قومی سیاست میں برپا کشمکش نہایت خاموشی کے ساتھ کورونا وائرس وبا کی لہر میں ڈوب گئی‘اسی وبائی خوف نے سیاست کے فطری نشیب و فراز کو کند کر کے ایک قسم کے استبدادی نظام حکومت کی راہ ہموار بنا دی۔اب ‘لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد ہماری سیاسی اور سماجی دنیا ویسی نہیں ہو گی‘ جیسے پہلے تھی۔کورونا وائرس کی حقیقت اور وبا کے طبی اثرات سے قطع نظر ریاستی مقتدرہ نے خوف کی اس لہر کو انتہائی ہوشیاری کے ساتھ استعمال کر کے متنوع سماجی وظائف اورجمہوری آزادیوں کو کافی حد تک محدود کر لیا۔اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ہماری مقتدرہ نے قومی سفر کے ان ستّر برسوں میں دفاعی امور کے ساتھ پاور پالیٹکس کی سائنس کو برتنے کی مہارت بھی حاصل کر لی ہے۔
قرائن بتا رہے ہیں کہ پولیٹکل فورسزسیاسی میدان میں بھی اب ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے؛بلاشبہ ماضی کی ریاستیں وسیع تر مقاصد اور انبوہ کثیر کو سنبھالنے کیلئے سیاسی تنظیموں کی لیڈر شپ سے جو کام لیتی رہیں‘کوئی سرکاری ادارہ اس کا متبادل نہیں بن سکتا تھا۔یہ سیاسی جماعتیں ہی ہیں ‘جو امیدوں کے بھوکے عوام کو سیاسی منشور اورخوبصورت نصب العین کا گرویدہ بناکے ریاستی مقاصد کیلئے بروکار لا سکتی ہیں۔عوام کو مینیج کرنے کیلئے اگر سیاسی جماعتوں کا ٹول ناگزیر نہ ہوتا تو ایوب خان‘ضیاالحق اور جنرل مشرف جیسے آمر مسلم لیگ جیسی مہمل جماعت کی بیساکھیوں کو استعمال کرنے پہ مجبور نہ ہوتے۔ ساٹھ اور ستّر کی دہائی کی اسٹیبلشمنٹ نے عوامی لیگ کی باغیانہ لہر کو روکنے کی خاطر بھٹو کی پیپلزپارٹی کو پروان چڑھنے کی سہولت فراہم کی تھی‘پھر بھٹو ازم کے سیاسی غلبہ سے نجا ت پانے کی خاطر نیشنل عوامی پارٹی اورتحریکِ استقلال جیسی متضاد نظریات کی حامل جماعتوں کا کندھا استعمال کیا۔لاریب! نفاذِ اسلام کی تحریک ‘ اگر فضاء نہ بناتی تو مقتدرہ کیلئے بھٹو کے سحر کو توڑنا ناممکن ہوتا۔غیر جماعتی انتخابات کرانے کے باوجود ضیاء الحق کی مقدس آمریت کوآخرکارمسلم لیگ جیسی متروک جماعت کو دوبارہ زندہ کرکے عوام کو انگیج کرنا پڑا‘بلکہ پیپلزپارٹی کے خوف نے جی ایم سید کی نفرت انگیز قوم پرستی اور الطاف حسین کی مہیب فسطائیت کو آمریت کیلئے گوارا بنا دیا‘لیکن جب خانہ ساز مسلم لیگ کے اندر سے اٹھنے والی قیادت نے ریاستی مقاصد کی اطاعت گزاری کی بجائے عوامی حقوق کی بازیابی کا لہجہ اپنایا تو اسے دھتکار کے رائے عامہ کومینیج کرنے کی خاطر ایک نئی جماعت کی آبیاری کرنا پڑی؛چنانچہ جس وقت پیپلزپارٹی اور نواز لیگ سمیت اجڑی ہوئی سیاسی جماعتیں آئین وقانون کی بالادستی اور عوام کے حق حاکمیت کی بحالی کی خاطر جمہوریت کے رومانوی میثاق پہ دستخط کرنے کی رسم ادا کر رہی تھیں‘ عین اس وقت ریاست کی نرسری میں ایسی نئی سیاسی جماعت پروان چڑھ چکی تھی‘جو پَل بڑھ کے اس وقت ریاست کے مقاصد کی نگہبانی میں مشغول ہے۔
ڈیگال نے کہا تھا ''سیاست میں وطن کو دھوکہ دینا پڑتا ہے یا پھر عوام کو‘‘۔ ہمارے سیاستدان وطن کو دھوکہ دینے کی سکت تو نہیں رکھتے ‘لیکن عوام کو دھوکہ دینے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔دُور مت جایئے‘ماضی قریب کی ملکی تاریخ پہ نظر ڈال لیجئے؛ہماری سیاسی جماعتوں نے دل آویز نصب العین کے علاوہ آزادی و مساوات کے مسحور کن نعروں کے ذریعے عوام کوسہانے خواب دکھائے‘ لیکن آخر کار شراکت اقتدار جیسی معمولی قیمت لیکر سمجھوتہ کرنے میں تاخیر نہ کی۔افسوس کے جن لوگوں کے گرد ہم نے مقبولیت کا ہالہ کھنچا ‘ان کی ممتاز ترین صفت بزدلی اور کم ہمتی تھی ۔ذوالفقار علی بھٹو نے جمہوریت‘مساوات اور سماجی انصاف کے نعروں کی گونج میں مقبولیت حاصل کی ‘لیکن انہی کے پورے عہد میں ایمرجنسی کے تحت بنیادی حقوق معطل رہے‘جمہوریت کی علامت ذوالفقارعلی بھٹو نے اپوزیشن کوساتھ لے کر چلنے کی بجائے یک جماعتی آمریت کی راہ چن لی؛حتیٰ کہ جب ان کے اقتدار کو خطرات لاحق ہوئے تو اپنے سیاسی نظریات ترک کرکے اسلامی نظام کے نفاذ سے بھی گریز نہ کیا۔ بعدازاں سیاسی مصلحتوں کے تحت ضیا الحق کی مارشل لاء کی حمایت کیلئے کئی مہمل جواز تراش لئے۔ایم کیو ایم جس نے سندھ میں کوٹہ سسٹم کے خاتمہ‘بہاریوں کی واپسی اورکراچی کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبات کے ذریعے پڑھے لکھے طبقات کی توجہ حاصل کی‘ سیاسی طاقت پانے کے بعد عوامی مطالبات کو پس پشت ڈال کے اعلانیہ ریاستی مقتدرہ کی آلہ کار بن گئی؛حتیٰ کہ اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کرنیوالی جماعتوں کے اتحاد‘ایم ایم اے کو جب خیبر پختونخوا کا اقتدار ملا تو علماء کرام نے اپنے منشور سے منہ موڑ کے لبرل آمریت کو کندھا دینے میں عافیت تلاش کی۔
آج بھی مذہبی و سیاسی جماعتیں عوام کی آواز بننے کی بجائے کورونا وبا کے دوران بائیس کروڑ انسانوں کو پابہ زنجیر بنانے کی مشق ستم کیش میں ریاست کی سہولت کار بنی ہوئی ہیں۔سندھ میں پیپلزپارٹی کی عوامی حکومت صرف مرضی کا چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس تعینات کرانے کے عوض کورونا وبا کے خوف کی آبیاری کے ذریعے نہایت بے رحمی کے ساتھ سندھ کے عوام کی مشکیں کسنے پہ کمر بستہ ہو گئی‘یہ پیپلزپارٹی ہی تھی‘ جس نے لاک ڈاؤن میں پہل کر کے ملک میں وہ مخصوص فضا پروان چڑھائی ‘جس سے جمہوری سیاست کا پورا بیانیہ بدل گیا۔دائیں اور بائیں بازو کے خوش گمان لکھاری اورمرکزی دھارے کا فعال میڈیا بنیادی حقوق کے تحفظ‘افغان وار کے انجام‘کشمیریوں کی مشکلات اورگورنمنٹ کی معاشی پالیسیوں کے مضمرات جیسے ایشوزکو نظراندازکر کے کورونا وائرس سے جڑی فضول جزیات کو زیر بحث لا کے رائے عامہ کے دھیان کو نادیدہ خوف کی طرف موڑنے میں جُت گئے۔ طے شدہ پلان کے مطابق‘ ایک طرف پیپلزپارٹی نے وبا کے خوف کا ناقوس بجا کے وفاقی حکومت کو ہدف تنقید بنایا تو دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے دھیمے لہجہ میں لاک ڈاؤن کی مخالفت کر کے مخالفین کیلئے بچھائے گئے‘ اس دام کو زیادہ پرکشش بنا دیا۔مخصوص حکمت ِعملی کے تحت پہلے لندن میں بیٹھی نواز لیگ کی قیادت کو خفیہ مذاکرات کے ذریعے انگیج کیا گیا‘پھر لاک ڈاؤن سمیت کئی پالیسی امور پہ حکومت اور مقتدرہ کے مابین اختلافات کی خبروں کے ساتھ ہی شہباز شریف کولندن سے واپس بلوا کے اپوزیشن کیلئے تبدیلیوں کا سراب پیدا کیا گیا‘لہٰذااپوزیشن کی کہنہ مشق قیادت بخوشی اس لاک ڈاؤن کی حمایت پہ کمربستہ ہو گئی ‘جسے بالآخر انہی کی مزاحمتی سیاست کا واٹر لو بننا تھا۔
ذرا غور کیجئے‘ اگر وفاقی حکومت لاک ڈاؤن کے نفاذ پہ اصرارکرتی تو اپوزیشن مخالفت پہ اتر آتی اور صرف یہی ایشو اس سیاسی کشیدگی کو مزید بڑھا دیتا جو حکومت کے سر پہ تلوار بن کے لٹک رہی تھی۔ مقتدرہ نے کمال مہارت سے اپوزیشن کو یہ یقین دلایا کہ لاک ڈاؤن حکومت کیخلاف شدیدترین عوامی ناراضی کا محرک بنے گا‘اس لئے حکومت کے مخالفین لاک ڈاؤن کو مزید سخت کرنے کے مطالبات دہراتے رہے‘لیکن اسی ملتبس ماحول میں ریاستی مقتدرہ نے بغیر کسی رکاوٹ کے لاک ڈاؤن کے نفاذ اور ایس او پی پہ عمل درآمد کی آڑ میں ملک بھر میں نا صرف حکومت مخالف سیاسی سرگرمیوں کا سرکچل دیا‘ بلکہ ایک فعال مذہبی نظام پہ بھی اپنی گرفت مضبوط کرکے ایک مفید استبدادی طرزِ حکمرانی کی بنیاد رکھی دی۔