مودی سرکار نے جس طرح کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا ہے ‘اس نے ستّر سالوں پہ محیط وہ مہیب جمود توڑ ڈالا ہے جو اس اہم ایشو کے حل کی راہ میں حائل تھا۔دو ایٹمی طاقتوںکے مابین جنگ کے خطرے سے پھوٹنے والے اضطراب نے نہ صرف مغربی دنیا کی توجہ مبذول کرائی بلکہ اس تنازعے کے حل کی وہ عقلی و نظریاتی تجاویز بھی طشت ازبام ہونے لگیںماضی میں دونوں ممالک کے درمیان جن پہ بات چیت ہوتی رہی۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے لئے اب اس پُرخطر تنازعہ کو نمٹانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ کی طرف سے جس نپے تلے انداز میںکشمیر پہ ثالثی کی پیشکش ہوئی اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے مطابق ہو گا۔امریکی ڈپلومیسی اگرچہ کبھی قابل بھروسہ نہیں ہو سکتی ‘تاہم مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کی خاطر صدر ٹرمپ کی دلچسپی اور عالمی میڈیا میں مظلوم کشمیریوںکے دکھوںکو نمایاں کرنے کا رجحان کشمیر بارے ہمار ے سمیت دنیا بھرکی روایتی سوچ کو تحلیل کر کے اس ایشو کو نئے طرزِ فکر کے ساتھ منسلک کرنے کا وسیلہ بن سکتا ہے۔بلاشبہ ہم نے اگر ان وسعت پذیر امکانات اور بدلتے حالات کو سمجھنے میں غلطی کی تو کشمیر کا مقدمہ ہار جائیں گے۔پہلے بھی پاک و ہندکی غیرمنظم انتظامیہ عجلت میں اٹھائے گئے اقدامات سے اس معاملے کو ایسے مہیب تنازعے میں ڈھال بیٹھیںجو اِن مملکتوں کے مابین چار جنگوں کا موجب اور آج جنوبی ایشیا کو ایٹمی جنگ کے دہانے تک پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔ لیکن اب غلطی کی گنجائش نہیں رہی؛ چنانچہ جذبات کی رو میں بہنے یا اس سنجیدہ مسئلہ کو سیاست زدہ کرنے کی بجائے صبر و استقلال سے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کرنا ہو گی۔
پچھلے ستّر سالوں میںکشمیر تنازعے کے حل کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے کئی دورہوئے‘جن میں اس مسئلے کے حل کی خاطر کم و بیش سات قابل عمل فارمولے زیر بحث آئے ‘تاہم خوبصورت توقعات کے باوجود ہمارے اربابِ بست و کشاد کسی مرحلے پہ بھی مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ 1947ء میں الحاق سے قبل بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن نے کراچی میں قائداعظم سے ملاقات کر کے کشمیر میں استصواب رائے کرانے کی پیشکش کی‘جسے پاکستان نے ٹھکرا دیا۔ جناح صاحب نے گورداسپور کے بدلے کشمیر مانگا‘ مگر انڈیا نہیں مانا۔تاہم اقوام متحدہ میں پاکستان نے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی استصواب رائے کی پیشکش قبول کر لی۔حیرت انگیز طور پہ کشمیر پر انڈیاکے قبضے سے چند روز قبل گلگت بلتستان میں تعینات انگریزمیجر برائون نے رائے عامہ کو بھانپ کر راجہ ہری سنگھ کے گورنر کا تختہ الٹ کے اسے گرفتارکرلیا اور حکومت پاکستان کو گلگت بلتستان سنبھالنے کے لئے لکھا۔پاکستانی گورنمنٹ نے وہاں اپنا پولیٹیکل ایجنٹ بھیج دیا۔اس سے تو یہی لگتا ہے کہ برطانوی مقتدرہ خود تنازعہ پیداکرنا چاہتی تھی۔اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پہ استصواب کے اصول کو تسلیم کرنے کے باوجود‘انڈین گورنمنٹ نے صدارتی آرڈر1950ء اور 1952ء کے ذریعے پہلے کشمیرکی ریاستی حیثیت کا آئینی تعین‘کشمیریوں کے سیاسی‘سماجی و بنیادی حقوق کا تحفظ اوربعدازاں 1954ء کے صدارتی حکم کے ذریعے بتدریج ریاست جموںکشمیر کی جداگانہ شناخت کوآئینی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی جس کے خلاف ریاست کے مسلمان وزیراعظم شیخ عبداللہ نے آواز اٹھائی تو اسے صدرِ ریاست کرن سنگھ نے برطرف کر کے بخشی غلام محمد کو نیا وزیراعظم بنا دیا۔بعد میں ریاست کے خلاف سازش کے الزام میں شیخ عبداللہ کو قید کی سزا سنائی گئی‘ وہ گیارہ سال جیل اور نو سال تک جلاوطن رہے۔دریں اثنا 1956ء میں بھارت نے کشمیری ریاست میں صدر کے منصب کو گورنر اور وزیراعظم کے عہدہ کو وزیراعلیٰ میں تبدیل کر کے کشمیری ریاست کی ہیت بدل دی۔1973ء میں شیخ عبداللہ نے اندراگاندھی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے کشمیری پاور پالیٹکس میں دوبارہ جگہ بنائی۔