طویل ردو کد کے بعد بالآ خر حکومت نے مولانا فضل الرحمٰن سے بات چیت کیلئے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی بنا دی‘مگر اس مرحلے پہ مولانا کیلئے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پہ بیٹھنا ممکن نہ ہو گا؛چنانچہ جے یو آئی نے بلاتاخیر مذاکرات کی حکومتی پیشکش مستردکر کے اپنی پیشقدمی جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔گورنمنٹ کو یقین تھا کہ وہ پیپلزپارٹی کی طرح شہبازشریف کی وساطت سے نواز لیگ کو بھی آزادی مارچ کی حمایت سے روک کر مولانا فضل الرحمٰن کو تنہا کردیں ‘لیکن حکمران اشرافیہ نے نواز لیگ کی سیاسی مہارت اور مزاحمتی قوت کا صحیح اندازہ لگانے میں غلطی کی۔اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ خوف و ترغیب کے سارے حربے آزمانے کے باوجود ریاستی اتھارٹی نواز لیگ کو حکومت مخالف تحریک میں شمولیت سے روک نہیں پائے گی۔امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت کو اصل خطرہ مولانا فضل الرحمٰن سے نہیں بلکہ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں وسیع عوامی حمایت رکھنے والی نواز لیگ کی مزاحمت سے ہے‘ جسے قومی و صوبائی اسمبلی میں بھی قابلِ لحاظ نمائندگی حاصل ہے؛چنانچہ جس دن نوازشریف کی طرف سے دھرنا اور آزادی مارچ میں شمولیت کا حتمی اعلان ہوا‘اسی دن سے حکومتی زعما کے اوسان خطا ہیں۔یہ نواز لیگ جیسی بھاری بھرکم جماعت کا دباؤ تھا‘جس سے گھبرا کے گورنمنٹ نے بلا سوچے سمجھے مولانا فضل الرحمٰن کو مذاکرت کی پیشکش کر ڈالی‘ورنہ اس سے پہلے تو عمران خان سمیت حکمران اشرافیہ کے سارے کارندے جے یو آئی کے آزادی مارچ اور دھرنے کا مذاق اڑاتے رہے‘ لیکن افسوس کہ اس وقت معاملات مذاکرات سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور مولانا فضل الرحمن ذہنی اور سیاسی طور پہ اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔
اس وقت مولانا کی عمر بھر کی سیاسی کمائی کے علاوہ جے یو آئی کا مستقبل بھی داؤ پہ لگا ہوا ہے ۔اگر وہ پسپا ہوئے تو جماعت سمیت ان کا پورا خاندانی شکوہ بھی خاک میں مل جائے گا ‘لہٰذا اس نازک مرحلے پر مولانا جیسے بالغ النظر اور موقع شناس رہنماسے سودا بازی کی توقع رکھنا حماقت ہو گی۔بے شک نواز لیگ کی کہنہ مشق قیادت نے سیاسی بساط پہ انتہائی محتاط چالیں چل کے طاقت کے مراکزکو حیران اور پی ٹی آئی کی قیادت کو چاروں شانے چت کر دیا۔(ن) لیگ‘جسے ریاستی اداروں کے شدید دباؤ اور کڑے احتساب کا سامنا ہے‘پالیسی امور میںبظاہرگہرے اختلافات میں بٹی دکھائی دیتی ہے اور قومی دھارے کے میڈیا سمیت درجنوں حکومتی ترجمان اس ذہنی تقسیم کو بڑھا چڑھا کے پیش کرنے میں لذت محسوس کرتے رہے‘لیکن اب پتہ چلا کہ یہ ساری نظری تفریق دراصل ان کی تزویری حکمت عملی کا کیموفلاج تھی۔نوازشریف سمیت صف ِاول کی لیگی قیادت نے الیکشن سے قبل ہی مزاحمت کا تہیہ کر لیا تھا‘ لیکن اس معرکے کیلئے وہ کسی موافق وقت اور اپنی مرضی کے میدان کی تلاش میں احتیاط کے ساتھ کرالنگ کرتی رہی‘ریاستی اداروں کو مسلم لیگ کی مزاحمت بارے اندیشہ ضرور تھا‘ لیکن وہ نوازشریف کی حکمت عملی اور طاقت کا درست اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔گورنمنٹ کا خیال تھا کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف تادیبی کارروائیوں کا دباؤ بڑھنے کے بعد شریف خاندان سرنڈر کرنے پہ تیار ہو جائے گا اور مقدمات کی آہنی زنجیروں میں جکڑے مسلم لیگ کے وفادار اور فعال اراکین باآسانی رام کر لئے جائیں گے یا پھر انہیں مقدمات کے جال میں پھنسا کے کم ازکم غیر مؤثر ضرور بنا لیا جائے گا‘ لیکن اقتدار سے علیحدگی اور کرپشن کے مقدمات کی سختیاں لیگی قیادت کی خاموش مزاحمت کوکند کرنے میںکارگر ثابت نہ ہو سکیں۔
