کورونا وائرس کے خوف سے ضلع جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل نے کم وبیش 49 دنوں پہ محیط اس دھرنے کی بساط لپیٹ لی جس میں وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران ہونے والے نقصانات کے ازالہ کا تقاضا کر رہے تھے۔ بلاشبہ اس طویل دھرنے کو باعزت اختتام تک پہنچانے کے لیے ٹانک کی ضلعی انتظامیہ نے تھکے ہوئے نوجوانوں کو اس خود ساختہ اُلجھن سے نجات دلانے کی خاطر خوبصورت وعدوں کے ذریعے نفسیاتی سہولت فراہم کر دی‘لیکن ایسی داغ دوزی (Patch work) سے اپنی نفسیاتی اساس سے ٹوٹے ہوئے قبائلیوں کا اعتماد جیتنا ممکن نہیں ہو گا۔اس نازک کام کی خاطر ایسی مربوط مساعی درکار تھی جو انہیں سرکاری اتھارٹی اور مروجہ قانونی نظام پہ بھروسا کرنا سکھا سکتی۔افسوس کہ کامل دو سال گزر جانے کے باوجود ضم شدہ اضلاع میں سرکاری اداروں کی گرفت مضبوط ہوئی نہ قبائلی عوام نے ذہنی طور پہ بندوبستی قوانین کو قبول کیا‘خاص کر پولیس فورس ابھی تک قبائلی معاشرے پہ اپنی نفسیاتی رٹ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔اسی لیے سول انتظامیہ اورعدالتی نظام فعال نہیں ہو پائے‘ بلکہ ان علاقوں میں سماجی مسائل اور قانونی پیچیدگیاں زیادہ گمبھیر ہوتی جا رہی ہیں۔ابھی حال ہی میں ضلع جنوبی وزیرستان میں مختلف واقعات میں چار افراد قتل ہوئے‘ اگرچہ یہ وارداتیں ذاتی دشمنیوں کا شاخسانہ تھیں لیکن مقتولین کے ورثا نے قاتلوں کے خلاف تھانوں میں مقدمات درج کرانے سے انکار کر دیا۔ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او نے متاثرہ خاندانوں کو قانونی مدد لینے کی بہت ترغیب دلائی ‘لیکن اپنی روایات کے اسیر قبائلیوں نے پیچیدہ اور صبر آزما قانونی عمل کا سہارا لینے سے انکار کر دیا۔شاید انہیں فوجداری نظامِ عدل سے فوری انصاف کی توقع نہیں تھی‘ جس کی ہمدردیاں ہمیشہ ملزم کے ساتھ رہتی ہیں‘ لہٰذا ریاستی اداروں نے نہایت بے بسی کے ساتھ قتل کے ان واقعات سے صرفِ نظرکر لیا۔
کیا قبائلی علاقوں تک قانون کی حکمرانی اور عدالتی دائرۂ اختیار کو وسعت دینے کا مطلب یہی تھا کہ لوگ ایک دوسرے کو مارتے پھریں اور سرکار تماشا دیکھتی رہے؟کیا سرکاری مقتدرہ میں اتنی سوجھ بوجھ نہیں کہ وہ خود مدعی بن کر قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لاتی۔بلاشبہ کسی آئینی ریاست میں ایک شہری کا قتل دراصل ریاست کے خلاف جرم تصور ہوتا ہے‘اس لیے معاشرے میں رونما ہونے والے جرائم کے خلاف اصلاً مدعی خود ریاست بنتی ہے۔ ناتواں شہری خود چارہ جوئی کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں نہ ان میں جارحیت پسندوں کے خلاف قانونی طریقوں سے مزاحمت کی ہمت ہوتی ہے۔دنیا کی ہر مملکت اپنے شہریوں کے جان و مال کوگزند پہنچانے والوں کے خلاف ازخود قانونی کارروائی کا حق استعمال کرتی ہے۔انگریزوں نے قبائلی علاقوں میں جب ایف سی آر جیسا کالا قانون نافذ کیا تو یہاں ٹی ٹی ایریا(Tribal Territory) اور پی ٹی ایریا (Protected Territory) یعنی علاقہ قبائل اور علاقہ سرکارمیں تفریق قائم رکھی۔ٹی ٹی ایریا میں ہونے والے کسی بھی کرائم کا محاسبہ مقامی روایات کے مطابق قبائلی خود کرتے تھے‘ لیکن علاقہِ سرکار‘جس میں شاہرائیں اور سرکاری دفاتر شامل تھے‘میں ہونے والے قتل‘ ڈکیتی اورچوری سمیت ہر جرم کو ریاست کے خلاف بغاوت سمجھ کر پوری قوت سے کارروائی کی جاتی تھی۔اب جب ہم نے ساتوں قبائلی ایجنسیوں کو علاقہِ سرکار بنا لیا ہے تو یہاں ہونے والا ہر جرم دراصل ریاست کے خلاف کرائم تصور ہوگا؛چنانچہ ریاست کی اولین ذمہ داری یہی ہے کہ وہ ہر جرم کے خلاف پوری قوت سے اپنا ردِعمل ظاہر کرے۔اگر گورنمنٹ انسانی قتل جیسے بہیمانہ جرائم سے چشم پوشی کرے گی تو شہری ریاست کی اتھارٹی کوتسلیم کیوںکریں گے؟واضح رہے کہ انگریزوں نے برصغیر کے جن بندوبستی علاقوں میں فوجداری نظامِ عدل نافذ کیا‘ڈیڑھ صدی تک وہاں قتل سمیت ہر جرم کے خلاف اصلاً مدعی خود سرکار بنتی تھی‘ لیکن1981ء میں جنرل ضیاء الحق نے قصاص و دیت کا قانون نافذ کر کے ریاست کو شہری کے قتل سے لاتعلق بنا دیا ‘تاہم جوڈیشل ریکارڈ میں اب بھی سرکار ہی فریق مقدمہ ہوتی ہے۔آج بھی قتل کے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں میں‘سرکار بنام زید‘بکر وغیرہ کی پکار لگائی جاتی ہے۔مجھے یقین ہے کہ قبائلیوں کی یہ مصبت زدہ نسل اب آزادی کی مشتاق نہیں بلکہ وہ نظم وضبط اورامن کی خواہشمند ہے‘اس لیے ریاست اگر خود مدعی بنتی توعوام ضرور ساتھ دیتے۔جس دن سماج دشمن عناصر کے ہاتھوں زخم خوردہ لوگ پولیس کے ساتھ کھڑے ہوئے‘اسی روز معاشرہ عملاً ریاست کے حقِ حکمرانی کوقبول کر لے گا‘ بصورت دیگر لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لینے پہ خود مجبور ہوئے یا انہیں جان و مال اور عزت کے تحفظ کا بوجھ خود اٹھا پڑا تو پھر اصولاً حکومت کی رٹ عملاً ختم ہوگی۔
واضح رہے کہ وہ اجتماعی محرکات جن پہ قانونی نظام قائم ہے‘وہ ان انفرادی جبلتوں کے مقابل کہیں زیادہ کمزور ہیں‘جو حصولِ دولت کی پیکار‘جذبۂ انتقام اور بقا کے جذبات سے مزین ہیں‘علیٰ ہذالقیاس‘یہی دُہری عملداری (Diarchy)کا اصول تو ایف سی آر میں پنہاں تھا‘جس میں تمام اختیارات پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس تھے‘ لیکن معاشرے کو ریگولیٹ کرنے اور مسائل کو سلجھانے کی ذمہ داری قبائلی عوام پہ ڈال دی جاتی تھی۔اسی دُہری حاکمیت سے نجات پانے کے لیے تو قبائلی نوجوانوں نے آئین اور قانون کی حکمرانی کا خواب دیکھا تھا‘ لیکن انضمام کے باوجود انہیں خواب کی تعبیر نہ ملی تو انجام کیا ہو گا؟ سکیورٹی خدشات کے باعث قبائلی اضلاع کے لیے بنائی گئی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی عدالتیں فی الحال پشاور‘کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں۔ انہیں فوجداری یا دیوانی مقدمات وصول نہیں ہوئے۔جب تک بندوبستِ اراضی کے ذریعے ریونیو سسٹم استوار نہیں ہوتا اس وقت تک دیوانی مقدمات کا سلسلہ مفقود رہے گا اور جب تک پولیس دہشت گردی‘چوری‘ڈکیتی‘رہزنی اور قتل جیسے سنگین جرائم کے مقدمات عدالتوں کو نہیں بھجوائے گی ‘فوجداری نظام عدل فعال نہیں ہو سکے گا۔ابھی حال ہی میں جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر نے سابقہ پولیٹیکل انتظامیہ کے دور میں قبائلی عمائدین کے قتل اور سکیو رٹی فورسز پہ حملوں میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف درج مقدمات کا ریکارڈ انسداد ِدہشت گردی کی عدالت کومنتقل کیا تو فاضل جج نے مقدمات کی فائلوں کے ساتھ ملزمان کو بھی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا‘ لیکن بوجوہ پولیس اور انتظامیہ متذکرہ مقدمات کے ملزمان کو عدالت کے روبرو پیش کرنے میں ناکام رہی‘ جس پہ انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج نے کمشنر اور ڈی آئی جی ڈیرہ اسماعیل خان کی پہلے تنخواہیں بند کیں اور اب ان کے شناختی کارڈ بلاک کرکے انتظامی اتھارٹی کو دیوار سے لگا دیا۔قصہ کوتاہ‘قبائلی اضلاع میں جب تک چیک پوسٹوں کا نظام اور لاء اینڈ آرڈر کی حتمی ذمہ داری پولیس کے سپرد نہیں ہوتی اس وقت تک پولیس اور عوام باہم منسلک نہیں ہو پائیں گے۔
پولیس کوئی دفاعی ادارہ نہیں بلکہ ایسی کرائم فائٹنگ فورس ہے جس کے سامنے دشمن نہیں ایک زندہ سماج ہوتا ہے ‘جسے اس نے فتح نہیں بلکہ سماجی برائیوں سے بچانے کے لیے ریگولیٹ کرنا ہوتا ہے اور اسی میں پولیس اور سماج ‘دونوں کی بقا مضمر ہوتی ہے۔ بلاشبہ پولیس فورس اپنی ساخت کے اعتبار سے معاشرے کا آخری دفاعی حصار اور سماج کی قوتِ مدافعت کو قائم رکھنے کا فطری وسیلہ ہے۔اگر ضم شدہ اضلاع میں سکیو رٹی چیک پوسٹوں کا نظام پولیس کو سونپ دیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ قبائلی عوام بہت جلد پولیس سے مانوس ہو جائیں گے۔مزید یہ کہ قبائلی اضلاع کو بالعموم اوردہشت گردی کے ہاتھوں پامال ڈیرہ اسماعیل خان جیسے ضلع کو بالخصوص ہارڈ ایریا قرار دے کر پی ایس پی افسران کی پوسٹنگ یہاں لازمی قرار دی جائے تو معاملات جلد سُدھر سکتے ہیں۔