1974ء میں وہ ایک بار پھر ریاست جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے‘شیخ عبداللہ کی تسخیر کے بعد اندراگاندھی نے کشمیری سیاست پہ اپنی گرفت مضبوط کر لی۔قبل ازیں1962ء میں کشمیر ایشو پہ پہلی بار پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان اُس وقت مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی جب انڈیا کوہ ہمالیہ میں چین کے ساتھ علاقائی جنگ میں شکست کھانے کے بعد مضمحل تھا۔ نفسیاتی دباؤ سے نکلنے کے لیے وہ کشمیر ایشو کو مذاکرات کے ذریعے نمٹانے پہ آمادہ ہوگیا‘لہٰذا اسی پس منظر میں دونوں ممالک کے وفود ملے اور اس وقت کے بھارتی وزیرخارجہ مسٹرسورن سنگھ کی اپنے پاکستانی ہم منصب ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ تنازعہ کشمیر کے حل کی خاطر متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔اس وقت چناب فارمولہ سمیت کئی فارمولے زیر بحث آئے‘ان حالات میں بھارت کشمیر کا مزید پندرہ ہزار مربع میل علاقہ پاکستان کو دینے پہ راضی ہو گیا تھا‘ لیکن مسٹر بھٹو نے اسے قبول نہ کیا۔عام خیال یہی ہے کہ طرفین میں نظریاتی اختلافات اورکبھی نہ ختم ہونے والی مخاصمت کی وجہ سے مذاکرات کی یہ مشق کارِ لاحاصل ثابت ہوئی اور ہمیشہ کے لیے یہ تنازعہ اس خطے کے لوگوں کے ذہنی ارتقا‘معاشی وسماجی ترقی اور سیاسی استحکام جیسے حقیقی ایشوز سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ اور انڈ وپاک تعلقات کی راہ میں حائل ہو گیا۔
مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر چناب فارمولہ سردار عبدالقیوم خان نے پیش کیا تھا‘ جسے بھارت نے مسترد کر دیا‘چناب فارمولہ کے مطابق دریائے چناب کے شمالی مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور جنوبی ہندو اکثریتی اضلاع بھارت کو ملنے تھے‘اس فارمولہ کے تحت بھارت کے زیر قبضہ کل 84 ہزار مربع میل سے 30 ہزار مربع میل کا علاقہ پاکستان کو مل سکتا تھا‘چناب فارمولہ دراصل تقسیم ہند کی اساس بننے والے دوقومی نظریہ کی توسیع تھا ‘لیکن2003 ء میں جب آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار سکندر حیات نے چناب فارمولہ کے تحت مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات کی توبیرسٹر سلطان کی قیادت میں اپوزیش اس پہ چڑھ دوڑی۔روسی فلسفی ٹالسٹائی نے اپنے مشہور ناول ''وار اینڈ پیس‘‘ میں جس طرح جنگ و امن کی جدلیات پیش کیں بعینہ اسی طرح یہاں بھی ستّر سالوں میں امن کی کوکھ سے جارحیت اور جنگوں کے بطن سے بتدریج امن نمودار ہوتا رہا۔1962ء میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازعہ نمٹانے کی مساعی بھی دراصل تقسیم کشمیر کی طرف غیر شعوری پیشقدمی تھی اور شاید اسی معاہدے کا قلق آپریشن جبرالٹر اورستمبر1965 ء کی جنگ کی بنیاد بنا۔یہ جنگ ایک ابھرتی ہوئی مملکت کے اقتصادی زوال کا سبب بنی‘ لیکن جنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے تاشقند معاہدہ کی کوکھ سے پھر1971ء کی جنگ نمودار ہوگئی۔سقوط ِبنگال کے بعد دونوں ممالک میں ہونے والے''شملہ معاہدہ‘‘کوکشمیر سے منسوب کرنے کے علاوہ اسی معاہدہ میں مسئلہ کشمیرسمیت تمام اختلافات کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پہ اتفاق کر لیا گیا۔1979ء میں افغانستان میں روسی جارحیت کے بعد مسئلہ کشمیر پس منظر میں چلاگیا‘ لیکن 1988ء میں روسی فورسز کی افغانستان سے پسپائی کے بعد کشمیر میں آزادی کی نئی تحریکیں بھڑک اٹھیں جو بتدریج مسلح جدوجہد میں ڈھلتی گئیں۔یہی مسلح تحریکیں بلآخر دونوں ایٹمی طاقتوں کوباہم صف آرا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔بلاشبہ افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ناکامیوں نے امریکیوں اوربھارتیوںکو تنازعہ کشمیر کونمٹانے پہ مجبور کردیا لیکن وہ تکنیکی ہتھکنڈوں اورشاطرانہ ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان کو زک پہنچانے کی کوشش کریں گے؛چنانچہ یہ لمحہ عنانِ حکومت کی حامل لیڈر شپ کے امتحان کا مرحلہ ثابت ہو گا‘اگر وہ پھسل گئے تو قوم ہار جائے گی۔