"AAC" (space) message & send to 7575

اصلاحات پہ پولیس کے اعتراضات

اصلاحات پہ پولیس کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کا جائزہ لینے سے قبل ضروری ہے کہ پچھلے چھ سال میں خیبرپختونخواپولیس کے اختیارات اور کارکردگی میں موازنہ کر لیا جائے۔2013 ء میں عنان ِحکومت سنبھالتے ہی پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرانے جیسے مبہم نعروں کی گونج میں پی ٹی آئی کی قیادت نے صدیوں کے آزمودہ انتظامی ڈھانچہ کے نازک توازن کا خیال رکھے بغیر پولیس کے سامنے اپنی اتھارٹی سرنڈر کرکے صوبہ کے ایڈمنسٹریٹو آرڈر کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ادھر پولیس افسران نے بھی دہشت گردی کی فسوںکاریوں کا استحصال کرتے ہوئے عمران خان صاحب کے معصوم جذبات سے فائدہ اٹھانے میں کسرباقی نہ چھوڑی۔انہوں نے غیر عقلی اصلاحات کی آڑ لے کر ایک ہاتھ سے اختیارات کو سمیٹا اور دوسرے ہاتھ سے چیک اینڈ بیلنس کے ہرنظام کو پرے دھکیلتے گئے۔یوں پی ٹی آئی کے دوسرے عہد تک وہ متنازع پولیس ایکٹ 2017 ء منظور کرانے میں کامیاب ہو گئے‘ جس نے سول انتظامی ڈھانچہ کومتروک بنا دیا‘ تاہم یہ حریصانہ پیش قدمی بھی پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنا سکی‘ نہ عام شہری کی زندگی میں تبدیلی لائی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ صوبائی گورنمنٹ نے محکمہ انسداد رشوت ستانی کو پولیس سے الگ کرکے فعال بنانے کی ٹھانی ‘تو پولیس مزاحمت پہ اتر آئی۔حکومت نے ڈرائیونگ لائسنس بنانے کا اختیار ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو تفویض کیا ‘تو ٹریفک پولیس نے آر ٹی اے کے جاری کردہ لائسنس پھاڑ کرشہریوںکو پولیس سے ڈرائیونگ لائسنس بنوانے پہ مجبور کیا؛ بالآخرحکومت نے خودگھٹنے ٹیک دیئے۔یوںخیبر پختونخوا پولیس صوبہ کے انتظامی ڈھانچہ سے ماورا ایسی خود مختار فورس بن کے ابھری‘ جس کی کارکردگی پرکھنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔لامحدوداختیارات اور غیرمعمولی مراعات کے باوجود پولیس ‘اگر ڈلیور کرتی تو حکومت بخوشی آج دیگر صوبوں میں پولیس ایکٹ 2017ء کے نفاذ پہ مجبور ہوتی‘مگر افسوس !لامحدود اختیارات لینے کے بعد بھی تھانہ کلچر میں تبدیلی آئی ‘نہ شہریوں کو جان و مال کا تحفظ ملا۔اب بھی تھانوں کا ماحول مظلوم کیلئے ناگوار‘ مگر پیشہ ور مجرموں کیلئے آسودگی کا حامل ہے‘اسی پس منظرمیں ہم اصلاحات پہ اٹھائے گئے اعتراضات کے آئینہ میں پولیس کے اصل عزائم کو دیکھ سکتے ہیں۔
پولیس نے چار بنیادی اعتراضات اٹھائے ہیں؛ پہلا ‘سپیشل برانچ کو وزیراعلیٰ کے ماتحت کرنے کی بجائے آئی جی کے تابع رکھا جائے۔دوسرا‘پولیس کمپلینٹ کمیشن وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ یا محکمہ داخلہ کی بجائے کابینہ کمیٹی برائے امن و امان کے ماتحت دیا جائے۔تیسرا‘نیشنل کمپلینٹ کمیشن کو فعال بنانے اور چوتھا‘پولیس کا الگ سے کنٹرول انسپکٹریٹ نہ بنایا جائے۔ان چاروں اعتراضات کا لب لباب یہی ہے کہ صوبائی حکومت کا سربراہ پولیس سے بازپرس نہ کر سکے۔واضح رہے کہ سپیشل برانچ صوبائی سطح کی اہم انٹیلی جنس ایجنسی ہے‘جو صوبہ بھر میں رونما ہونے والی سیاسی و سماجی سرگرمیوں اور رائے عامہ کو جانچنے کے علاوہ پولیس سمیت دیگر سرکاری محکموں کی نگرانی کرتی ہے۔فی الوقت سپیشل برانچ کی بھجوائی گئی تمام ڈی ایس آرز براہ راست وزیراعلیٰ آفس پہنچنے کی بجائے پہلے آئی جی آفس پہنچتی ہیں‘ جہاں سے انہیں فلٹرکر کے وزیراعلیٰ ہاؤس بھجوایا جاتا ہے۔یوں ہر وزیراعلیٰ پولیس کی فراہم کردہ منتخب اطلاعات کا اسیر اور صوبائی معاملات کو حالات کے اصل تناظر میں دیکھنے کی بجائے ایشوزکو پولیس کی نظر سے دیکھنے اورسمجھنے پہ مجبوررہتاہے۔ضروری تھا کہ جیسے ملک کی بڑی خفیہ ایجنسی‘آئی بی‘وزیراعظم کو رپورٹ پیش کرتی ہے‘اسی طرح سپیشل برانچ بھی براہ راست وزیراعلیٰ کو رپورٹ کر کے انہیں صوبہ میں رونما ہونے والے واقعات سمیت خود پولیس کی کارکردگی اور شہریوں کے ساتھ اس کے سلوک کے بارے میں درست معلومات دے۔
حکومت کی ساکھ کا انحصار عام شہری کے ساتھ پولیس کے اچھے یا بُرے رویہ سے منسلک رہتا ہے‘اگر پولیس کارکردگی اچھی اور عوام کے ساتھ رویہ ہمدردانہ ہو گا‘ تو حکومت کی ساکھ بہتر رہے گی‘ بصورتِ دیگر پولیس کی زیادتیوںکا سارا ُبال منتخب حکومت کے گلے پڑے گا‘اس حقیقت کو اگر مثال سے سمجھنا ہو تو ابھی حال ہی میںپنجاب پولیس کے ہاتھوں ذہنی معذور صلاح الدین کی ہلاکت اور ساہیوال میں ایک ہی خاندان کے چار افراد کی المناک موت کے علاوہ بوڑھی خاتون سے پولیس اہلکار کی بدتمیزی کی‘سوشل میڈیا پہ وائرل ہونے والی‘فوٹیج کے اثرات دیکھ لیں۔ان چند واقعات نے حکومتی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاکر صرف چار ہفتوںمیں پنجاب حکومت کی چولیں ہلا ڈالیں۔ 2002 ء میں جنرل مشرف کے نئے نظام کے تحت پولیس کو سول انتظامیہ کی اس علامتی نگرانی سے بھی نکال لیا گیا ‘جس میں ضابط فوجداری کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈپٹی کمشنر)شہریوں کے جان و مال کے تحفظ یا پھر امن عامہ بارے پولیس کارکردگی کو چیک کرلیتا تھا۔قانونی ماہرین کہتے ہیں‘ضابطہ فوجداری کی تکون‘ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ‘مجسٹریٹ اور ایس ایچ او پہ محیط تھی‘جب ڈی ایم اور مجسٹریٹ کا منصب ختم کر کے ایس ایچ او کو سیشن جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ سے منسلک کیا گیا‘ضابطہ فوجداری توازن کھو بیٹھا‘جبکہ پرانا نظام‘بلا کسی ترمیم کے پولیس اورجوڈیشری کے مابین کوارڈینشن کی توضیح نہیں کر سکتا۔
خیبر پختونخوا میں‘پولیس ایکٹ 2017ء کے تحت‘ پولیس کو انتظامی ومالیاتی خود مختاری دینے کا تجربہ ناکام ہوگیا۔نئے ایکٹ کے سیکشن 17 کی ذیلی شق 4 کے تحت آئی جی کو 20گریڈ کے ڈی آئی جیز سمیت ایڈیشنل آئی جی تک کی پوسٹنگ ٹرانسفر کا اختیار ملا‘ لیکن فورس کا مورال بہتر نہ ہوسکا۔پولیس کو آج نیشنل سیفٹی کمیشن کی تشکیل یاد آ گئی؛ حالانکہ2012ء اور 2017ء کے پولیس ایکٹ میں عام شہری کو پولیس کی زیادتیوں سے بچانے کیلئے پبلک سیفٹی اینڈ ریجنل کمپلینٹ اتھارٹی کا قیام شامل تھا ‘ پچھلے 18 سال میں پولیس نے سیفٹی کمیشن کی فارمیشن مکمل نہیں ہو نے دی۔پولیس ایکٹ 2017ء کے سیکشن 48 کے مطابق‘ 14 ممبران پہ مشتمل صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن ہو گا‘جس میںصوبائی اسمبلی کے چار ممبران اور ایڈووکیٹ جنرل کے علاوہ اٹھ غیر سرکاری اراکین‘جن میں ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج‘میجرجنرل کی سطح کا ریٹائرڈ فوجی افسر‘گریڈ اکیس کا ریٹائرڈ سول افسراور اکیس گریڈ کے ریٹائرڈ پولیس افسر سمیت سول سوسائٹی سے چار ممبران(ایک خاتون کی شمولیت لازمی تھی)شامل ہوں گے۔صوبائی سیفٹی کمیشن کے آزاد ممبران کے چناؤ کی سکروٹنی کمیٹی میں چیف جسٹس ہائی کورٹ‘پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اوراحتساب کمیشن کا چیئرمین شامل تھا‘جبکہ تین ممبران پہ مشتمل ریجنل پولیس کمپلینٹ اتھارٹی کے ممبران میںگریڈ اکیس کا ریٹائرڈ سول افسر‘گریڈ اکیس کا ریٹائرڈ پولیس افسراور سول سیکٹر سے ایک پروفیشنل شامل ہوگا۔ریجنل کمپلینٹ اتھارٹی کے ممبران کے چناؤ کی سکروٹنی کمیٹی میں چیف احتساب کمشنر‘چیئرمین پبلک سروس کمیشن اورچیف جسٹس کے نامزد جج آف ہائی کورٹ کی شمولیت لازمی تھی۔اس کڑے معیار پر تو یہی کہا گیاکہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی!
ایک طرف پولیس نے پبلک سیفٹی کمیشن اورریجنل کمپلینٹ اتھارٹی کے قیام کو عدالتوں میں چیلنج کرا دیا۔دوسرا اب صوبائی احتساب کمیشن بھی تحلیل ہو گیا‘لہٰذایہ بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔اس کامل خود مختاری‘ بلکہ مطلق العنانی کے باوجود خیبرپختونخوا میں قیام امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ‘نہ سماجی جرائم میں کمی آئی۔ دہشت گردی کے خلاف اگر سکیورٹی فورسز کاروائیاں نہ کرتیں تو پولیس کب کی ڈھیر ہو چکی ہوتی۔پچھلے بیس سال کے دوران جرائم میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے ۔دہشت گردوں کا تعاقب کرنے کی بجائے پولیس نے شہروںمیں قدم قدم پہ ناکے لگا کے قانون پسند شہریوں کی تذلیل کا کلچر پروان چڑھا لیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں