"AAC" (space) message & send to 7575

پاک امریکہ تعلقات کی بحالی کیسے ہو گی؟

اس وقت پوری دنیا وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ پہ نظریں جمائے بیٹھی ہے ‘کیونکہ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت ہی جنوبی ایشیاء کے سیاسی‘معاشی اور تہذیبی مستقبل کا تعین کرے گی۔امریکی پالیسی ساز جانتے ہیں کہ ہر آنے والے دن عالمی معاملات میں پاکستان کا کردار اہمیت اختیار کرتا جائے گا۔دنیا کی دوسری بڑی مسلم آبادی کی حامل ایٹمی قوت اورطاقتور نظریات کا مرکز ہونے کے علاوہ اس کرۂ ارض کی اہم ترین جغرافیائی پوزیشن رکھنے والی یہ پاکستانی قوم عالمی سیاست پہ اثرانداز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔خاص طور پہ اگلے دس برسوں میں مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیاء میں آنے والی وہ ممکنہ تبدیلیاں‘جن سے پوری دنیا کے مستقبل کا تعلق ہو گا‘پاکستان کے کردار سے جڑی نظر آتی ہیں۔(خود پاکستان کا مستقبل بھی انہی عالمی تنازعات کے انجام سے وابستہ رہے گا)۔
بین الاقوامی امور کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں وار آن ٹیرر کے اہم اتحادی ہونے کے باوجود خطے میں پاکستانی مفادات کو پس پشت ڈال کے امریکہ نے انڈیا کو غیر معمولی پذیرائی دی‘جسے پاکستان کی قربانیوں کی ناقدری اور اس کے کردار کو غیر اہم ثابت کرنے کی شعوری کوشش سمجھا گیا۔شاید اسی طرزِ عمل کی بدولت دونوں ملکوں کے مابین باہمی اعتماد کے رشتے کمزور ہوئے۔دوسرے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن بارے دونوں ملکوں کے نقطہ ہائے نظر میں اختلاف اور مفادات میں کچھ ٹکراؤکی وجہ سے بھی پچھلے اٹھارہ سال میں پاک امریکہ تعلقات میں سردمہری بڑھتی رہی‘ جس سے دونوں مملکتوں کے درمیان سفارتی تعلقات اور وسیع ملٹری معاونت محدود ہوتی گئی۔نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے بتدریج پاکستان کی فوجی امداد بند اور آرمی افسران کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ معطل کر کے دباؤ ڈالنے کے آخری حربہ کو بھی آزما ڈالا۔ادھر امریکہ کے زیر اثر کام کرنے والی عالمی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کا معاشی گھیراؤ کرنے کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے ذریعے زیردام لانے کی خاطردہشت گردوں کی مبینہ مالی معاونت کے الزام میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈلوایا۔بھارتی جاسوس گلبھوشن یادیو اور ریکوڈک کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کے پیچھے سے بھی امریکی ناراضی جھانکتی نظر آتی ہے۔لاریب‘ان حالات میں پاکستان نے اپنی قومی سلامتی اور تزویری مفادات کے تحفظ کے پیش نظر نہایت محتاط انداز میں پالیسی شفٹ کے ذریعے امریکہ کی بجائے علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے معاشی و دفاعی رشتوں کی استواری کے ذریعے متبادل راہیں تلاش کر لیں؛چنانچہ دفاعی ضرورتوںاور اقتصادی روابط کے حوالے سے اب مغرب پہ پاکستان کا انحصار کم ہو گیا ہے۔
چین کے ساتھ سی پیک معاہدہ‘تاپی گیس پائپ لائن پراجیکٹ اور روس کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو اسی پالیسی شفٹ کے تناظر میں دیکھا جائے گا‘تاہم اس اعصاب شکن سفارتی و نفسیاتی کشمکش کے باوجود امریکی انتظامیہ کے عالمی مفادات اسے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی پہ مجبور کررہے ہیں‘ لیکن پاکستان کے لئے اب پرانی راہوں پہ واپس پلٹنا زیادہ پُرخطر اور دشوار ثابت ہو گا۔ ہاں؛ البتہ اس نئی صورت حال میں موجودہ سطح پر تعلقات میں کہیں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے؛ چنانچہ یہ سوچنا کہ وزیراعظم عمران خان امریکی انتظامیہ کے ہرتقاضے کو پورا کرنے کی حامی بھر لیں گے‘ ممکن نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ پاکستان امریکہ کے ساتھ کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ لیکن کسی بھی علاقائی تنازع میں الجھنے سے قبل وہ اپنی قومی سلامتی اور خطے کے مفادات کو پیش نظر ضرور رکھے گا۔اس وقت امریکہ کی پہلی ترجیح افغان جنگ سے دامن چھڑانا ہوگی‘جہاں پاکستانی تعاون کے بغیر اس کی محفوظ واپسی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔پاکستان بھی افغان جنگ کے خاتمہ اور ایک نمائشی فتح کے ساتھ امریکی واپسی میں معاونت کیلئے تیار ہوجائے گا۔اس کا اندازہ 10 جولائی کو بیجنگ میں ہونے والے چار ملکی اجلاس کے اس اعلامیہ سے لگایا جا سکتا ہے‘ جسے واشنگٹن سے جاری کیا گیا اور جس کا عنوان تھا (Four-Party Jiont Statement on Afghan Peace Process)چار ملکی اجلاس سے لاتعلق رکھنے پہ انڈیا نے اعتراض اٹھایا اور سابق افغان صدر حامدکرزئی نے اپنے تازہ ٹویٹ کے ذریعے ایسے اجلاسوں میں دیگر ملکوں کی شمولیت کا مطالبہ بھی کیا‘تاہم مشرق وسطیٰ میں جاری کشمکش بھی کوئی غیراہم معاملہ نہیں ‘جس کے ساتھ اسرائیل کی بقاء اورعربوں کے آئل ذخائر پہ امریکہ سمیت مغربی دنیا کی پوری معیشت کا انحصار ہے۔اس لیے امریکی افغان امن وعمل میں تعاون کے علاوہ شرق الوسط کی تنازعات میں پاکستانی کردارکو بڑھانے کا تقاضا کر سکتے ہیںاورشاید یہی مخمصہ امریکی طرزِ عمل میں تبدیلی کا بنیادی محرک بنا ہو گا۔
امریکی تو ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنے کے عادی تھے‘ اس لئے افغانستان میں طالبانی مزاحمت کو کچلنے میں ناکامی کے بعد پہلے انہوں نے پشتون قوم پرستوںاور بلوچ علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کے ذریعے دباؤ ڈالنے کے علاوہ کشمیر ایشو اور دیگر علاقائی تنازعات میں بھارتی موقف کی کھلی حمایت کے ذریعے پاکستان کو تابع لانے کی سٹرٹیجی اپنائی ‘لیکن یہ طویل المدت حکمت عملی زیادہ کارگر ثابت نہ ہو سکی۔بالآخرتھک ہار کر ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے اور افغان تنازع کے پرامن حل کیلئے پاکستانی تعاون لینے کی خاطر اعتماد سازی کیلئے جو اقدامات اٹھائے‘ ان میں بھارت نواز افغان قوم پرستوں کو پیچھے دھکیلنے کے علاوہ بلوچ لبریشن آرمی کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینا بھی شامل تھا۔بہرحال عمران ٹرمپ ملاقات میں معاملہ صرف افغان جنگ میں امریکی مشکلات کو کم کرنے تک محدود نہیں رہے گا‘ بلکہ شرق الوسط‘ابنائے ہرمز اورگلف سے جڑے ہوئے کچھ نادیدہ تغیرات بھی پاک امریکہ مذاکرات کا موضوع بن سکتے ہیں۔ میرے خیال میں امریکی اتھارٹی پاکستان کو معاشی مشکلات کے بھنور سے نکالنے‘ٹیتھان کمپنی کے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے ہرجانے کو منیج کرنے اور ایف ٹی اے ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے کے عوض بلوچستان میں ایسے فوجی اڈوں کی فراہمی کا تقاضا کر سکتی ہے‘ جہاں سے ایرانی تنصیبات کوباآسانی ہدف بنایا جا سکے گا۔اس سے ایک تو امریکہ ایران کو نقصان پہنچانے کی زمینی سہولت پائے گا‘ دوسرے اسے مسلم ممالک کے درمیان مستقل عداوت کے بیج بو کے انہیں تقسیم کرنے کا مقصد بھی حاصل کر لے گا‘لیکن شاید ہمارے پالیسی ساز بھی عالمی طاقتوں کے عزائم بھانپ چکے ہوں گے۔امریکہ کو اپنے عالمی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے سعودی عرب کے علاوہ پاکستان کی اشد ضرورت ہے۔اس لیے امریکی دفاعی ادارے پاکستان سے ملٹری تعلقات کی بحالی کیلئے بیتاب ہیں۔اس وقت سینٹرل کمانڈ اور ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ سکیورٹی معاونت اور دفاعی روابط ختم کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
متذکرہ بالا دونوں مسلم ملکوں کی مقتدرہ بھی امریکی عزائم کو شک کی نظروں سے دیکھتی ہے۔سات دہایوں پہ محیط پاک امریکہ تعلقات میں کئی نشیب و فراز آئے‘ لیکن اس وقت دونوں ممالک کے باہمی تعلقات تاریخ کے نازک ترین مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔ بلاشبہ افغانستان کی جنگ کا انجام اور جنوبی ایشیاء کا مستقبل ‘وزیر اعظم عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات سے منسلک نظر آتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں