"AAC" (space) message & send to 7575

نئے سیاسی موڑ

تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں ہماری قومی سیاست بھی کوئی نیا موڑ مڑنے والی ہے‘ جس کے عمیق اثرات ملک کی داخلی سیاست پہ نمایاں ہونے لگے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں نواز لیگ کو میدانِ سیاست میں کچھ گنجائش مل جائے گی۔ لاہور میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے دوران اچانک پیدا ہونے والی ناخوشگوار صورت حال اسی امر کی غماز تھی کہ لیگی قیادت کو خوف سے آزادی مل گئی ہے اور وہ شکست کی گرد جھاڑ کے ایک بار پھر میدانِ عمل میں اترنے والی ہے؛ تاہم اس نئی سکیم کو روبہ عمل لانے کے لئے جس قسم کی سیاسی فضا درکار ہو گی اس ماحول کو بنانے میں مولانا فضل الرحمن کا کردار زیادہ اہم ہو گا۔ بلاشبہ مولانا صاحب اپنی طلاقتِ لسانی سے عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت کے علاوہ مزاحمتی سیاست کا طویل تجربہ بھی رکھتے ہیں لیکن اس وقت اُلجھن یہ ہے کہ ماضی قریب میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ نے اپنے طرزِ عمل سے جس طرح مولانا فضل الرحمن کا اعتماد کھویا‘ اس کی بحالی قدرے مشکل کام ہو گی۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت خود تو طاقت کے مراکز کے ساتھ ٹکرانے سے ہچکچاتی رہیں لیکن جمعیت علمائے اسلام کی ان مراکز کے ساتھ پنجہ آزمائی کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کبھی حجاب محسوس نہیں کیا۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران جب بھی طاقت کے مراکز پہ دبائو بڑھانے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے مولانا صاحب کے ذریعے گورنمنٹ مخالف تحریک چلانے کی سرگرمیوں کو مہمیز دے کے اپنی سیاسی بارگیننگ کی پوزیشن کو مضبوط بنا لیا،پھر جُونہی انہیں کچھ آسودگی ملی وہ دل پہ کوئی بوجھ لئے بغیر مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹ گئیں۔ گزشتہ برس دسمبر میں بھی جے یو آئی کے اسلام آباد دھرنا کے دوران دونوں بڑی جماعتوں کا خود غرضی پہ مبنی یہی طرزِ عمل ایسی بے یقینی کا مظہر تھا جس نے ایک طاقتور سیاسی سرگرمی کو بے اثر بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ چنانچہ اب مولانا فضل الرحمن نے بھی نواز لیگ اور پی پی پی کی مجوزہ اے پی سی میں شمولیت کو چند اصولی ضمانتوں کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو رام کرنے کی خاطر پہلے شہباز شریف نے اسمبلی فلور پہ کھڑے ہو کر ان سے معافی مانگ کے ماضی کی غلطیوں کے ازالہ کی کوشش کی اور پھر مریم نواز نے بھی نواز شریف کی ایما پر ہر قیمت پہ مولانا صاحب کو راضی کرنے کا عندیہ دے کر کسی نئے سیاسی سفر کی تمہید بتا دی۔ 
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے تمام تر شَکر رنجیوں کے علی الرغم ایک عملیت پسند سیاستدان کی طرح‘ مطلقاً قطع تعلق کرنے کے بجائے دونوں بڑی جماعتوں کو انگیج رکھا کیونکہ مولانا صاحب جانتے تھے کہ سیاسی امور میں گہرے اختلافات کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بامقصد تعلقات ہی ان کی اصل طاقت ہیں،اس لئے انہوں نے دوستوں کے ہاتھوں دکھ جھیلنے کے باوجود بھی چودھری برادران سے ذاتی مراسم ختم نہیں کیے اور یہی رویہ ان کی وسعت ذہنی کا مظہر اور دلیرانہ اسلوب کی علامت سمجھا جائے گا۔ 
بلاشبہ یہ ایک بالغ النظر سیاستدان کا ایسا سنجیدہ طرزِ عمل ہے جو مستقبل میں ہماری قومی سیاست کا سرمایۂ افتخار ثابت ہو گا۔ اس حقیقت کو ہم سب جانتے ہیں کہ اقتدار کی سیاست ایسا رواں عمل ہے جس میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی بلکہ یہاں سیاست کے ہر کردار کوگردش دوراں ہی ایک دوسرے سے قریب اور دور کرتی رہتی ہے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقت کی صرف ایک ہی کروٹ نے سارا منظرنامہ بدل ڈالا۔ حکمراں اشرافیہ کے وہ لوگ جو کل تک مولانا فضل الرحمن کو پاور پالیٹکس کے اکھاڑے سے باہر رکھنے کو اپنی کامیابی تصور کرتے تھے آج وہ کفِ افسوس ملتے ہوئے کہتے ہیں:کاش مولانا صاحب پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوتے تو ہمیں سیاسی اصلاحات اور کشمیر ایشو پہ اس قدر شدید مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن اصولی طور پہ سیاسی اصلاحات کے حامی اور مسلہ کشمیر کے پُرامن حل کے بہترین وکیل رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت نے مملکت کی سلامتی بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے مستقبل سے جڑے کشمیر جیسے اہم ایشوز کے حوالے سے ہونے والی مبینہ پیش رفت سے عوام کو بے خبر رکھنے کے علاوہ قومی قیادت کو لاتعلق کرنے کا جو وتیرہ اپنایا وہ پسندیدہ عمل نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمن کو دراصل اسی رویہ سے شدید اختلاف رہا ہے۔ بلاشبہ قومی ایشوز پہ ملکی قیادت کو اعتماد میں لے کر اجتماعی دانش کو بروئے کار لانے سے گریز کی روش نے ہی حکمرانوں کو تنافر کا نمائندہ بنا دیا ہے۔ اگر وہ روایتی میل جول کے ذریعے سیاستدانوں کو انگیج رکھتے تو انہیں اپنے نصب العین کے حصول میں سہولت ملتی لیکن اسی جنونِ استرداد نے انہیں بتدریج تنہا کر دیا ہے۔ 
اس پوری سیاسی جدلیات میں پی پی پی کی سوچ کچھ ایسی حقیقت پسندانہ واقع ہوئی جو پوری طرح اپنے مفادات کے محور میں گھومتی دکھائی دی۔ بلاشبہ،موجودہ سیاسی بندوبست کی سب سے بڑی بینی فشری ہونے کے ناتے پیپلزپارٹی ہمیشہ سسٹم کو بچانے کی تگ و دو میں سرگرداں رہی،اس لئے جب بھی اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش شروع کی پیپلزپارٹی نے آگے بڑھ کر اپنے مخصوص طریقہ کار کے تحت اس کی رخ گردانی کو فرض عین سمجھا۔میری نظر میں اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آصف علی زرداری نے اب محض عوامی طاقت کے وسیلے اقتدار تک رسائی کی راہ ترک کر کے طاقت کے مراکز کے ساتھ براہ راست لین دین کے ذریعے ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کی پالیسی اختیارکرکے اپنی رہی سہی پارلیمانی قوت کو بچانے کے علاوہ پارٹی قیادت پہ گرفت مضبوط کر لی ہے،دوسرا، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلم لیگ نواز ہی اس کی اصل حریف ہے جو عالمی اور مقامی مقتدرہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے ایوانِ اقتدار تک رسائی پانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اس لئے انہوں نے ہمیشہ نواز لیگ کو مقتدرہ کے خلاف صف آرا رکھنے کی خفیہ و اعلانیہ سکیم میں ہی اپنا مفاد تلاش کیا۔ 
2018ء کے انتخابات کی طرح اس وقت بھی سابق صدر زرداری کی خواہش یہی تھی کہ نواز لیگ کا مقتدرہ کے ساتھ ٹکرائو کرا کے بلاول بھٹو کے لئے وزارتِ عظمیٰ کی راہ ہموار بنائی جائے لیکن اس ضمن میں شہباز شریف ان سے زیادہ چالاک ثابت ہوئے۔ چھوٹے میاں صاحب نے بلاول بھٹوکی جانب سے دی جانے والی تمام ترغیبات کے باوجود مقتدرہ کے ساتھ تصادم سے گریز کی راہ اپنا کر بالآخر اپنی جماعت کے لئے تیسری بار مسند ِاقتدار تک پہنچنے کی راہ ہموار کر لی۔ حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ نواز لیگ نے بائیں بازو کی عالمی مقتدرہ کی وساطت سے مقامی سطح پر اپنی تلخیاں کم کرکے بند گلی سے نکلنے کی راہ ڈھونڈ لی ہے ،شاید اسی لئے مرکزی دھارے کے میڈیا میں مریم نواز کی پُرموشن کی راہیں کشادہ ہونے لگی ہیں اور سویلین بالادستی کی عَلم بردار مریم بی بی نے بھی پوزیشن تبدیل کر کے اپنی تنقید کا روئے سخن صرف پی ٹی آئی گورنمنٹ کی طرف پھیر لیا ہے۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ عالمی سطح پہ ابھرنے والی وسیع پیراڈائم شفٹ کا سب سے زیادہ فائدہ نواز لیگ اور اس کے بعد جے یو آئی(ف) کو پہنچے گا۔حتیٰ کہ سیاسی تغیرات کی یہ نئی لہر مولانا فضل الرحمن کی اس ابتدائی جدوجہد کو بھی کارآمد بنا دے گی جسے ہم رائیگاں تصور کرتے ہیں؛ تاہم مریم نواز کی تازہ اینٹری نے تحریک انصاف سے زیادہ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کی پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ سیاست کی نئی مہمات میں پیپلزپارٹی کا کردار مزید محدود ہوتا جائے گا اور شاید سندھ میں بھی جے یو آئی سمیت کئی نئی سیاسی طاقتیں اس کے سامنے سر اٹھا لیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں