نیب ترمیمی آرڈیننس کے خلاف اپوزیشن نے جس تیزی کے ساتھ ردعمل دیا‘اُسی سرعت کے ساتھ مخالفت کی یہ تند و تیز لہر مصلحت کے تالاب میں ڈوبتی دکھائی دینے لگی۔گویا پہلے ناگہاںحیرت و استعجاب کا مدّ اٹھا اورپھر متوقع ریلیف کا جزرکسی خیر آمیز سکوت میں ڈھلتا چلا گیا۔چند ایک استثنائی ادوارکو چھوڑ کے اقتدار کی سیاست میں انسانی فکرکا دورانیہ ہمیشہ نہایت مختصر رہا ہے۔حیرت انگیز طور پہ پاور پالیٹیکس کے تقاضے صرف چار پانچ برسوں کے اندر اُن سیاسی نظریات کو بدل کے رکھ دیتے ہیں‘جنہیں سیاست میں کارفرما عناصر اپنی افتاد ِطبع کی باعث زندگی کی آخری حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔
چند سال قبل حکمراں اشرافیہ جن لوگوں کو سیاست کے اکھاڑے سے باہر رکھنے پہ مصر تھی‘آج انہی نامطلوب گروہوں کی ایوان ِاقتدار میں واپسی انہیںمفید دکھائی دیتی ہے؛اگرچہ موجودہ کایاکلپ کے پیچھے کار فرما اصل حقائق تک ہماری رسائی ممکن نہیں‘ لیکن صرف اسی ایک پیش دستی نے مقتدرہ‘حکمراں اشرافیہ اور اپوزیشن جماعتوں پہ مشتمل طاقت کی تکون کے ذہنی خلجان کا پردہ چاک کرکے سب کواپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے پہ مجبورکر دیا۔اہل ِعقل کہتے ہیں؛زندگی میں تبدیلیاں مرحلہ وار نہیں‘ بلکہ اچانک رونما ہوتی ہیں۔لگتا ہے کہ حالات کی ایک ہی کروٹ سیاست اور مملکت کے پورے بیانیہ کو بدل گئی!
گزشتہ دو چار دنوں میں ایسا کیا ہوا ہے کہ اب‘ وزراء اور اپوزیشن رہنماؤں کی جذباتی تقریریں اور اصولی باتیں پرانی محسوس ہونے لگی ہیں۔وقت کی بے رحم گردشوں نے صرف اہل ِسیاست ہی کو نہیں‘ بلکہ دور کی کوڑی لانے والے ان صحافتی بزرجمہروں کے فلسفہ سیاست کو بھی متروک بنا دیا‘جنہوں نے سفر سیاست کے ہرعارضی مرحلہ کو آخری منزل سمجھ کے اپنی سوچوںکو فیصلہ کن معرکہ کیلئے وقف کر دیا۔یہی خوش گمان لوگ اب‘ اپنے خیالات اور زمانہ سے خوفزدہ ہو کے دونوں کو مسترد کرنے پہ اتر آئے ہیں۔یہ دراصل وہ تصور تھا‘ جسے ہمارے ہوشیار میڈیا نے ازخود تخلیق کیا‘جس میں وہ خود ایک اداکار کی حیثیت میں شامل بھی رہا اور اسے وہ اپنے اندر محسوس بھی کرتا ہے۔چلو اچھا ہوا کہ مقتدرہ‘سیاستدان اور میڈیا سٹارزجو اپنے مورچوں پہ ڈٹے بیٹھے تھے‘اعصاب کو قدرے ڈھیلا چھوڑ کے کچھ لمحات کیلئے سہی اپنے خول سے باہر تو نکل آئے ہیں۔بلاشبہ تینوں کیلئے زیادہ دیر تک تناؤ کی اس کیفیت میں رہنا دشوار تھا۔ان کی فطرت زندگی کے نئے امکانات کو تلاش کرنے کیلئے بیتاب تھی ‘کیونکہ تیزی سے بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں اس ملک کو زیادہ دیر تک پوری دنیا سے الگ تھلگ رکھنا ممکن نہیں تھا؛چنانچہ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ اس جبری مفاہمت کے بطن میں سے ضرور کوئی خیر برآمد ہو گی۔
سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے فریق کو مطلقاً مٹانے پہ قدرت نہیں رکھتا‘فریقین جتنا جلد اس حقیقت کو سمجھ لیں گے ‘دونوں کے حق میں بہتر ہو گا۔ماضی میں ہم سب دیکھ چکے ہیں؛ضیا الحق کی آمریت اوربعدازاں‘ ان کے جانشینوں(جن میں نوازشریف بھی شامل تھا) نے پیپلزپارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی‘ لیکن ہر دور میں وہ نئی قیادت اور نئی سوچ کے ساتھ ابھر کے سامنے آئی۔جنرل پرویزمشرف کی آمریت اور اس کی باقیات نے نوازلیگ کو دبانے کے ڈھیروں جتن فرمائے‘ لیکن وہ بھی پوری طرح اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائے‘خاص کر 2018ء کے انتخابات کے بعد نوازلیگ زیادہ پیچیدہ اور مہیب قوت بن کے ابھری‘جس نے طاقت کے مراکز کو نئے چیلنجز سے دوچار کرنے کے علاوہ پاور پالیٹیکس کی پوری ڈاکٹرین کو تبدیل کر دیا۔
بہرحال‘جس قوت نے اور جیسے بھی تناؤ کی اس کیفیت کو تحلیل کیا‘اس نے بھلا ہی کیا ہو گا۔22کروڑانسانوںکو زندگی کے وظائف عمومی کی طرف لوٹانے کیلئے لازم تھا کہ سیاسی کشمکش کے سارے فریقین ایک قدم پیچھے ہٹ کے ماحول کو کچھ نارمل ہونے دیں۔علیٰ ہذالقیاس‘ زندگی کی اس فطری تفہیم کے باوجود یہ جستجو کبھی کم نہیں ہو گی کہ سیاست کی وہ کبھی نہ تھمنے والی جنگ‘جس نے ہماری خواہشات کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا‘ اچانک تحلیل کیسے ہو گئی؟کیا ان تبدیلیوں کا محرک اصلی حالیہ عدالتی فیصلے ہیں؟یا سیاسی جماعتوں کی وہ مزاحمت‘ جس نے حکمراں جماعت کو آگے بڑھنے سے روک رکھا تھا‘اہل ِعلم ان عقدوں کو سلجھانے کی تگ و دو میں اپنی زندگیاں صرف کر دیں گے‘ مگر وقت ان کی پروا کئے بغیراجتماعی زندگی کو نئے عنوانات عطا کر کے چند قدم مزید آگے بڑھ جائے گا؛چنانچہ امید ہے کہ اگلے چند دنوں میں سارے حجابات ِسیاست اٹھ جائیں گے‘ جنہوں نے فی الوقت ہماری نظروں کو خیرہ کر رکھا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ ہماری داخلی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کی اثر پذیر بھی ہوگی‘ جس نے دنیا بھرجمہوری تصورات اور سیاسی عوامل کے تال میل کو بری طرح متاثرکیا۔پیراڈائم شفٹ کے خطرات کے دوران دنیا کی طاقتور ترین مملکتیں بھی جمہوری توازن کی بجائے استبدادی نظام میں پناہ لے رہی ہیں‘امریکہ‘فرانس‘روس‘چین اور پڑوسی ہندوستان سمیت کئی مملکتیں اسی تصور کی کلاسکی مثالیں بن گئی ہیں‘جہاں طاقتور شخصی یا پھر پارٹی استبداد نے جمہوریت کو پس منظر میں دھکیل دیا۔عالمی اقتصادی نظام پہ امریکہ کی کمزور ہوتی گرفت نے دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے ورلڈ آرڈرکو بے یقینی سے دوچار کر دیا‘جس کی بدولت طویل بنیادیں رکھنے والے دنیا کے مضبوط اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔شرق و غرب کی مملکت نہایت بے چینی کے ساتھ نئی عالمی صف بندی میں جگہ تلاش کرتی نظر آتی ہیں۔ترکی نیٹو کا ممبر ہونے کے باوجود روس سے ہم آغوش ہے اور اسرائیل اپنے فطری دشمن سعودی عرب کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا نے میں مصروف نظر آتا ہے۔
چین دنیا کے بنیادی ڈھانچہ کی ازسر نو تدوین کے ذریعے بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں پہ اثرانداز ہو کے سفارتی جغرافیہ کو بدلنے میں سرگرداں ہے؛ اگرچے اب ‘بھی ماحول پہ بے یقینی سایہ فگن ہے کہ دنیا میں بنیادی تبدیلیوں کی قیمت کیا ہو گی اورنئے امکانات کتنے گھروں کو آباد اور کس کس کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے اسباب مہیا کریںگے‘خاص طور پہ پاکستان جیسے ممالک کیلئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں ہو گا کہ وہ اس ٹوٹتی پھوٹتی دنیا کی تعمیر نو کے دو بڑے کرداروں چین یا امریکہ میں سے کس کے ساتھ کھڑا ہو گا اوران فیصلوں پہ عمل درآمد کے مضمرات کیا ہوں گے۔ایسے ہی کئی تلخ سوالات اور نامطلوب تغیرات کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں‘ جن جوابات کسی کے پاس موجود نہیں۔
لیکن اس امر میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ جمہوریت اور عہد ماضی کے سیاسی نظام‘اپنی نظریاتی مبادیات اور بنیادی اقدار کو قائم نہیں رکھ پائیں گی۔کیا ہمیں جمہوریت اور سویلین بالادستی کی طلسماتی کشمکش کو ایک طرف رکھ کے زندگی کے نئے امکانات کا استقبال کرنے کی تیاری کرنا ہو گی؟