مسلم لیگ نواز کی طرف سے موجودہ سیاسی بندوبست کے خلاف مزاحمت ترک کردینے کے بعد قومی سیاست میں ایک گوناں ٹھہراؤکے امکانات پیدا ہونے لگے تو مرکزی دھارے کے فعال میڈیا نے اپنی پوری توانائیوں کو حکمران جماعت کے داخلی اختلافات کو اُبھارنے اور کمر توڑ مہنگائی کی تلخیوں کو نمایاں کرنے پہ مرتکز کرکے رائے عامہ کے اضطراب کو دوام بخشا۔یعنی اپوزیشن جماعتیں چار وناچار اگر پی ٹی آئی حکومت کو اپنی''صلاحیتوں‘‘ کو آزمانے کا موقعہ دینے پہ رضامند ہو بھی جائیں تو سوسائٹی کے پیچیدہ عوامل حقیقی ایشوز سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔ایک ایسا سیاسی بندوبست جہاں حکمران اشرافیہ کے علاوہ اپوزیشن بھی سلیکٹڈ ہو اورہر سطح کے سیاسی کردار متعین کردہ دائروں میں محوِ خرام رہنے پہ مجبور ہو جائیں تو وہاں قدرتی طور پہ عوامی اُمنگوں اور انسانی جذبات کی ترجمانی کا عمل لکھاریوں کے رشحاتِ قلم‘شاعروں اور ادیبوں کی پروازِ خیال اورسماجی سائنسدانوں کے توانا افکار سے منسلک ہو جاتا ہے‘جیسے یورپ میں تحریک ِاصلاح اور نشاۃ ثانیہ کا غیرجمہوری عہد سپائی نوزا‘ والٹئیر‘روسو‘شوپنہار‘ نطشے اور امانوئیل کانٹ جیسے عظیم فلسفیوں‘شعرا اور ادیبوں کی لازوال قربانیوں اور نور ِفکرسے درخشاں نظر آتا ہے۔متذکرہ بالا سب لوگ سیاسی جدوجہد کے نہیں بلکہ سماجی عمل کی پیدوار تھے۔آج بھی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے مابین گٹھ جوڑ کے باعث پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی خاطر ایسے ہی کردارسامنے آ سکتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ حکومتی پالیسی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ناقابلِ برداشت مہنگائی‘خاص کر آٹا بحران کی سنگینی پر سیاسی جماعتوں نے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی تو قومی دھارے کا فعال میڈیا‘شعرا اورسماجی کارکن عوامی دکھوں کے مداوا کیلئے آواز اٹھانے لگے۔سیاست اور سماجیات کی سائنس کو سمجھنے والے ماہرین اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ فعال معاشروں کو سنبھالنے کیلئے جہاں ریاستی اداروں کا کردار اہم ہوتا ہے وہاں انسان کے تغیرپذیر فکری دھاروں کو کنٹرول کرنے کیلئے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ٹول بھی ناگزیر ہے۔اگر سیاسی جماعتیں نہ ہوتیں تو کئی متنوع افکار اورطاقتور خیالات ہمہ وقت سماج کو دگرگوں رکھتے‘جس کی وجہ سے قانون کی تادیب اور ریاست کی قوت قہرہ کند ہو جاتی‘کیونکہ بھرپور انسانی معاشروں میں سمندر کی لہروں کی مانند ہر وقت فکر وخیال میں مد وجزر برپا رہتا ہے‘ جسے ریاستی قوت کے ذریعے کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا‘اس لیے ہر اتھارٹی رائے عامہ کے اسی فطری نشیب و فراز کو کمانڈ کرنے کیلئے معاشروں کو طبقاتی و نظریاتی تقسیم اور مذہبی گروہوں کی طاقتورعصبیتوں میں مقید رکھتی ہے۔
کوئی بھی ریاست کروڑوں لوگوں کا براہ راست سامنا نہیں کر سکتی اس لیے وہ سیاسی‘مذہبی اور طبقاتی سطح پہ نمائندگی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے‘ تاکہ مختلف گروہوں کی گنی چنی لیڈرشپ کوسنبھال کر انبوہِ کثیر کو تسخیر کرسکے۔ہندوستان جیسے وسیع و عریض اور متنوع سماج کو کنٹرول کرنے کی خاطر انگریز سرکار نے بھی با لآخر سیاسی اور مذہبی تحریکوں کو فعالیت کے مواقع فراہم کئے تاکہ کروڑوں انسانوں کے ہر لحظہ وسعت پذیر مشاہدات‘اجتماعی زندگی بارے بدلتے تصورات اور پیچیدہ خیالات کے بہتے دھاروں کوسیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقدس نظریات اور نصب العین کے تابع لا کر سماجی نظم و ضبط قائم کیا جا سکے۔اگر ہم برصغیر کی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو انگریزوں نے کانگریس‘مسلم لیگ اور ان سے ملتی جلتی سیاسی پارٹیوں کی افزائش میں مدد دے کر جہاں ہمیں محمد علی جناح‘موہن چندگاندھی اورجواہر لعل نہرو کی صورت میں بہترین لیڈرشپ فراہم کی وہاں انہوں نے ان مقبول سیاستدانوں کے عوامی اثر و رسوخ کوبروئے کار لاکر لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو بلاواسطہ طور پہ کنٹرول کرنے میں بھی کامیابی پائی‘حتیٰ کہ انگریز گورنمنٹ مذہبی رجحانات کی حامل جن تحریکوں کی حوصلہ شکنی کرنی تھی انہیں بھی پہلے اُبھرنے کی مہلت دی تاکہ ان تحریکوں کی مستند لیڈرشپ کوریاستی مشینری کے ذریعے کچل کر ان کے پیروکاروں کے حوصلے توڑے جا سکیں۔انگریزوں کے بعد اس خطہ کی ہر ریاستی مقتدرہ نے منصوبہ بندی کے تحت بتدریج سیاست کے اسی آرٹ کو فروغ دے کر یہاں کی معاشرتی فعالیت کو کنٹرول کرنے میں کامیابی پائی۔مقتدرہ نے انگریز کے انہی تجربات سے فائدہ اٹھانے کی خاطر ملک بھر میں خاص طور پہ مذہبی تحریکوں کی آبیاری کرنے کے علاوہ خانہ ساز سیاسی جماعتوں کی تشکیل کے ذریعے ایسی لیڈرشپ پیدا کی جس کے تال میل سے سماج پہ اپنا نفسیاتی کنٹرول قائم کر لیا‘ تاہم اس سب کے باوجود ماضی میں بھی اور آج بھی ہمارے سماج کے سیمابی عناصر یعنی شعرا‘اُدبا اور صحافیوں نے بنیادی انسانی حقوق کے حصول اور سیاسی آزادیوں کی بحالی کیلئے لازوال جدوجہد کر کے نہایت دلیرانہ انداز میں جبر کا مقابلہ کیا۔ایسے شوریدہ سر لوگوں میں فیض احمد فیض‘حبیب جالب‘نعیم صدیقی اور احمد فراز جیسے کئی باکمال شاعر اورنثار عثمانی جیسے عظیم صحافی شامل تھے‘جنہوں نے جبریت کی تاریکیوں کے دوران روحِ عصرکی ترجمانی کر کے ہمارے سماج کو ضمیر کی قید سے نجات دلانے کی کوشش کی۔ضیا الحق کی آمریت کے زمانہ میں جب سیاسی قیادت تہہ خاک سو گئی اورمذہبی قوتیں جبر کی حمایت میں مفاد تلاش کر رہی تھیں‘ اس زمانہ میں فیڈرل یونین آف جرنلسٹس آمریت کے خلاف مزاحمت کی علامت بن کے سامنے آئی۔
انسانی افکار اور سیاسی نظریات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو گرفت میں رکھنے کی خاطر اب بھی مقتدرہ تھوڑی سی ردو بدل کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو سنبھال کر معاشرے کو کنٹرول کر رہی ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ کے سماج میں پنپنیوالی ناراضی کو پیپلزپارٹی جیسی مقبول جماعت کی لیڈر شپ کو رام کر کے مینج کر لیا گیااور پنجاب میں پائے جانے والے اضطراب کو شریف خاندان کے ساتھ ڈیل کے ذریعے بے اثر بنایا جا رہا ہے۔بلاشبہ جبر کی قوت فکری و سیاسی آزادیوں کے حصول کیلئے بیقرار جذبات کی رخ گردانی کی خاطر ایسی سیاسی جماعتوں اور مذہبی تحریکوں کی آبیاری کرتی ہے جن کی مخصوص لیڈر شپ کے ذریعے انبوہ کثیر کو مینج کیا جا سکے‘لیکن شعورِ انسانی کی نورانی کرنیں‘مشاہدات کی قوت اور افکار کے بہتے دھارے ذہنی ارتقا کیلئے متبادل راستہ تلاش کر لیتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ اس عظیم مقصد کیلئے فطرت نے ہمیشہ‘شاعروں‘ادیبوں‘لکھاریوںاور فلسفیوں کا انتخاب کیا۔
اس وقت مملکتِ خدا داد میں جہاں حکومت کے مینجڈ ہونے کا تاثر دیا جاتا ہے وہاں اپوزیشن کی بڑی جماعتیں‘علاقائی گروپوں اور متعدد مذہبی گروہوں(مولانا فضل الرحمٰن کے سوا) کی لیڈرشپ بھی مینجڈ دکھائی دیتی ہے‘یعنی تمام جماعتیں طاقتور حلقوں کی منشا کے مطابق کردار ادا کرکے سوسائٹی کے تغیر پذیر افکار و نظریات اور جذبات کو پا بہ زنجیر رکھنے میں مدد گار بنی بیٹھی ہیں‘البتہ رسی کودنے کی مشق کی طرح ان کی لیڈر شپ کو محدود دائروں کے اندر سیاسی اُچھل کود کی اجازت ضرور ہوتی ہے‘ لیکن یہ لوگ فکر و خیال کی وسعتوں میں جھانکنے یا سماج کی وسیع دنیا میں گام فرسائی کے قابل نہیں رہتے بلکہ ان کی لیڈنگ پوزیشن کو انسانی شعور کی وسعتوں کو محدود اور فکری آزادیوں کوکنٹرول کرنے کا ٹول بنا لیا جاتا ہے۔قصہ کوتاہ‘اگرعوام فلاح چاہتی ہے توپھر اسے سیاسی جماعتوں کی تقلید کا طوق گلے سے نکال کر سماجی جدلیات کا حصہ بننا ہو گا۔