سیاسی ثقافت اور مزاحمتی تاریخ کوسامنے رکھ کے غور کیجئے‘ نوازشریف آگے بڑھ کے اگر خود حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں پہل کرتے تو اسے چھوٹی جماعتوں‘ بالخصوص جے یو آئی کو ہمنوا بنانے کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑتی؟یہ سارے پاپڑ بیلنے کے باوجود وہ چھوٹے گروہوں کی سچی حمایت اور ایک طاقتور مذہبی گروہ کی یقینی مدد حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے تھے‘کیونکہ آغازِشباب میں ہی میاں نوازشریف کو پیپلزپارٹی کے خلاف سیاسی جدوجہد کے دوران جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی حمایت پانے کے نہایت تلخ تجربات حاصل ہوئے تھے‘اسی لئے انہوں نے بہتر حکمت عملی اپناتے ہوئے پہلے ان چھوٹی اپوزیشن جماعتوں کوسر پہ کفن باندھ کے صف آرا ہونے کا پورا موقعہ دیا‘جنہیں حکومت کوئی خاص اہمیت نہیں دیتی تھی اور دوسری جانب حکومتی کارکردگی کی پوری آزمائش اور عمران خان کی مقبولیت کا سحر ٹوٹنے کا انتظار کر کے قومی سیاست کے مجموعی ماحول کو اپنی مزاحمتی جدوجہد کے لئے سازگار بنا لیا۔شہباز شریف سمیت مصالحتی گروپ نے مقتدرہ کو انگیج رکھنے کی خاطر نہایت ہوشیاری کے ساتھ اس تاثر کوگہرا کیا کہ نواز لیگ کی قیادت مزاحمت کے فیصلے پہ کبھی متفق نہیں ہو پائے گی‘ لیکن جب رموزِ حکمرانی سے ناواقفوں نے تاجروںکو ہراساں کر کے معاشی سرگرمیوں کو مفلوج اوربیوروکریسی کی تذلیل کے ذریعے گورننس کی نزاکتوں کو مسل ڈالا اورناتجربہ کار حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں ہوشربا مہنگائی‘غیر محدود بے روزگاری اور انتظامی بحرانوں نے شہریوں کو مضطرب کر کے پی ٹی آئی گورنمنٹ سے پوری طرح مایوس کردیا تو عین اسی لمحہ میاں نواز شریف نے آگے بڑھ کر خود دھرنے اور آزادی مارچ کی حمایت کی کال دے کر شبہاز شریف سمیت پورے مصالحتی گروپ کو پارٹی سیاست سے لاتعلق بنا دیا۔
اگر نواز لیگ پہلے دن سے کھل کے مولانا کے دھرنے کی حمایت کرتی تو مقتدرہ کو مولانا کو رام کرنے کی مہلت مل جاتی‘مگر ایک ماہر جنگجو کی مانند نوازشریف نے اپنی حکمت عملی کو خفیہ رکھ کے گورنمنٹ سمیت سیاسی حریف‘پیپلزپارٹی‘کو بھی اپنے اصل عزائم سے بے خبر رکھا‘کوٹ لکھپت جیل میں نوازشریف سے ملاقات اور بعدازاں رائیونڈ میں مریم نوازکے ساتھ بلاول بھٹو زرداری کے خوشگوارانداز میں ملنے ملانے کا مقصد بھی دراصل نواز لیگ کی مزاحمتی حکمت عملی کو جانچنے کی کوشش تھی‘ لیکن نواز لیگ کی پختہ کار قیادت نے پیپلزپارٹی کو بھی اپنے اصل ارادوں کی بھنک نہیں پڑنے دی۔بلاشبہ اس بندوبست کی سب سے بڑی بینیفشری ہونے کے ناطے اس وقت دھرنوں کی بازگشت‘حکومت سے زیادہ پیپلزپارٹی کیلئے پریشانی کا باعث ہو گی‘جو کسی بھی صورت موجود بندوبست کی بساط کے لپٹنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔پچھلے چودہ ماہ سے پیپلزپارٹی گورنمنٹ کے ساتھ نورا کشتی کے ذریعے اپوزیشن کو انگیج رکھنے کی آزمودہ پالیسی پہ عمل پیرا تھی‘لیکن نواز لیگ کی قیادت نہ صرف پیپلزپارٹی کے اصل عزائم سے واقف تھی بلکہ اس کے مخفی مقاصد کی رخ گردانی کی بھی پوری صلاحیت رکھتی تھی۔بیشک لمحہ موجود میں نوازشریف ہی وہ لیڈر ہیں جو جیل میں ہونے کے باوجود حکومت مخالف تحریک کے روح رواں اور اس کشمکش کا مین بینیفشری ہیں‘مولانا فضل الرحمٰن نے جس انتہا پہ جا کرحکومت کے خلاف پوزیشن لی‘وہاں سے پلٹا ان کیلئے سیاسی موت کے مترادف ہو گا‘ لیکن نوازشریف آج بھی اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ موجودہ بندوبست کو بچا سکتے ہیں؛چنانچہ مقتدرہ کو مولانا فضل الرحمن کی بجائے نوازشریف سے بات چیت کرنا پڑے گی۔ہو سکتا ہے کوٹ لکھپت جیل سے نکال کے احتساب ادارے کے لاک اَپ میں منتقلی کا اصل مقصد بھی نوازشریف سے سلسلہ جنبانی استوار کرنے کی کوشش ہو؟