جیسے عمران خان نے سول بیوروکریسی اور کابینہ میں بڑے پیمانے پہ ردّ و بدل کر کے معاشی بحران سے نمٹنے کی خاطر اپنی حکومتی ٹیم کی از سر نو صف بندی کر لی‘ اسی طرح مسلم لیگ نواز نے بھی مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے پارٹی کی تنظیم نو کے ذریعے بڑا پالیسی شفٹ لے کر قومی سیاست میں بھرپور مزاحمتی کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ سیاسی نظام میں رونما ہونے والی یہ تبدیلیاں ارباب بست و کشاد کے کنٹرول میں رہیں گی‘ لیکن پھر بھی تغیر پذیر عوامل حکومتی ڈھانچے اور سیاسی نظام میں کسی نا مطلوب ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن سکتے ہیں‘ ہر چند کہ موجودہ حالات میں ہمارے لئے اچانک کسی بڑی تبدیلی کی توقع کرنا ممکن نہیں ہو گا‘ لیکن بہر حال دھیرے دھیرے یہی تغیرات از خود تقسیم اختیارت کی کسی نئی سکیم پہ اتفاق رائے پر منتج ہو سکتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پہ وزیر اعظم عمران خان نے جس دن ایف بی آر کے چیئرمین اور گورنر سٹیٹ بینک کو بدلنے کا فیصلہ کیا ‘اسی روز مسلم لیگ کے سپریم لیڈر نواز شریف نے بھی‘ مختصر دورانیہ کی عبوری ضمانت کی مدت ختم ہونے سے دو دن قبل‘ مزاحمتی کرداروں کو آگے لانے کی حکمت عملی اپنا کے پارٹی کے اندر مفاہمت و مزاحمت کے بیک وقت دو متضاد نقطہ ہائے نظر کی بساط لپیٹ دی۔ بیشک‘ یہی اختلاف رائے نواز لیگ کے پاؤںکی زنجیر بنا ہوا تھا‘ جس سے بالآخر نجات پا لی گئی۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ مسلم لیگ اب نواز شریف کے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیہ کی علم بردار بن کے ابھرے گی اور اسی نعرہ کے فروغ کی خاطر ہی پارٹی کی عنان انتہائی جارحانہ روش رکھنے والے پارلیمنٹیرین سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پنجاب مسلم لیگ کی قیادت رانا ثناء اللہ جیسے منجھے ہوئے سیاستدان کے حوالے کرنے کے علاوہ نواز شریف کی سیاسی وارث مریم نواز کو بھی پہلی بار پارٹی میں اہم عہدہ دینے کا فیصلہ کر کے پنجاب میں ایک نئے سیاسی تمدن کی بنیاد رکھ دی گئی‘ جس کے دُور رس اثرات قومی سیاست کی نئی صورت گری کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔
حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ مستقبل کی سیاست میں مریم نواز کا رول قبول کر لیا جائے گا۔ یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ نواز لیگ کے مرکزی صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے لندن میں اپنے قیام کی مدت بڑھا کے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دے کر اور پارٹی امور سے لا تعلقی اختیار کر کے ان لوگوں کیلئے میدان خالی کر دینے کا فیصلہ اچانک نہیں کیا‘ جو مریم نواز کی طرح مفاہمت پہ مزاحمت کو ترجیح دیتے تھے‘ بلکہ اس کام کیلئے مناسب ہوم ورک ضرور کیا گیا ہو گا ‘کیونکہ انسان کسی اچھی چیز کا خیال اس وقت ترک کرتا ہے جب اس سے بہتر چیز ملنے کی توقع ہو۔ یقیناً‘ جو لوگ نواز لیگ کی کہنہ مشق قیادت کے کام کرنے کے انداز سے واقف ہیں‘ وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ اس پوری مساعی کے پیچھے طویل سوچ بچار اور موثر سیاسی ڈپلومیسی کار فرما ہو گی۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ان حالات میں شہباز شریف کی لندن میں موجودگی پارٹی کیلئے خفیہ سیاسی رابطہ کاری کا با مقصد ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
افواہ ہے کہ انہوں نے وہیں لندن میں مخدوم احمد محمود اور چوہدری شجاعت سے ملاقاتیں بھی کی ہیں‘ لیکن فی الوقت مسلم لیگ نواز مقتدرہ سے تصادم کی بجائے سیاست میں ایک مثبت ‘مگر فعال کردار کی متمنی نظر آتی ہے۔ اس حقیقت سے عمران خان سمیت ہر کوئی واقف ہے کہ جب تک نواز لیگ صحیح معنوں میں اپوزیشن جماعت کا کردار ادا نہیں کرتی‘ اس وقت تک حکومت مخالف جماعتوں کی جدوجہد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائے گی اور شہباز شریف کی موجودگی میں متحدہ اپوزیشن کو فعال بنانا ممکن نہیں تھا‘ کیونکہ وہ ایک اچھے منتظم ہونے کے علاوہ طاقت کی دائیں جانب رہنے کا فن ضرور جانتے ہیں‘ لیکن فطرتاً وہ حزب مخالف کا رول ادا کرنے کے ہنر سے آشنا ہیں‘ نہ متضاد خیال سیاسی قوتوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کام خاقان عباسی جیسے پراگندہ طبع انسان سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا اور نواز لیگ نے جمہوری سیاست کے دوام کیلئے ایک اہل شخص کا انتخاب کر کے ابتدائی کامیابی حاصل کر لی ہے۔
شاید حالات کے جبر اور آٹھ ماہ کی رابطہ کاری کے نتیجے میں اپوزیشن جماعتوں کی مساعی کو بار آور بنانے کی خاطر مسلم لیگ نواز کی لیڈرشپ کو فعال سیاسی کردار ادا کرنے کی مہلت مل گئی ہو‘ یوں لگتا ہے کہ نواز لیگ کو خوف سے آزادی مل رہی ہے اور وہ شکست کی گرد جھاڑ کے پھر سے کھڑی ہونے کیلئے تیار ہے؛ اگر ایسا ممکن ہوا تو اس سے مجموعی سیاسی ماحول میں اک توازن پیدا ہونے کے علاوہ معاشی بحران سے نمٹنے کی خاطر کئے گئے غیر مقبول اقدامات کے مضمرات کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ بلا شبہ صحت مند سیاسی عمل کے فوائد صرف ایک طبقہ تک محدود نہیں رہتے‘ بلکہ اس کے ثمرات سے پورا معاشرہ یکساں بہرہ مند ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ نواز لیگ کے پیش نظر اس وقت اقتدار کا حصول نہیں ہو سکتا ‘بلکہ ابتدا میں انہیں اپوزیشن میں بیٹھ کے ویسا آزادانہ کردار ادا کرنے کی مہلت چاہیے‘ جیسی نواز شریف کے عہد حکومت میں تحریک انصاف کو میسر تھی۔ نواز لیگ کی نئی صف بندی سے ایسے اشارے ملتے ہیں کہ شہباز شریف کی کنارہ کشی سے لیگ کو حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کیلئے جس قسم کی ٹیم اور سہولت درکار تھی‘ وہ اسے مل چکی ہے؛ چنانچہ مسلم لیگ اب مطلوب سیاسی ماحول بنانے کیلئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بیٹھی اپوزیشن جماعتوں کو آئین و قانون کی بالا دستی کے ون پوائنٹ ایجنڈے پہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرے گی ‘جو آخر کار ایک ہموار جمہوری عمل کی بحالی کا وسیلہ بن سکتی ہے۔ اس ماحول کی استواری کیلئے ملک میں کارفرما پریشر گروپوںکے علاوہ مرکزی دھارے کا میڈیا اور وکلا تنظیمیں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں نیب کی سرگرمیاں مدہم پڑتی جائیں اور قومی سیاست میں ملک کی ساری پارٹیوںکو سیاسی کردار ادا کرنے کے یکساں مواقع ملیں اور مولانا فضل الرحمن کی اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کی آرزو بھی جلد پوری ہو جائے۔
بہرحال اس بات کا حتمی فیصلہ اگست تک ہو جائے گا کہ وقت کی بے رحم گردشیں حالات کے دھارے کو کس سمت لے جاتی ہیںاور اپوزیشن کا کاروانِ جمہوریت جانبِ منزل کس دھج سے روانہ ہوتا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران خیبر پختونخوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی بے عملی اور مجموعی اقتصادی بد حالی کو سنبھالنے میں وفاقی حکومت کی ناکامی نے رائے عامہ کو برہم کر کے اپوزیشن جماعتوں کے بیانیہ کی حمایت بڑھا دی ہے۔ ادھر روز افزوں معاشی مشکلات کے علاوہ بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی کو اعتدال پہ لانے کیلئے بھی ہموار سیاسی عمل کی بحالی کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔
ریاست کو معاشرے میں پھیلی عسکریت پسندی کے خاتمہ کیلئے وسیع تر عوامی حمایت درکار ہے‘ جس کا حصول سیاسی جماعتوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا؛ چنانچہ ریاست کو طوہاً و کرہاً ہر حال میں اور جلد سیاسی عمل کو ریگولیٹ کرنا پڑے گا۔