اعلیٰ امریکی حکام کی موجودگی میں سالانہ سکیورٹی کانفرنس کے دوران امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کیلئے سات روزہ جامع سیز فائر پہ اتفاق کا اعلان کردیا ہے۔پُر تشدد کارروائیوں میں کمی کے اس ابتدائی معاہدہ کو دراصل افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کی طرف پہلا قدم سمجھا جا رہا ہے‘اگر فریقین نے اس نئی ڈیل پہ عملدرآمد یقینی بنا لیا تو اٹھارہ سال پہ محیط تاریخ کی اس طویل ترین افغان جنگ کاخاتمہ ہو جائے گا ‘جس میں لاکھوں افغانوں سمیت 13000امریکی فوجی بھی ہلاک ہوگئے‘تاہم امن معاہدہ پہ دستخط سے قبل طالبان کو ہفتہ بھر تک پُرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ بند رکھنا ہوگا۔مجوزہ امن معاہد ہ کی اس وقت تکمیل ہو جائے گی‘ جب اگلے ہفتہ امریکی صدرٹرمپ ‘انڈیا کے دورہ پہ ہوں گے‘یہ عین ممکن ہے کہ پیس ڈیل کی اس تاریخی دستاویز پہ دستخط کرنے کی خاطر صدر ٹرمپ کو بگرام ایئربیس جیسے کسی محفوظ مقام تک آنا پڑے۔طالبان اور امریکا کے درمیان طے پانے والی ممکنہ ڈیل کی جزیات تو سامنے نہیں آئیں‘ تاہم سات دنوں پہ محیط تشدد کم کرنے کے معاہدہ کا اطلاق قومی سطح پہ ہو گا۔اس دوران ملک بھر میں پھیلے افغان شہریوں کے علاوہ امریکی کمانڈ میں برسرپیکار نیٹو فورسز پہ خودکش حملے ہوں گے‘ نہ کوئی آئی ڈی بلاسٹ یا راکٹ فائرکیا جائے گا؛اگرچہ اس بات کے اشارے بھی ملے ہیں کہ انخلاء کے باوجود امریکا یہاں کئی سال تک دہشت گردی کے تدارک کیلئے کچھ انٹیلی جنس فورسز کی تعیناتی کا متمنی ہے ‘لیکن ممکنہ معاہدہ کی رو سے پہلے مرحلہ میں امریکی فوجوں کے انخلاء کیلئے 135دنوں کا ٹائم ٹیبل طے پا گیا ہے‘ جبکہ غیر ملکی فورسز کے مکمل انخلاء کو چار سے پانچ سال کا عرصہ درکار ہو گا۔مُلا محمد عمر کی قیادت میں طالبان کو اُس وقت افغانستان میں پاؤں جمانے کا موقعہ ملا‘ جب 1988ء میں عالمی طاقتوں نے روسی فورسز کی پسپائی کے بعد وہاں مخلوط حکومت بنانے سے پہلوتہی برت کے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا۔
یوں داخلی شورش کی آگ میں جلتے افغانستان کے جنوبی صوبوں میں بدامنی پہ قابو پا کرطالبان نے اقتدار پہ اپنی گرفت مضبوط کر لی۔کامل بالادستی کے باوجود مغربی دنیا نے طالبان کی استبدادی حکومت کو برداشت تو کر لیا‘ لیکن پاکستان اور سعودی عرب کے سوا کسی بھی ملک نے انہیں تسلیم نہ کیا۔دریں اثناء طالبان نے ''القاعدہ‘‘ جیسی تنظیم کو افغانستان میں ٹریننگ کیمپ چلانے کی اجازت دیکر خطہ میں نئی پیچیدگیاں پیدا کر دیں اور پھر 1998ء میں القاعدہ نے مشرقی افریقا میں امریکی سفارت خانہ پہ حملہ کر کے طالبان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا۔نائن الیون کے بعد امریکا صدر جارج ڈبلیو بش نے بن لادن کو مرکزی ملزم قرار دیکر اسے سرنڈر کرنے کا مطالبہ کیا تو طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔امریکا نے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ 7 اکتوبر2001ء میں افغانستان پہ یلغارکر دی۔امریکی فورسز نے 17 دسمبر2001ء تک طالبان حکومت گرا کے افغانستان کے طول و ارض میں واقع بڑے شہروں کے قریب فوجی اڈے تعمیر کرا لئے‘بعد میں یو این سکیورٹی کونسل نے افغان فوج کی تربیت اور کرزئی حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی شورش کو کچلنے کی خاطر‘انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹینس فورس(ایساف) قائم کر لی۔اس دوران بکھرے ہوئے طالبان نے خود کو دوبارہ منظم کر کے غیر ملکی فوجوں کے علاوہ افغان گورنمنٹ اور امریکا کے ہر اتحادی کو نشانہ پہ دھر لیا۔ افغان گورنمنٹ کی بقاء کی خاطر امریکا کے بیس ہزار فوجیوں نے یہاں اٹھارہ سال تک طالبان جنگجوؤں کی مزاحمت کا سامنا کیا اور بالآخر زچ ہو کے انہی طالبان سے بات چیت پہ آمادگی ظاہر کی‘ جنہیں وہ دہشت گرد کہتے نہیں تھکتے تھے۔جارج ڈبلیو بش کے بعد ہر امریکی صدر اس جنگ سے جان چھڑانے کی تگ ودو میں سرگرداں رہا‘ جبکہ موجودہ صدر ٹرمپ نے اسے مہنگی ترین جنگ قرار دیکر اس سے نجات کی ٹھانی۔امریکن اب افغان وار کو بھی اس ویتنام کی جنگ سے مماثلت دیتے ہیں‘جس سے جان چھرانے کیلئے انہیں جنوری 1973ء میں پیرس معاہدہ کرنا پڑا تھا۔ہرچند کہ دنیا 2000ء ایک سے ہی افغان تنازع کے پُرامن حل کی خواہشمند تھی‘ لیکن پہلی بار 2000ء میں اس وقت اسی سمت پیش قدمی کے آثار دکھائی دیئے‘جب افغان حکومت اور امریکی فورسز کے خلاف مزاحمت کرنے والے طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔دو سال پہ محیط امن مذاکرات کی مساعی کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ پہلے مرحلہ میں امریکی فورسز کے انخلاء کے بعد افغان گروپوں کے مابین مذاکرات کی ابتداء ہوجائے گی۔پاکستان اور چین کے علاوہ روس بھی پیس ڈیل کی سہولت کاری میں مشغول ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مہذب دنیا دہشت گردوں سے شکست کھا گئی یا پھر طالبان کو دہشت گرد باور کرانا ان کی غلطی تھی؟دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے علاوہ برطانیہ اور پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی حمایت کی‘ لیکن امریکن مذاکرات کی بجائے جنگ کے ذریعے مسئلہ کے حل پہ مصر رہے۔ حامد کرزئی نے ستمبر2007 ء میں طالبان کو براہ ِارست مذاکرات کی پیشکش کی ‘لیکن ملا عمر نے غیرملکی فوجوں کی موجودگی میں مذاکرات سے انکار کر دیا۔2009ء میں افغانوں کے لویا جرگہ نے جنگ کے خاتمہ اور طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی‘دوسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد حامد کرزئی نے پہلی ٹیلی ویژن تقریر میں طالبان کو کہا کہ گھر لوٹ آؤ اور اپنی دھرتی کو گلے لگا لو ‘لیکن اوبامہ انتظامیہ نے افغانستان میں فوج کی تعداد بڑھا کے افغان لویا جرگہ کی کوششوں کو سبوتاژ کر دیا۔2010ء کی لندن کانفرنس میں کرزئی نے پھر کہا کہ ہمیں طالبان سے بات چیت کر کے انہیں مزاحمت ختم کرنے پہ راضی کرنا چاہیے۔امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی اس تجویز کی حمایت کی تھی۔مئی 2010ء میں کرزئی نے یونائٹیڈ سٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف پیس میں کہا کہ القاعدہ کے سوا تمام طالبان گروپوں کے ساتھ امن مذاکرات ہونے چاہیں۔ادھر ملا عبدالغنی برادر وہ پہلے طالبان رہنما تھے ‘جو امریکا اور افغان حکومت سے مذاکرات کے حامی رہے۔فروری 2010ء میں پاک امریکا جوائنٹ آپریشن ٹیم نے ملا برادرز کو کراچی سے اس وقت گرفتار کر لیا‘ جب افغان گورنمنٹ سے مذاکرات شروع کرنے والے تھے۔2010ء میں اوبامہ انتظامیہ کی سوچ میں تبدیلی آئی اور انہوں نے افغان تنازع کے پرُ امن حل کی خاطرمذاکرات کی اجازت دے دی‘اس کے بعد یو ایس طالبان مذاکرات کیلئے کوشش شروع ہو گئیں‘یہ اکتوبر 2010ء تھا‘ جب طالبان کی کوئٹہ شوری نیٹو کے جہاز میں بیٹھ کے مذاکرات کیلئے کابل پہنچی تھی‘تاہم 23 نومبر 2010ء میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کے ساتھ مجوزہ بات چیت فریب ثابت ہوئی۔
دریں اثناحامد کرزئی نے تصدیق کی کہ امریکا اور طالبان کے درمیان جاری خفیہ مذاکرات پہلی باراگست 2011ء میں فیل ہو گئے۔دوسری بار سوا سال تک جاری مذاکرات مارچ 2012ء میں ناکام ہوئے اورمذاکرات کی تیسری نشست جون 2013ء میں بے نتیجہ رہی‘لیکن بالآخر اسی سال فریقین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا سیای دفتر کھولنے پہ رضا مند ہو گئے۔اکتوبر 2016ء میں طالبان نے افغان حکومت کے غیررسمی مذاکرات شروع کردیئے‘تاہم فروری 2018ء میں افغان صدر نے طالبان کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کے علاوہ انہیں جائز سیاسی جماعت تسلیم کرنے اور تمام طالبان قیدیوں کو چھوڑنے کی پیشکش کر دی۔
الغرض پچھلے بیس سال میں افغان حکومت کی طرف سے امن مذاکرات کی جانب یہ پہلی بامعنی پیش رفت تھی ‘لیکن طالبان خاموش رہے۔اس وقت تک شاید امریکی بھانپ چکے تھے کہ افغان تنازع کا مذاکرات کے سوا کوئی نہیں ملے گا۔