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے‘ اندورن شہر کے گنجان آباد علاقوں میں صبح نو سے شام چار بجے تک بجلی بند اور گیس کی سپلائی رکی رہتی ہے۔ سپلائی بحال ہو بھی جائے تو پریشر اتنا کم ہوتا ہے کہ گیس صرف دل جلانے کے کام آتی ہے۔ لیکن منتخب ممبران ایسے بنیادی مسائل کو اسمبلی فلور پہ اٹھانا ضروری نہیں سمجھتے۔ پی ٹی آئی کے پچھلے دور میں شہر کی خوبصورتی کیلئے انتظامیہ کو 30 کروڑ روپے ملے تھے‘ جن کا کہیں مصرف نظر نہیں آتا‘ لیکن کسی منتخب رکن نے اسمبلی فلور پہ قومی دولت کے زیاں پر سوال نہیں اٹھایا۔ دو ہزار سترہ سے نکاسیٔ آب کی پائپ لائنیں بچھانے کے لئے جن سڑکوں کو ادھیڑا گیا تھا‘ وہ ابھی تک جُوں کی توں پڑی ہیں، خاص طور پر موسمیات روڈ، شیخ یوسف روڈ، گرڈ روڈ اور شمالی سرکلر روڈ‘ جہاں واپڈا آفس، نجی یونیورسٹی، دو بڑے سرکاری کالجز اور درجن بھر نجی و سرکاری سکولوں کے طلبہ و طالبات کو روزانہ نا قابل یقین تکالیف جھیلنا پڑتی ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں اذیت ناک تاخیر پہ عوامی مینڈیٹ کے حاملین خاموش ہیں۔ جب سے شہر کی صفائی کے لئے الگ کمپنی بنائی گئی ہے، چاروں طرف گندگی و غلاظت کے ڈھیر بڑھنے لگے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ شہر کی صفائی اور لوگوںکو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کی خاطر پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت نے واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی بنا کے اس کے اہلکاروں کی مینجمنٹ پے سکیل کے تحت لاکھوں روپے ماہوار تنخواہیں مقرر کیں تاکہ شہریوں کو بہترین سروسز مل سکیں‘ لیکن طرفہ تماشا دیکھئے کہ میرٹ پہ کسی پروفیشنل انجینئر کو کمپنی کا چیف ایگزیکٹو بنانے کی بجائے اسی پرانے ٹی ایم او کو ہی سی ای او بنا دیا گیا‘ جس کی ناقص کار گزاری سے تنگ آ کے ہی صوبائی گورنمنٹ واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی بنانے پہ مجبور ہوئی تھی۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ تحصیل ناظم نے واسا کے عملہ صفائی کو تنخواہوں کی فراہمی ٹی ایم اے فنڈ سے کرنے کا معاہدہ کر کے شہر کی لٹیا ہی ڈبو دی۔ لاکھوں روپے تنخواہیں وصول کرنے والی واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی شہر کی صفائی کر سکی نہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے قابل ہوئی۔ آج بھی پورا شہر پینے کے لئے جری کینوں میں پانی بھر لانے پہ مجبور ہے۔ ہمارے تحصیل ناظم پرانے زمانے کے بادشاہوں کی مانند شہریوں کی مشکلات جاننے کی خاطر بھیس بدل کے پوری رات شہر میں پھرتے ہیں اور پھر دن میں آرام فرماتے ہیں۔ بوجوہ کئی ماہ سے ٹی ایم او بھی عدم پتہ ہیں؛ چنانچہ لازمی دفتری امور نمٹانے اور سائلین کی شنوائی کرنے والا کوئی نہیں ملتا۔ اسی سہل انگاری کے باعث ٹی ایم اے کے اہلکاروں کو پانچ ماہ سے تنخواہیں نہیں مل سکیں۔ ان چار سالوں میں میلوں ٹھیلوں اور غیر رسمی سرگرمیوں میں وسعت کی بدولت ٹی ایم اے کا پورا نظام بیکار ہو گیا۔ ادنیٰ درجے کے اہلکاروں کی قابل لحاظ تعداد کو تحصیل ممبران کی خدمت پہ مامور کر دیا گیا۔ کچھ اہلکار گھوڑوں کی دیکھ بھال اور کچھ با اثر سرکاری افسران کے گھروں پہ ڈیوٹی دیتے ہیں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ٹی ایم اے کے مالیاتی وسائل کا بڑا حصہ تو واسا کے عملہ صفائی کی تنخواہوں پہ صرف ہو جاتا ہے، باقی ماندہ ثقافتی میلوں، چودہ اگست اور مذہبی تقریبات کے لئے لاکھوں کی مٹھائی کی ترسیل میں کھپا دیا جاتا ہے تو اہلکاروں کو تنخواہیں کہاں سے ملیں گی۔ ان سے پہلے فتح اللہ میانخیل آٹھ سال تک تحصیل ناظم رہے، تمام تر خامیوں کے باوجود انہوں نے ٹی ایم اے کو معاشی طور پہ مضبوط رکھا۔ ان کے دور میں عملہ صفائی سمیت کسی اہلکار کو تنخواہ کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں آئی۔ اس عہد میں ایک جوہری تبدیلی یہ بھی آئی کہ مقامی سیاست باہمی احترام پہ مبنی ''فرسودہ‘‘ روایات سے ہٹ کے ایک نئے اور قدرے آزاد کلچر سے روشناس ہوئی۔ ہمارے ممبران اسمبلی اپنے ووٹرز کی ایسی زبان میں پذیرائی کرتے ہیں جو دیر تک انہیں ملول رکھتی ہے، ان کی یہی خوش کلامی اب ہر روز لوگوں کو مولانا فضل الرحمن جیسے واعظ خشک کی یاد دلاتی ہے، بلا شبہ مولانا اس شہر کی توانا آواز تھے، انہوں نے کبھی بد عہدی کی نہ ووٹرز کو جھوٹی امیدیں دلائیں، مولانا فضل الرحمٰن نے اس خطے کی خوشحالی کی خاطر دیرپا کام کرائے، جن میں دامان زرعی یونیورسٹی، بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکشن، گومل میڈیکل کالج کا قیام اور سی پیک کے مغربی روٹ کی تعمیر جیسے بے مثال پروجیکٹ شامل ہیں۔