موجودہ حالات میں خصوصی عدالت کے ذریعے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے کے فیصلہ کے اثرات صرف کسی ایک فرد یا ادارے تک محدود نہیں رہیں گے‘ بلکہ اس کے دائرے داخلی سیاست کی جزیات سے لے کر خارجہ پالیسی کی وسعتوں پہ محیط ہوتے جائیں گے‘ ایک عرصہ سے ہمارے پختہ کارسیاستدانوں اورعدلیہ کے ذی وقارججزکے علاوہ طاقت کے مراکز میں بھی یہ احساس پنپ رہا تھا۔اگر قوم کی تقدیر کوکسی فرد یاگروہ کی مرضی کے سپرد رکھا گیا ‘تو مملکت کی سلامتی خطرات سے دوچار ہو جائے گی۔اگرغور کریں تو حالیہ عدالتی فیصلوں میں ہمیں اسی احساس کی گونج سنائی دے گی۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جب کسی قوم کو ریاستی امور میں فیصلہ سازی کے عمل سے لاتعلق کر دیا جائے‘تو مملکت اور شہری دونوں کمزور ہو جاتے ہیں۔ایسی مملکت میں عوام بے وقعت اوراس کے حکمراں عالمی برادری میں برابری کا مقام کھو دیتے ہیں۔بلاشبہ جس ملک کے معاملات منتخب پارلیمنٹ کی بجائے چند غیرنمائندہ افراد چلائیں گے‘وہاں دوام اقتدار کے تقاضے قومی مفاد کوپیچھے دھکیل دیںگے اور بالادست گروہ ملکی امور کے فیصلے ان عالمی طاقتوں کی خواہشات کے مطابق‘ کرنے پہ مجبور ہوں گے‘ جن کی حمایت و تعاون ان کے اقتدار کا واحد سہارا ہوتا ہے۔
ارتکازِ قوت کے اسی آشوب کی تازہ مثال‘ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمدکی میزبانی میں بلائی گئی کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے انکارکی صورت میں سامنے آئی‘جس میں پاکستان کی شمولیت ہمیں ایک ساورن قوم ہونے کا احساس دے سکتی تھی‘ لیکن قومی وحدت سے عاری کمزور ریاست چاہتے ہوئے بھی آزادانہ فیصلوں کی جسارت نہ کر سکی۔اگر ہم ماضی پہ نظر ڈالیں تو یہی ارتکاز ِقوت ہی ہمیں ایسے غلط فیصلوںکی طرف لے گیا‘ جس کا خمیازہ ہماری اگلی کئی نسلیں بھگتیں گی۔فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کی طاقت کے بل بوتے ملک پہ تسلط پانے کی ہوس‘ خطے کی علاقائی طاقتوں کو نظرانداز کر کے یورپ اور امریکہ کے ساتھ سیٹو‘سینٹو معاہدات کا طوق گلے ڈالنے کا محرک بنی اورجنرل ضیا الحق کی شوق جہاں بانی کی خُو‘ بخوشی ہمیں 1979ء کی افغان جنگ کی آگ میں کودنے پہ مائل کر گئی۔اگر اس وقت ملک میں پارلیمنٹ‘عدلیہ اور انتظامیہ اپنے فطری دائروں میں موثر انداز میں کام کر رہی ہوتی ‘تو ہماری ریاست ایسے مہلک فیصلے کرتی ‘نہ قوم ایسے ناگوار فیصلوں کے نتائج بھوگنے پہ مجبور ہوتی۔
1971ء میں سانحہ بنگال کے بعد جب پارلیمنٹ متحرک‘عدلیہ آزاد اور انتظامیہ پوری طرح فعال تھی تواس وقت کی منتخب لیڈرشپ نے ہمیں 1973ء کا متفقہ آئین دینے کے علاوہ عالمی اسلامی کانفرنس کی میزبانی جیسا اعزاز پانے کا موقعہ فراہم کر کے ٹوٹی ہوئی قوم کوامید کی روشنی عطا کی اور اس سے بھی بڑھ کر ذوالفقارعلی بھٹو نے ایٹمی قوت کا حصول ممکن بناکے ملکی سلامتی کو یقینی بنا لیا تھا ‘لیکن بدقسمتی سے ہم نے خود ایک ابھرتے ہوئے ملک کو تیسری بارمارشل لاء کی دلدل میں دھکیل کے تقدیر کو کچھ یرغمال حوالے کر دیئے؛چنانچہ استعماری طاقتوں نے حریص آمروں کی کمزوریوںکا استحصال کرتے ہوئے ہمیںکبھی نہ تھمنے والی افغان جنگ کا ایندھن بنا کر ملک کوسیاسی و انتظامی انتشار اور ناقابل ِبرداشت معاشی بدحالی سے ہم آغوش کروا دیا۔
1988ء میں ایک ہوائی حادثہ میں صدر ضیاالحق کی ناگہانی موت بھی شاید اسی آشوب کا شاخسانہ تھی‘ کیونکہ جنرل ضیا الحق نے افغان وار کے دوران امریکی انتظامیہ کی مصنوعی دوستی پہ تکیہ کرکے پاکستان کو ساورن مملکت بنانے کی راہ اختیار کرنا چاہی‘ لیکن خود غرض عالمی مقتدرہ نے فرد واحد کوراستہ سے ہٹا کے نہایت آسانی کے ساتھ مملکت کو درست پٹڑی پہ چڑھنے سے روک لیا۔افسوس‘جنرل ضیا الحق کو معلوم ہوتا کہ عوامی حمایت کے بغیر کوئی فرد واحد پالیسیز کو دوام دے سکتا ہے ‘نہ اسے خوابِ تکمیل کی تعبیر ملتی ہے۔
معاشرتی فلاح صرف ملت کے اس تصور میں مضمر ہے‘جن میں پوری قوم‘دفاعی ادارے اورمنتخب لیڈرشپ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو ہم آہنگ بنا لیتے ہیں۔ 1988 ء کے بعد ابھرنے والی ناتجربہ کار سیاسی لیڈرشپ نے سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں آنکھ کھولی اوراپنے بچگانہ رویوں سے ٹامک ٹوئیاں مار کے ذہنی تقسیم کو مزید بڑھا دیا‘ لیکن سیاست کے دشت بے اماں میں بیس سال تک آبلہ پائی کرنے کے بعد جب وہ کچھ ڈلیور کرنے کے اہل ہوئی تو انہیں بروکار لانے کی بجائے ہم نے نشانہ پہ دھر لیا۔1999ء میں جنرل پرویزمشرف کے چوتھے مارشل لاء نے نوازشریف اور بے نظیر بھٹوجیسے مقبول رہنماؤں کو جلا وطنی کی راہ دیکھا کے قوم کو امریکہ کی جنگ دہشت گردی کے سپرد کر دیا‘جس کے نتیجہ میں ابھرنے والی تشدد کی لہروں نے سکیورٹی فورسیز اورپولیس کے جوانوں سمیت 80 ہزار سے زیادہ معصوم شہریوںکو موت کی وادی تک پہنچانے کے علاوہ اربوں ڈالر کا ناقابل برداشت مالی خسارہ اٹھانے کے باوجود ہمیں عالمی طاقتوں کی نظر میں معتوب و بے وفا ٹھہرا دیا۔ بلاشبہ‘ جس قوم کے حکمراں اپنے عوام کو پابازنجیر بنا کر من مانی خواہشات میں اپنا اور مملکت کا مفاد ڈھونڈتے ہیں ‘وہ وطن سمیت خود کوبھی برباد کرکے چھوڑتے ہیں‘تاہم مشرف عہد کی زرخیز بدامنی اورعمیق تشدد کے جُلو میں اٹھنے والی وکلاء تحریک‘جسے درپردہ طاقت کی ایما حاصل تھی‘اس مہیب آمریت سے نجات کا وسیلہ بنی‘ مگر افسوس کہ دس برسوں پہ محیط ان تلخ ایام میں ہم بے نظیر بھٹوجیسی کہنہ مشق لیڈر کو گنوانے کے علاوہ سلالہ چیک پوسٹ پہ اپنے اتحادی کے ہاتھوں درجنوںجوانوں کی المناک شہادت کا دکھ اوربن لادن کو گرفتار کرانے کی سکیم کا حصہ بن کے قومی وقار کو پامال کروا بیٹھے۔ نواز حکومت نے یمن تنازع میں فریق بننے سے انکار کرکے عالمی آکٹوپس کی گرفت سے نکلنے کی جسارت کی تو انٹرنیشنل سٹیبلشمنٹ نے پانامہ سکینڈل کے ذریعے اسے نااہل ثابت کراکے ہمارے داخلی تضادات کا پردہ چاک کر دیا‘تاہم اس بار سیاسی قیادت نے نہایت صبرواستقامت کے ساتھ مسلسل اور خاموش مزاحمت کے ذریعہ عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروںکو وہ توانائی بخشی ‘جس کے وسیلے وہ عالمی طاقتوں کے دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل ہوا چاہتے ہیں۔
حالیہ عدالتی فیصلے؛ اگرچہ ہمیں ناگوار گزریں گے‘ لیکن بالآخر یہی تلخ فیصلے ریاست کو ایسی قوت فراہم کریں گے‘ جو انہیں شرق وغرب کی غاصب طاقتوں کے سامنے کھڑا ہونے کا حوصلہ عطا کرے گی۔ایک آزاد اور خود مختار قوم بننے کیلئے ہمیں آئینی نظام سے طاقت لینا پڑے گا اور بلاشک و شبہ شفاف انتخابی عمل کے نتیجہ میں بننے والی منتخب پارلیمینٹ جو قوم کی اجتماعی دانش کی مظہر ہو‘بے لاگ انصاف فراہم کرنے والی حقیقی معنی میں آزاد عدلیہ اورمیرٹ کے نتیجہ میں وجود پانے والا انتظامی ڈھانچہ اس قوم کی منظم طاقت کا اظہار بن سکتا ہے؛چنانچہ اب ‘ وقت آ گیا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو تقسیم اختیارات کے اس آئینی فامولہ کو قبول کر لینا چاہیے‘ جس کی توضیح 1973ء کے متفقہ آئین میں کی گئی۔
بہرحال وہ وقت ضرور آئے گا‘جب تمام سٹیک ہولڈرز کو عوامی جوابدہی کا سامناکرنا پڑے گا‘لہٰذا آئینی حدود کے اندر سمٹ جانا ہی مناسب ہے۔