ہرچند کہ عالمگیر موذی وباکوروناوائرس کے تدارک کی خاطر دنیا بھر میں نافذ لاک ڈاؤن کی سختیوں میں بتدریج نرمی کی جا رہی ہے‘ لیکن یورپ سمیت پوری دنیا کی مملکتیں اپنی معیشت‘ثقافت اور سیاسی کلچر میں بنیادی نوعیت کی چند تبدیلیوں کا اہتمام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔امریکا اور یورپ کے علاوہ گلف کی ریاستوں میں بھی نظام زندگی کی نئے خطوط پہ استواری کا عمل روز افزوں ہے۔ سعودی عرب نے مکہ مکرمہ کے سوا‘یکم جون سے پورے ملک سے کرفیو اٹھا کے کاروباری سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔الجزیرہ ٹی وی کے مطابق ‘21 جون سے مکہ مکرمہ سے بھی کرفیو اٹھا لیا جائے گا ‘تاہم امسال حج اور عمرہ کے روایتی انعقاد کا امکان معدوم رہے گا؛اگرچہ عمیق لاک ڈاؤن اور تیل کے بحران کی وجہ سے گلف کی معیشت دُہرے بحران میں گھری ہوئی ہے ‘ لیکن اسی لاک ڈاؤن کی بدولت عرب حکمرانوں نے مسلح مزاحمتوں‘داخلی تنازعات اور بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کو کافی حد تک کنٹرول کرکے اقتدار پہ اپنی گرفت مضبوط بنا لی ہے۔
ادھریکم جون سے برطانیہ سمیت پورے یورپ میں شہریوں کی نقل و حمل پہ عائد پابندیاں ختم اور پرائمری درجہ کے سکول کھل جائیں گے‘ لیکن وہاں بھی صرف زندگی کے بہتے دھارے پہ عائد پابندیاں ہی ختم نہیں ہوں گی‘ بلکہ معاشی نظام اورسیاسی تصورات بھی بدل جائیں گے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ؛یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل نے کہا کہ ''تاریخ میں کووڈ19 وبا کو فیصلہ کن موڑ کے طور پر دیکھا جائے گا‘جب دہائیوں بعد امریکا دنیا کی رہنمائی کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ماہرین جس 'ایشیائی صدی‘ کی آمد کی پیشگوئی کرتے تھے ‘ اس کا شاید کورونا کی وبا کے دوران ظہور ہوچکا۔اب‘ یورپی ممالک کو اپنے مفادات کے پیش نظر چین کی نسبت کوئی ٹھوس پالیسی بنانا پڑے گی۔گزشتہ پیر کے دن جرمن سفارت کاروں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ‘انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اپنے مفادات اور قدروں کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ تزویراتی کلچر کو پروان چڑھائے ‘چین کا عروج متاثر کن ہے‘ لیکن چین اور یورپ کے موجودہ تعلقات باہمی اعتماد اور شفافیت پر استوار نہیں ہیں‘‘۔
یورپی قیادت کی طرح امریکی دانشور بھی اس عالمی بحران کے دوران چین کی سیاسی حکمت عملی کی ستائش اور امریکی مقتدرہ کی کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے دراصل لبرل ازم اور جمہوری آزادیوں سے نجات کی راہیں تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت دے گا کہ عالمی وبا کے دوران امریکی مقتدرہ وہ کردار کیوں ادا نہیں کر سکی‘ جس کی توقع تھی؟اگرچہ امریکی فضائیہ کی موبال میڈیکل فسیلیٹی کو اٹلی روانہ کرنے میں تاخیر کا فیصلہ بھی محل ِنظر ہے ‘لیکن اسے بھی محض اتفاق نہیں کہہ سکتے کہ رواں ماہ کے اوائل میں جس آن ٹرمپ انتظامیہ اٹلی سمیت یورپ سے آنے والوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کرنے کا اعلان کر رہی تھی؛عین اسی وقت چین اپنا طبی عملہ‘ آلات اور امدادی سامان اٹلی کی طرف روانہ کر رہا تھا‘اسے ہم چین کیلئے دانستہ میدان خالی کرنے کی حکمت ِعملی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
