قومی سیاست پہ جس گہرے جمود نے پنجے گاڑ رکھے ہیں‘ بظاہر اس سے جلد نجات کی کوئی امید نظر نہیں آتی‘ کیونکہ جس طرح اقتدار کے سنگھاسن پہ بیٹھے لوگ مایوسی کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں‘اسی طرح اپوزیشن بھی کنفیوژن کی تاریکیوں سے باہر نکلنے کی روادار نہیں ہو سکی۔ماضی میں گورنمنٹ اور اپوزیشن کے مابین جس دلچسپ کشمکش کے گداز مناظر دیکھنے کو ملتے تھے ‘اب وہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں ۔گویا ہماری قومی سیاست کا ارتقاء تھم ساگیا ہے۔کوہلو کے بیل کی مانند اب ہر جماعت محض پہلے سے متعین کردہ وظائف پورے کرنے میں مشغول نظر آتی ہے۔
فکر و خیال اور سیاسی نظریات کی وہ فطری بوقلمونی کہیں دکھائی نہیں دیتی‘ جس کے دلکش تضادات سیاست کے افسانہ میں رنگ بھرنے کے لیے اہم کردار کرتے تھے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی میکانکی نظام کے ذریعے حکمراں اشرافیہ‘اپوزیشن جماعتوں اور قوم پرست پارٹیوں کی لیڈرشپ کی سوچ اور طرزِعمل کو کوئی ایک ہی قوت کنٹرول کر رہی ہے؛بلاشبہ قربانی کے جذبہ سے عاری اس تن آسان سیاسی قیادت سے ہمیں یہی توقع تھی کہ وہ سیاسی جدلیات کی سرگرانی میں سرکھپانے کی بجائے کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے نظام کوبرسر وچشم قبول کرنے میں ہی عافیت تلاش کر لے گی۔اب ‘تو شاید سویلین بالادستی کا وہ رومانوی تصور اور ووٹ کو عزت دو جیسے پُرکشش نعرے فرضی حقائق کا خوبصورت جال نظر آتے ہیں‘جو کبھی لوگوں کی روح کے اندرجذبات موجزن کر دیا کرتے تھے۔خاص کرکورونا وائرس وبا کے دوران لاک ڈاون کے فیصلہ کی پیپلزپارٹی‘نواز لیگ اور جے یو آئی(ف)سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے جس خشوع وخضوع کے ساتھ حمایت کر کے طاقت کے مراکز کو اپنی اطلاعات گزاری کا یقین دلایا‘بالکل اُسی طرح حکومت نے بھی اُسے نیم دلی کے ساتھ نافذکر کے اس تاثر کو اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ حکومت کا اپنا نہیں‘ بلکہ کسی اور کا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے یہ کہنے میں بھی باک محسوس نہیں کی کہ ''اشرافیہ نے ملک گیر لاک ڈاؤن کے ذریعے غریبوں کی دکھوں سے لبریز زندگی کی تلخیاں بڑھا دیں‘‘۔اس سے قبل آرمی ایکٹ میں ترمیم کے وقت ہم سب نے حکومت اور اپوزیشن کو ہم آواز دیکھا ‘لیکن جس طرح مالی سال 2020-21ء کے بجٹ کی منظوری کے دوران حکومتی اور اپوزیشن بنچوں میں بالواسطہ اتفاق رائے نظر آیا‘ اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔بجٹ سشن میں اپوزیشن کی لیڈر شپ نے مالیاتی امور اور معاشی مسائل کے سوا‘ ہرمہمل موضوع پہ لب کشائی کی۔عوامی نمائندوں نے روپے کی قدر میں کمی‘ تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کی وجوہات‘ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تیل کی قیمتوں میں یکدم اتنے بڑے اضافہ کو زیر بحث لانے کی بجائے اِدھر اُدھر کی ہانک کے میڈیا کو انگیج رکھا‘تاہم اسی بجٹ اجلاس کے شرکاء کی تفریح ِ طبع کے لیے وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پور اور مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادہ مفتی اسد محمود کے درمیان اتفاقاً بھڑک اٹھنے والی دلچسپ نوک جھونک کے مظاہر زیادہ حقیقی نظر آتے تھے۔
علیٰ ہذالقیاس‘خود وزیراعظم عمران خان نے بھی معاشی مسائل اورمالیاتی امور پہ بات کرنے کی بجائے بجٹ اجلاس میں 2 مئی 2011 ء کو امریکی میرین کی پاکستان کی حدود میں داخل ہو کے اسامہ بن لادن کومارنے کی جسارت پہ برہمی کا اظہار اور اس جارحیت کو ناقابل فراموش قومی المیہ قرار دیکر عالمی سیاست کی حرکیات میں الجھنے کی شعوری کوشش کرڈالی۔بظاہر یہ پیش دستی کسی وسیع سکیم کا جُز ہو سکتی ہے؛چونکہ ہم فارن ڈپلومیسی کی پیچیدگیوں اور جنگی چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘اس لیے ان معاملات کی گہرائی کو ماپنے کی کوشش نہیں کریں گے‘ لیکن عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو ان کی طرف سے مخصوص مذہبی طبقہ کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر عسکری گروہوں کی تعریف کرنے کا رویہ سمجھ میں آتا تھا‘تاہم اب سوال یہ ہے کہ خان صاحب نے وزیراعظم کی حیثیت سے اسامہ بن لادن کو شہید کہہ کے قومی بیانیہ کے رخ زیبا پہ پڑے اُس نقاب ابہام کو سُرکانے کی کوشش کیوں کی جو ہماری تزویری حکمت عملی کا مرکز ثقل تھا۔
کیا وزیر اعظم عمران خان‘ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے فیصلہ کی وجہ سے پی ٹی آئی کے خلاف مذہبی حلقوں میں پنپنے والے منفی تاثر کو تحلیل کرنا چاہتے تھے یا پھر وہ اگلے چند ماہ میں ان سیاسی مشکلات کو دیکھ رہے ہیں‘ جوانہیں پھر اپوزیشن کے صحراؤں کی آبلا پائی پہ مجبور کر سکتے ہیں۔بہرحال‘امر واقعہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خطاب سے ایک دن قبل وزارت ِخارجہ نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اُس رپوٹ کو مسترد کیا ‘جس میں پاکستان کو اب بھی جنوبی ایشیا میں سرگرم عمل دہشت گرد گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے والا ملک ظاہر کیا گیا؛اگر چہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ دنیا بھر میں القاعدہ کی قوت اور وجود بتدریج کم ہوا ‘لیکن اس رپورٹ میں دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کے ضمن میں پاکستان کے کردار کو دانستہ نظرانداز کیا گیا۔یورپ کے تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ عمران خان‘ بن لادن کو فی الواقع سچے موقف کا حامل اصلی شہید نہیں سمجھتے ‘بلکہ اسے شہید کہنے میں اسے سیاسی مفاد دکھائی دیتا ہے۔
چار سال قبل بھی ایک ٹی وی پروگرام میں خان صاحب نے اسامہ بن لادن کودہشت گرد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ کیونکہ انہیں اقتدار تک پہنچنے کے لیے انہی نظریات سے وابستہ طاقتور گروہوں کی حمایت درکار تھی۔مغربی میڈیا کا خیال ہے کہ اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ اور طالبان کی لیڈر شپ آج بھی پاکستانی مسلمانوں میں مقبول اور نوجوان نسل کے لیے بھرپورکشش رکھتی ہے۔اب ‘بھی نوخیز نسلوں کو طاغوتی طاقتوں کے خلاف راغب کرنے کی خاطر انہی شخصیات کے کرشماتی شکوہ کو وسیلہ بنایا جاتا ہے‘ اس لئے پاکستان میں ان وار لارڈز کی مخالفت سیاسی طور پہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔یورپی تجزیہ کاروں کی رائے سے قطع نظر ہماری اپوزیشن کی طرف سے نہایت پُرجوش انداز میں اسامہ بن لادن کو اس قوم کو تباہ کرنے والا دہشت گرد باور کرانے کی پیش دستی وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کے مہلک اثرات کو کاونٹر کرنے کی کوشش ہو گی؛بلاشبہ اس حوالہ سے ہمارا قومی بیانیہ ہمیشہ التباسات کی دھند میں مستور رہا؛ چنانچہ اس پراگندہ ماحول میں ابھی القاعدہ اور طالبان کے موقف کو برحق یا خلاف حق کہنا دشوار ہو گا۔جنگ دہشت گردی میں عالمی طاقتوں کو ملنے والی ادھوری فتح بھی تاحال عسکریت پسندی کو باطل ثابت کرنے کے لیے ناکافی نکلی‘ بلکہ طالبان کے ساتھ امریکہ کے حالیہ امن معاہدہ نے مبینہ دہشت گردی کے خلاف مہذب دنیا کے موقف کو اور بھی کمزور کر دیا‘اس لیے ایسے حالات میں وزیراعظم صاحب کی جانب سے بن لادن کو شہید کہنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ امریکی غلبہ کے خلاف مزاحمت کرنے والے عسکری گروہوں کی شناخت بن جانے والے بن لادن اور ملا عمر سمیت طالبان مزاحمت کار مطلقاً غلط نہیں تھے۔
بیشک مغربی طاقتیں خطرناک ڈپلومیسی اور اپنے جانبدارنہ اصولوں کے ذریعے انسان کی پیچیدہ زندگیوں کا احاط کرلیتے ہیں ‘ لیکن بسا اوقات تقدیر غیر مربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھاتی ہے اور ان کی مرضی کے بغیر انہیں ان دیکھی تباہی سے دوچار کر دیتی ہے۔اس تناظر میں جب ہم ملکی سیاست میں کچھ غیر معمولی تبدیلیوں کی توجیح کرتے ہیں تو ہمیں مسلم لیگ (ن)اقتدار کے مراکز کی طرف پلٹتی نظر آتی ہے‘جیسے سابق وزیراعظم نوازشریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی برطرفی اور سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی کے خلاف نیب کے مقدمات کی بساط لپٹ لینے کا عمل‘موجودہ سیاسی بندوبست میں بظاہرکسی تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے ‘ واقعات کے اسی تسلسل سے جہاں مسلم لیگ( ن) اور مقتدرہ میں غلط فہمیاں ختم ہونے کے اشارے ملے‘ وہاں جے یو آئی اور مقتدرہ کے مابین بھی دوریاں کم ہوتی نظر آتی ہیں۔ رائے عامہ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ خان صاحب کو ایوان اقتدار تک لانے کا تجربہ زیادہ خوشگوار ثابت نہیں ہوا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ جیمزسٹفن نے کہا تھا کہ ''سیاسی طاقت فقط شکل بدلتی ہے ‘فطرت نہیں بدلتی‘‘۔