لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد دنیا کے نظام ہائے زندگی کی صورت بدل جائے گی؟اکیسویں صدی کے معاشی علوم بیکار ہو چکے ہیں؟ کیا سرمایہ دارنہ نظام اپنی طبی موت مر رہا ہے؟ان سوالات کے مفصل جوابات تو ہمیں لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد ملیں گے ‘لیکن اتنا تو دکھائی دے رہا ہے کہ یورپ کی مستحکم معیشتیں اب سکڑ رہی ہیں‘جس کے نتیجے میں مغربی تہذیب کی چکا چوند ماند اور ریاستوں کی ساخت بدل جائے گی۔
معاشی کساد بازاری کی وجہ سے‘ اگر ہائی ٹیک جیسی انتہائی قیمتی وارمشینری متروک اور مہنگے ترین فوجی ڈھانچے‘تحلیل ہوگئے ‘تو قوموں کے مابین دوستی و دشمنی کی اقدار اور جنگ و امن کی سائنس بھی تبدیل ہو جائے گی۔اس میں اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ اس کورونا لاک ڈاؤن کے بعد ابھرنے والے عہد نو میں دنیا کا معاشی نظام مختلف شکل اختیار کرلے گا اورمصنوعی طریقوں سے پھیلی ہوئی معیشتیں اپنی حقیقی اساس کی طرف سمٹ آئیں گی۔سودی قرضوں کے اجرا اور غریب مملکتوں کو مالی امداد فراہم کرنے کی روایت ختم ہوئی تو دنیا کی کمزور مملکتوں کو مالی معاونت کے سہارا وینٹی لیٹر پہ زندہ رکھنے کا رواج بھی ختم ہو جائے گا۔
یو این کے اداروں کو سب سے زیادہ مالی معاونت دینے والے ملک امریکہ ‘نے ڈبلیو ایچ او کی کورونا وائرس بارے قبل از وقت اقدامات میں ناکامی کو جواز بنا کے مالی امداد روک کے اسی سمت چلنے کا اشارہ دے دیا ہے۔اقوام متحدہ کے تحت عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے غریب ممالک کو مختلف شعبوں میں ملنے والی مالی معاونت کا سسٹم سکڑ گیا تو اس مالیاتی نظام کو مینیج کرنے والابینکنگ سسٹم بھی کوئی دوسری صورت اختیار کر لے گا۔گویا ‘اب ہر قوم کو اپنی ذہنی استعداد‘افرادی قوت اور دستیاب وسائل کے اندر جینے کا ہنر سیکھنا پڑے گا۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ نئے عالمی نظام کے تحت اجتماعی حیات کے تین شعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں؛پہلا یہ کہ جنگ عظیم دُوم کے بعد دنیا کو کنٹرول کرنے کیلئے جس عالمی مالیاتی نظام کو مرتب کیا گیا تھا ‘ وہ اب اپنی طبی عمر پوری کر کے متروک ہونے جا رہا ہے‘جس کا قدرتی اختتام دنیا بھر کی اقوام کو اپنی معیشت کیلئے کسی نئی مالیاتی اساس تلاش کرنے پر مجبور کر دے گا‘اسی تگ و دو کے دوران سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ پوری دنیا کی معیشتیں جزیات تک متاثر ہوں گی۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق‘ جرمنی کے محکمہ وفاقی شماریات نے کہا ہے کہ مشرقی اور مغربی جرمنی کی دوبارہ اتحاد اور دس سال قبل کے مالیاتی بحران کے بعد لاک ڈاؤن کی وجہ سے جرمنی کی معیشت شدیدترین مشکلات کا شکار ہوئی‘خاص کر سیاحت اور ہوٹل انڈسٹری کے شعبہ جات بُری طرح متاثر ہوئے ‘جس سے مملکت کی پوری اقتصادیات کساد بازاری کے دہانے پہ آ کھڑی ہوئی۔جرمنی کی طرح دیگر یورپی ممالک بھی معاشی بحران کی لپیٹ میں ہیں۔عالمی مالیاتی اداروں کی مالی معاونت اور قرضوں سے چلنے والی چھوٹی معیشتوں کو اپنی اصلی اقتصادی بنیادوں پہ کھڑا ہونے کیلئے ہر صورت خود انحصاری کی راہ اپنانا پڑے گی‘ تاہم اسی اثناء میں تغیرات ِزمانہ کی مہیب لہریں کئی کمزور مملکتوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا بھی سکتی ہیں‘جس ملک کے جو حقیقی وسائل ہیں‘ انہی کے مطابق نظام ِحکومت‘انتظامی ڈھانچہ کی ترتیب اور دفاعی نظام تشکیل دینا ہوں گے۔امریکہ اور سعودی عرب سمیت دنیا کی بڑی معیشتیں اب‘ کسی غریب مملکت کی دفاعی ضروریات کا بوجھ اٹھانے کی روادار نہیں ہوں گی۔اس کایا کلپ سے قبل ہی امریکہ اور یورپ کے علاوہ مشرق کی مملکتوں میں بھی مہنگے ریاستی نظام کو ترک کرکے سافٹ وئیر پہ مبنی سستا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جا رہا ہے۔
عالمی تجارت اپنے علاقائی دائروں میں سمٹ آئے گا۔دور دراز کے ممالک کی بجائے سب کو اپنے پڑوسی ملکوں سے تجارتی رشتے استوار کرنا ہوں گے‘جس سے ہر ملک کی تزویری حکمت ِعملی بھی از خود بدل جائے گی۔اس وقت چین کے سوا تین پڑوسی ممالک سے ہمارے اقتصادی تعلقات نہ ہونے کے برابرہیں ‘لیکن اب‘ علاقائی تنازعات کی بساط لپیٹ کے ہمیں بھارت‘ایران‘افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے نئے سرے سے تجارتی تعلقات بحال کرنا ہوں گے۔پہلے ہم مالی امداد دینے والے یورپی و امریکی ملکوں سے ٹیکنالوجی اور بعض اشیاء ضروریہ منگوانے کے پابند تھے‘ لیکن اب حالات کا جبر ہمیں پڑوسی ملکوں سے لین دین پہ مجبور کرے گا۔
دوسرا جدید دفاعی سسٹم اور مہنگا ترین ہائی ٹیک نظام ہائے جنگ کی جگہ جزیاتی سطح پر ہدف کو نشانہ بنانے والا Close Combat Weapons پہ مبنی کم خرچ دفاعی سسٹم رواج پائے گا‘جس سے ایک بار پھر کم و بیش روایتی جنگوں سے ملتا جلتا دور پلٹ آئے گا۔اس وقت کہنے کو تو دنیا کی تمام مملکتوں کی جنگی تیاریاں دفاعی ضروریات کے دائرہ میں آتی ہیں ‘مگر اصلاً اسی کے اندر جارحیت پسندانہ عزائم چھپے ہوتے ہیں‘ تاہم مستقبل میں افغانستان‘ عراق‘شام اور مڈل ایسٹ کی جنگوں کی مانند ملکوں کے مابین لڑائیوں میں بی باون اور ایف 16 یا قیمتی لیزر گائیڈڈ میزائل کا استعمال محدود ہو جائے گا۔جدید ترین مہنگی جنگی سامان کے استعمال سے عراق اور افغانستان کو اگرچہ فتح کرلیا گیا‘ لیکن وہاں جنگ کی آگ بجھائی نہ جا سکی۔آخر کار امریکی فورسز کو وہاں جزیات میں جا کے مزاحمت کاروں کیخلاف دوبدو جنگ لڑنا پڑی؛چونکہ اب ‘کوئی ملک دوسرے ملک کو فتح کر کے مستقل قبضہ میں رکھنے کا متحمل نہیں رہا ‘اس لئے مہنگے ترین دفاعی ڈھانچہ کی تشکیل اور انتہائی قیمتی جنگی مشین پہ کھربوں ڈالر خرچ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔شدیدترین معاشی بحرانوں کی وجہ سے اب شاید قیمتی اسلحہ کی خرید و فروخت کی تجارت ویسے بھی محدود ہوجائے گی۔
ماضی گواہ ہے کہ ہمیشہ ہر علاقائی تنازع اور ہر مزاحمتی جنگ کے پیچھے استعماری طاقتوں کاسرمایہ کارفرما رہا۔اب‘ چونکہ دنیا کی طاقتور معیشتیں اپنی اتحادی مملکتوں کو جنگی ضروریات کیلئے سرمایہ فراہم کرنے کے قابل نہیں رہیں توجنگی جنون کو بھی کچھ سکون مل جائے گا‘جس سے تیسری دنیا کی پاور پالیٹکس کی حرکیات اور دفاعی نظام کی ہیت بدل جائے گی۔ ایک بار پھر دنیا ایسی کنونشنل وار کی طرف بڑھ جائے گی ‘جس میں کم خرچہ پہ پروان چڑھنے والی رضاکار تنظیموں کی آب یاری اہم ہو گی‘جسے کسی بھی عالمی طاقت کیلئے مہیب جنگی مشین کے ذریعے مسخرکرنا آسان نہیں ہوتا‘ بلکہ مغربی طاقتوں کو بھی اپنے فوجی جوانوں میں دوبدو لڑنے کی مہارت پیدا کرنا پڑے گی‘ تاکہ گوریلا وار لڑنے والے ان عسکری گروپوں کا مقابلہ کر سکیں‘یعنی ایک بار پھر ہمیں ماہر جنگجوؤں اور بہادرسورماؤں کی ضرورت پڑے گی۔اس قسم کی جنگوں میں ملکوں کی افرادی قوت بہت اہم کردار ادا کرے گی‘ لہٰذازیادہ آبادی والے ممالک طاقت کی علامت بن سکتے ہیں۔
تیسرے‘جس طرح اقتصادیات کے تقاضے دفاعی پالیسیوں پہ اثر انداز ہو کے انہیں نئی صورت فراہم کرنے کا سبب بنیں گے ‘اسی طرح نئی دفاعی پالیسیاں بھی پاور پالیٹکس کے تقاضوں میں حیران کن تبدیلیوں کا سبب بن سکتی ہیں‘ نیزنئے عہد میں جمہوریت‘ ہماری سماجی و سیاسی آزادیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ناکافی ثابت ہو گی۔