"AAC" (space) message & send to 7575

تشدد کی نئی لہراورشہریوں کی مشکلات

مختصر وقفے کے بعد شہرِ بے نوا میں اٹھنے والی تشدد کی نئی لہر نے پولیس افسرسمیت دوشہریوں کی جان لے لی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے دس مہینوں میں دہشتگردوں نے ٹیچنگ ہسپتال کے ٹراما سنٹر پہ خودکش حملے سمیت پولیس فورس پہ دس جان لیوا حملے کئے‘جن میں دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد گیارہ ہو گئی۔23 اکتوبرکی شام سی ٹی ڈی پولیس کو ڈیرہ اسماعیل خان کے رمک ٹاون میں کھیارہ گروپ کے دو مطلوب دہشتگردوں کی موجودگی کی اطلاع ملی‘اسی شب انسپکٹر دمسازکی قیادت میں سی ٹی ڈی پولیس نے مناسب تیاری یاکسی دفاعی کورکے بغیر دہشتگردوں کے ٹھکانے پہ چھاپہ مارا ۔تین افراد پہ مشتمل پولیس پارٹی جونہی اس مکان میں داخل ہوئی جہاں دہشتگرد موجود تھے توپہلے سے الرٹ دہشتگرد مزاحمت کرتے ہوئے سی ٹی ڈی پولیس کے حوالدارنورولی کو شہید اورکانسٹیبل جہانگیر کو زخمی کرتے ہوئے فرار ہوگئے۔بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ تربیت یافتہ دہشتگردوں کو پکڑنے کی ناقص سکیم جواں سال پولیس اہلکار کی موت کا سبب بنی‘ لیکن افسوس کہ ایسے واقعات میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی تحقیقات کی کوئی روایت موجود نہیں۔تین دن بعد 26 اکتوبر کی صبح ہتھالہ کے قریب پولیس موبائل پہ ریموٹ کنٹرول بم حملے میں ایک اہلکار زخمی ہو گیا۔ان علاقوں میں پولیس کچھ نہیں کرتی بلکہ دہشتگرد پولیس کا تعاقب کرنے میں بیباک نظر آتے ہیں۔27 اکتوبر کو درابن خورد کے قریب نامعلوم دہشتگردوں نے گولیاں مار کر معروف قانون دان ملک اقبال کھیارہ ایڈووکیٹ کی جان لے لی۔28 اکتوبر کی شام ٹارگٹ کلرز نے ڈار سٹی میں اسماعیل راجپوت نامی الیکٹریشن کو سر میں گولیاں مار کے اُسے ابدی نیند سلا دیا‘جبکہ30 اکتوبر کو درابن خورد میں کھلونا بم پھٹنے سے تین بچے جاں بحق ہو گئے۔
دہشتگردوں کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کرنے کی بجائے ہمیشہ کی طرح اب بھی نئی چیک پوسٹوں کی تعمیر کے ذریعے شہری آزادیوں کو محدود کرنے کا عمل دہرایا گیا۔اگر اتھارٹی کا طرز عمل یہی رہا تو رفتہ رفتہ پولیس اورمعاشرہ دونوں اُجڑ جائیں گے۔پتہ نہیں‘ہمارے اربابِ بست و کشاد نے معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والی پولیس جیسی لوکل فورس کو عالمی دہشتگردی کی آگ میں کیوں جھونکا؟حیرت ہے کہ اپنے اختیارات و مراعات کیلئے آخری حد تک مزاحمت کرنے والے پی ایس پی افسران نے جانتے بوجھتے ہوئے ایک کرائم فائٹنگ فورس کودہشتگردی کی جنگ میں بروئے کار لانے کی تباہ کن پالیسی کیوںقبول کر لی؟ہمارا مخمصہ یہ بھی ہے کہ تشدد کی اس مہیب لہر میں اگرچہ ستر ہزار سے زیادہ شہری جاں بحق‘ہزاروں زخمی اور سینکڑوں عمر بھر کیلئے اپاہج ہوئے‘ لیکن یہ ساری ٹریجڈی سماج کی فطری لچک میں تحلیل ہو گئی اوردہشتگردوں کے ہاتھوں مرنے والے مظلوم شہریوںکے صرف اعداد و شمار ہی باقی رہ گئے۔لیکن پولیس کے شہدا کے ایام منانے اور چوکوں و چوراہوں پہ سجی قدِآدم تصاویر کے ذریعے فورسز کی قربانیوں کو اجاگر کرنے کی رسم ہر روز ہمیں خوف کی پرستش کی ترغیب دلاتی رہے گی۔
بلاشبہ کوئی بھی شہری مرنے کے لئے پولیس میں بھرتی نہیں ہوتا‘دنیا بھر کی پولیس کا ماٹو یہی ہے کہ معاشرے کی خدمت کے لئے زندہ رہو۔اگرچہ پولیس افسران خود بھی یہ کہتے ہیں کہ معاشرہ مدد نہ کرے تو پولیس کامیاب نہیں ہو سکتی‘ لیکن پھر بھی ہمارے پالیسی ساز ‘دہشتگردی کے تدارک کی بجائے پولیس فورس کو معاشرے کے خلاف صف آراکر کے ریاستی طاقت کے سارے دباؤکا رخ عوام کی طرف موڑکر پولیس اور سماج کے مابین تفریق بڑھانے سے گریز نہیں کرتے۔جب بھی شہر میں ٹارگٹ کلنگ کی واردات ہو‘ لوگ سہم جاتے ہیں‘ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ پولیس دہشتگردوں کا تعاقب کرنے کی بجائے چیک پوسٹوں کی تعداد بڑھا کے شہریوں کو ہراساں کرنے کا دائرہ مزید وسیع کردے گی۔ہرچند کہ ہمارے اربابِ حل و عقد جانتے ہیں کہ فوج کے بغیر دہشتگردی کا قلع قمع ممکن نہیں‘تو پھر فرنٹ لائن پہ رکھ کے پولیس والوں کوقربانی کا بکرا بنانے کا مقصد کیا ہے؟