امریکی صدرکے ناقدین کا خیال ہے کہ ابتداء میں ٹرمپ انتظامیہ خطرے کی سنگینی کا اعتراف کرنے میں ناکام رہی‘ بلکہ اس بحران کو امریکی نظام کی فرضی برتری ثابت کرنے کے موقع کے طور پر دیکھتی رہی۔جیسا کہ ایشیائی امور کے دو ماہرین کرٹ ایم کیمبل اور رش دوشی نے حال ہی میں امریکی جریدے ''فارن افیئر‘‘ میں اپنے مشترکہ مضمون میں لکھا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں امریکا کی عالمی رہنما ہونے کی حیثیت کا انحصار محض دولت اور فوجی برتری پر منحصر نہیں تھا‘ بلکہ یہ حیثیت امریکی حکومت کو داخلی طور پر بہتر طرزِ حکمرانی کی وجہ سے حاصل قانونی جواز‘انسانیت کی فلاح کے کاموں اور کسی بھی عالمی بحران کی صورت میں فوری اور مربوط رد عمل دینے کے صلاحیت پہ محمول تھی۔کورونا وائرس کی وبا امریکا کی عالمی برتری کے انہی تینوں عناصر کی آزمائش ثابت ہوئی۔حیران کن طور پہ ایک طرف امریکی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو دوسری طرف چین نہایت سرگرمی کے ساتھ اُس خلا کو پُر کرنے میں مصروف رہا ‘جو وبائی بحران میں امریکا کی شعوری پسپائی سے پیدا ہوا۔کیمبل اور دوشی نے اپنے مضمون میں صورت ِ حال کا موازنہ برطانیہ کے زوال سے کرتے ہوئے لکھا کہ 1956 ء میں نہر سوئز کے ناکام آپریشن نے برطانوی حکومت کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا‘ تو اس کا عالمی طاقت ہونے کا طویل دور ختم ہوا۔انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس وقت امریکا کورونا وبا کے امتحان پر پورا نہیں اترتا تو اس کے لیے بھی نتیجہ وہی نکلے گا ‘جو نہر سوئز کے ناکام آپریشن کے بعد برطانیہ کے لیے نکلا تھا۔
مغربی مبصرین کی نظر میں چین زیادہ قوم پرستی اور جماعتی آمریت کے ذریعے اپنی قوت کو مرتکز کر لے گا‘انہیں ڈر ہے کہ مغرب کیلئے وبا کے عالمی اثرات اور اس کے بعد معاشی سست روی کے نتائج زیادہ سنگین ہوں گے‘ جو امریکا کی عالمی حیثیت پر مزید تباہ کن اثرت مرتب کر سکتے ہیں۔استبدادی نظام حکومت کے حامل چین کی عالمی برتری کے مبینہ خطرہ کو حقیقت کا روپ دینے اور مغرب کی سیماب صفت رائے عامہ پہ اثر ڈالنے کی خاطر امریکا اور چین کے مابین جنگ کے امکانات کو بھی زیر بحث لائے جا رہا ہے۔ 2017ء میں شائع ہونے والی پروفیسر گراہم ایلیس کی کتاب ''Destined for war? China, America and the Thucydides trap‘‘ جس نے چند ہفتوں میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی تصنیف کا مقام حاصل کر لیا ہے۔دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد ایک بار پھر ہارورڈ یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے پروفیسرگراہم ایلیسن کی اُسی کتاب کی چرچا کر کے تمام پالیسی سازوں‘ماہرین تعلیم اور صحافیوں کو اس کے مطالعہ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کووڈ 19 کو 'چینی وائرس‘ کہہ کر پکارا‘ تو امریکی جریدے''سپیکٹیٹر‘‘نے لکھا کہ کورونا کے ہاتھوں پہلی ہلاکت اُس امریکی سوچ کی ہوئی‘جو چین کے عالمی طاقت بننے کی حقیقت کو 'باہمی مفادات‘کے ذریعے قابو کرنے پہ محمول تھی۔جریدے نے پروفیسر گراہم ایلیسن کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ''صدر ٹرمپ کا یہ بیان 'توسیڈائڈز ٹریپ‘ یعنی ایک ابھرتی عالمی طاقت (چین) اور ایک موجود عالمی طاقت (امریکا) کے درمیان نہ ٹلنے والی جنگ کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔جب 26 دسمبر 1991 ء کو سوویت یونین بکھری اور دنیا کے نقشہ پر امریکا واحد سپرپاور بن کر ابھرا تو یہاں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی کہ اب دنیا میں اس کے سامنے کوئی نظریاتی حریف باقی نہیں بچا۔امریکی فلسفی فرانسیس فوکویاما کا ''اینڈ آف ہسٹری‘ ‘ (تاریخ کا اختتام) کے عنوان سے مضمون شائع ہوا‘ جس کا لب ِ لباب یہ تھا کہ سوویت یونین کے اختتام سے آزاد خیالی کا نظریاتی متبادل ختم ہوگیا۔انسان نے نمائندہ حکومتیں‘ آزاد منڈی اور صارفین پہ مشتمل کنزیومر سوسائٹی جیسے تہذیبی اہداف حاصل کر لئے‘لیکن صرف تیس سال کے اندر نمائندہ حکومتوں اور آزاد منڈیوں پہ مشتمل مغرب کا سرمایہ دارانہ کلچر بیکار اور یک جماعتی آمریت کا استبدادی نظام مثالیت کا مقام حاصل کرنے لگا۔شاید مغرب کی جمہوری ریاستیں استبدادی نظام کو اپنانے کی خواہش کے پیش ِنظر چین کی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کے پیش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
اس عالمی وبا کے دوران دانستہ طور پر یہ نظریاتی بحث چھیڑی گئی کہ امریکا جو لبرل ڈیموکریسی کا داعی تھا۔ عالمی وبا کے دوران دنیا کو موثر قیادت فراہم نہیں کر سکا‘اس کے برعکس چین کو یک جماعتی آمریت نے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ بڑے علاقہ میں بلاجھجک لاک ڈاؤن کر کے وائرس پر جلد قابو پالے۔پروفیسر گراہم ایلیسن نے کہا ہے کہ یک جماعتی آمرانہ نظام نے انتہائی قابلیت کے ساتھ اپنے شہریوں کے جینے کے بنیادی حق کا تحفظ کر لیا‘ جبکہ جمہوری مملکتیں تذبذب اور سست روئی کا شکار رہیں۔مبینہ کورونا وائرس وبا کے دوران لبرل ازم اور جمہوری اصولوں کی پابند امریکی اتھارٹی کی مجبوریوں کو نمایاں کرنے کی بحث) (Rhetoricدراصل جمہوریت اور مارکیٹ اکانومی کی ناکامی کا بلواسطہ اعتراف اور استبدادی طرز حکومت کے تحت نیشنل اکانومی کی طرف بڑھنے کی شعوری کوشش دکھائی دیتی ہے؛بلاشبہ استبدادی طرزِ حکمرانی کے بغیر شخصی‘نظری اور مذہبی آزادیوں کی تحدید اور عالمی تہذیب کا احیا ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔اس لئے ایک مخصوص نفسیاتی ماحول میں چین کی تعریف کر کے پوری دنیا انسانیت کو استبداد کے فوائد گنوائے جا رہے ہیں‘ مگر نہایت چالاکی کے ساتھ اس بحث میں اصل ہدف ‘یعنی اسلام کو زیر بحث نہیں لایا گیا ہے۔