امر واقعہ بھی یہی ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے پولیس اہلکار کسی مؤثر مزاحمت کے بغیر دہشتگردوں کے ہاتھوں جس بے چارگی کی موت مر رہے ہیں‘اس نے فورس کے مورال کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔دہشتگردی کے خوف کی وجہ سے پولیس کی توجہ سٹریٹ کرائم سے ہٹی تو سماجی جرائم میں غیرمعمولی اضافہ ہونے کے علاوہ تفتیش کا معیار گرتا چلا گیا‘جس کی وجہ سے عدالتوں کیلئے ملزموں کو سزا دینا دشوار ہوگیا۔اگرچہ سرکاری سطح پہ خیبر پختونخوا پولیس کی ساکھ کو بڑھاوا دینے کی درجنوں تشہیری مہمات چلائی گئیں‘ لیکن افسوس کے اس کے برسرزمین آثار دکھائی نہیں دیتے۔کامل دو سال گزر جانے کے باوجود ڈیرہ اسماعیل خان کی شریفاں بی بی بیحرمتی کیس کے مرکزی ملزم کی عدم گرفتاری پر اعلیٰ عدالتیں آج بھی برہمی کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہیں‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر فرقہ وارانہ دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں سکیورٹی انتظامات کے دوران پولیس کی طرف سے فرسودہ طور طریقوں کو آزمانے کی مشق اور شہریوں کو بنیادی آزادیوں سے محروم کر کے پولیس اور سوسائٹی کے درمیان خلیج بڑھا رہی ہے۔پولیس کی اعلیٰ کمانڈ کو اس امرکا احساس ضرور ہو گا کہ شہر کی تفریح گاہوں اور مصروف ترین شاہراہوں پر قائم ان درجنوں چیک پوسٹوں پہ ہر روز عورتوں‘بچوں اور باعزت شہریوں کی تذلیل کاکلچر پروان چڑھانا نہایت ناگوار عمل ہے۔ پچھلے دو تین سالوں کے دوران ملک بھر سے چیک پوسٹیں ہٹائی گئیں‘ لیکن اس بدقسمت ضلع کے طول و عرض میں چیک پوسٹوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔انتہائی مصروف ترین سرکلر روڈ پر ٹیچنگ ہسپتال سے لے کراسلامیہ سکول تک صرف آدھ کلو میٹر فاصلے کے اندر آٹھ چیک پوسٹوں کا قیام عدم تحفظ کے احساس کو بڑھاتا ہے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ جن چیک پوسٹوں پہ شہریوں کو شب و روز رسوا ہونا پڑتا ہے‘پولیس نے وہاں کبھی کسی بھی دہشتگرد کو پکڑا ؟
حقیقت یہ ہے کہ شہریوں کی حفاظت کے ان فرسودہ طریقوں نے ماحول میں ایسی گھٹن پیدا کر دی جو اس بے مقصد جبریت کو کسی ناگہانی حادثے سے دوچار کر کے سماجی تشدد میں بدل دے گی۔پچھلے بیس سالوں میں دہشتگردی کے خلاف مزاحمت کے دوران پولیس افسران نے لاشعوری قربانیوں کے عوض غیر معمولی مراعات اور لامحدود اختیارات تو سمیٹے‘ لیکن ان اذیت نا ک تجربات سے سیکھا کچھ نہیں ‘جو سینکڑوں انسانوں کو نگل گئے۔پولیس اپنے تجربات و مشاہدات سے استفادہ کرکے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے سکیورٹی کا کوئی ایسا میکنزم تشکیل دے سکتی تھی جس سے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کئے بغیر فرائض کی انجام دہی ممکن بنائی جاتی‘لیکن بوجوہ پولیس کمانڈ ایسا نہ کر سکی۔دنیا بھر میں پولیس اور سکیورٹی ادارے شہریوں کی جان و مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے دن رات کام کرتے ہیں‘ لیکن وہ عوام کے بنیادی حقوق سلب کرتے ہیں‘ شہری آزادیوں کو محدود کرنے پہ اصرار کرتے ہیں۔ہمارے پولیس افسران نے اپنی حفاظت کیلئے شہر کی اہم ترین شاہراہوں کو دس سالوں سے مستقل بند کر کے نقل و حمل کی آزادیوں کو محدود کر رکھا ہے۔ہا ئی کورٹ کے حکم پر چار وناچار پولیس لائن روڈکھولی گئی‘مگر ڈی پی او آفس کے تحفط کی خاطر سرکٹ ہاؤس کی تینوں خوبصورت سڑکوں میں پختہ دیواریں چن کے راستے بلاک رکھے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ افسران کو اگر اپنی جانیں اتنی عزیز ہیں تو وہ ان پولیس اہلکاروں کو بھی ایسی ہی سکیورٹی دیں جو لونی‘ہتھالہ اور رمک جیسے دور افتادہ علاقوں کی چیک پوسٹوں پہ ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔یاد رکھیں‘انسان کی انفرادی جبلتیں ریاست کے اس قانونی نظام سے زیادہ طاقتور ہیں‘ جو ہمارے معاشرے کی حرکیات پہ محیط ہیں۔اگر افسران اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر شہر کو قید خانے میں بدل دیں گے تو فطری جبلتیں مقہورمعاشروںکو مزاحمت پہ مجبور کریں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں