حالیہ دنوں چاروں صوبوں میں منعقد ہونے والے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی اور سینیٹ انتخابات پہ اپوزیشن کا پلڑا بھاری دکھانے کی پالیسی سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اپوزیشن کو مجوزہ لانگ مارچ، اجتماعی استعفوں اور دھرنوں سے روکنے کی خاطر موجودہ بندوبست میں ان کیلئے تھوڑی گنجائش پیدا کی گئی تاکہ اگلے ڈھائی سال آرام سے نکالنے کی سکیم کو کامیاب بنایا جا سکے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں اس منصوبے کو بارآور بنانے کی خاطرآصف علی زرداری کے کردار کو اہم سمجھا جا رہا تھا لیکن چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کی شکست نے مولانا فضل الرحمن اور نوازشریف کے بیانیے کو تقویت پہنچا کے زرداری ڈاکٹرائن کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ سینیٹ کا نتیجہ آتے ہی مولانا فضل الرحمن نے واضح کر دیا کہ '' اسمبلیوں سے مستعفی ہوئے بغیر لانگ مارچ کا انعقاد بے معنی ہو گا‘‘چنانچہ پی ڈی ایم کا آج‘ سولہ مارچ کا اجلاس کافی اہمیت اختیار کر گیا ہے جس میں جے یو آئی اور نواز لیگ اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں پہ اصرار کرکے پیپلزپارٹی کو اُسی حتمی راہ کی طرف لانے کی کوشش کریں گی جس سے بچنے کیلئے زرداری صاحب کافی دنوں سے ہاتھ پائوں مارتے آ رہے تھے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ سینیٹ کی شکست نے پیپلزپارٹی سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان واقع خطِ امتیاز پہ چلنے کا آپشن چھین لیا ہے۔ زرداری صاحب کو سیاسی تصادم بالکل سوٹ نہیں کرتا‘ ممکن ہے کہ اب شایدکچھ عرصہ کیلئے اُنہیں خود کو اِس تھکا دینے والی کشمکش سے الگ کرنا پڑے۔ جیسے پاناما سکنڈل کے ذریعے میاں نوازشریف کو گھر بھیجنے کے علاوہ 2018ء کے سیاسی خاکے میں رنگ بھرنے کیلئے مبینہ طور پر ڈاکٹر طاہر القادری کی فصاحت کے علاوہ پیپلزپارٹی کی مہارت کو بروئے کار لایا گیا تھا‘ اسی طرح اب بھی پیپلزپارٹی کی فعال تلویث اور آصف علی زرداری کی ذہنی لچک کے ذریعے اپوزیشن تحریک کو مینج کرنے کی حکمت عملی اپنائی جانا تھی لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ حالات کا جبر تمام سیاسی کرداروں کو اپنی مرضی کے بغیرکسی اَن دیکھی کھائی کی طرف دھکیل رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ بندوبست کی سب سے بڑی بینی فشری ہونے کے ناتے پیپلزپارٹی خود بھی معمول کی سیاسی ہنگامہ آرائیوں کے شور و غوغا میں کسی نہ کسی طور موجودہ سسٹم کو ہی آگے بڑھانے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ ایک عملیت پسند سیاستدان کی طرح زرداری صاحب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ فی الوقت پیپلزپارٹی اپنی ملک گیر حیثیت کھو کے صرف سندھ تک سمٹ جانے کی وجہ سے مستقبل قریب میں کسی شفاف انتخابی عمل کے ذریعے بلاول بھٹو زرداری کو وزرات عظمیٰ کے منصب تک پہنچانے کی سکت نہیں رکھتی، اس لئے کم از کم اگلے پانچ سالوں تک پیپلزپارٹی کی سیاست کا انحصار ''عنایات‘‘ پہ قائم رکھا جائے۔ اسی مقصد کے حصول کی خاطر مبینہ طور پر پی پی پی نے پہلے بھی سویلین بالادستی کی رومانوی تحریک کو پس پشت ڈال کے 2016ء میں نوازشریف حکومت کو گرانے کیلئے کندھا پیش کرنے کے بدلے سندھ جیسے بڑے صوبے میں بسہولت اکثریت کی حامل حکومت سمیت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قابل لحاظ نمائندگی حاصل کر لی تھی۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 25 جولائی2018ء کی رات جب مولانا فضل الرحمن نے ٹیلیفونک رابطہ کر کے انتخابی نتائج کا بائیکاٹ کرنے بارے تعاون مانگا تو آصف علی زرداری نے انہیں یہی جواب دیا تھا کہ ''ہم اپوزیشن کے ساتھ ہیں لیکن یہ دیکھ لیں کہ اِس الیکشن میں ہمیں سندھ اسمبلی کی وہ نشستیں بھی ملیں جو 1970ء کے انتخابات میں بھی ذولفقار علی بھٹو نہیں جیت سکے تھے‘‘۔ لاریب! اگر دستِ تعاون کارفرما نہ ہوتا تو بلاول بھٹو زرداری کیلئے لاڑکانہ کی نشست جیتنا بھی دشوار ہو سکتا تھا۔ قومی اسمبلی میں بلاول صاحب کے کردار کو نمایاں رکھنے کی خاطر ہی خورشید شاہ جیسے ماہر سیاستدان کو فراموش کر دیا گیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی اور شرجیل میمن سمیت اپنے تمام اسیروں کو چھڑانے کیلئے جوڑ توڑ کرتی رہی لیکن خورشید شاہ کو ایسے بھول گئی جیسے وہ کبھی پارٹی کا حصہ ہی نہیں تھے۔
پچھلے چند دنوں میں جس خشوع و خضوع کے ساتھ اپوزیشن کے جائز سیاسی حقوق کا دفاع کیا گیا اس سے یہی تاثر مل رہا تھا کہ پس پردہ قوتیں قومی سطح پہ ایک خاص نوع کی سیاسی پولرائزیشن ابھارکے جمہوری عمل سے مایوس اپوزیشن جماعتوں کو انگیج کرنے اور موجودہ بندوبست کے اندر رہتے ہوئے انہیں ایک قسم کی آئینی جدوجہد میں سرگرداں رکھنے کی پلاننگ کر رہی ہیں۔ اس لئے کانٹے میں پڑے چارے کی ترغیب کی مانند پیپلزپارٹی نے چند نشستوں کے ضمنی الیکشن میں برتری اور یوسف رضا گیلانی کی ابتدائی کامیابی کو پی ڈی ایم کے منشور اور سویلین بالادستی کی تحریک کے متبادل کے طور پہ پیش کرنا شروع کر دیا۔اگر گیلانی صاحب سینیٹ کے چیئرمین کی نشست جیت لیتے تو زرداری صاحب اپوزیشن جماعتوں کو لانگ مارچ اور دھرنے کا خیال ترک کر کے پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے بزدار حکومت کی تبدیلی میں مشغول دیکھنا چاہتے تھے لیکن اب وہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی کیفیت سے دوچار ہوں گے۔ حالانکہ یہ امر نہایت واضح تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے بزدارحکومت ختم کرنے کی گنجلک گیم میں مسلم لیگ نواز کو ٹریپ کیا جا رہا تھا بلکہ چند ماہ قبل چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنوانے کی اِسی تجویز کو روبعمل لانے کیلئے مولانا فضل الرحمن کو بھی چیئرمین سینیٹ بنانے کی پیشکش کی گئی تھی، مولانا صاحب نے جسے ٹھکرا دیا تھا۔ ہمارے خیال میں مسلم لیگ نواز کی کہنہ مشق قیادت اپنی طویل المدتی سیاسی حکمت عملی کے تحت بزدار حکومت کو ہی اپنے لئے فائدہ مند سمجھتی ہے، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بزدار حکومت کی کم مائیگی نے پنجاب میں شہبازشریف کی انتظامی صلاحیتوںکو زیادہ نمایاں کر دیا ہے جبکہ وسطی پنجاب میں گہرا اثر و نفوذ رکھنے والے چوہدری برادران اُن کے سیاسی مقصد کی راہ میں حائل ہو سکتے تھے اورخاص طور پر اس صورت میں وہ ان کے لئے زیادہ بڑا خطرہ ثابت ہوتے جب انہیں وزارتِ اعلیٰ کے منصب تک پہنچانے کا وسیلہ نواز لیگ خود بنتی۔
پی ڈی ایم کے 8 مارچ کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمن اور نوازشریف نے یہی موقف اختیار کیا تھا کہ ہم نے پیپلزپارٹی کی خواہش پہ ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لے کر 'میدان خالی‘ نہ چھوڑنے کی تجویز مان لی، اب پیپلزپارٹی لانگ مارچ کے دوران اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا پی ڈی ایم کا فیصلہ قبول کرے، لیکن زرداری صاحب نے پھر کہا کہ ابھی مستعفی ہونے کا ''وقت‘‘ نہیں آیا۔ پچھلے ڈھائی سالوں کے تجربات سے یہ واضح ہوا کہ پس پردہ عناصر کی سیاسی منصوبہ بندی کو نفاست کے ساتھ عملی جامہ پہنانے میں عمران خان کی نسبت پیپلزپارٹی کی قیادت زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتی تھی۔ وزیراعظم ایسے بے لچک سیاستدان واقع ہوئے ہیں جو عملی سیاست کے عیاں بالذات حقائق کو نظر انداز کر کے اپنے جذباتی نصب العین کو پانے کوشش میں جمہوری اقدار اورمؤثر سیاسی کرداروں کو خاطر میں نہیں لاتے، یعنی وہ جمہوریت کو ایک ہاتھ سے دھکیلتے ہیں۔ اس کے برعکس آصف زرداری سیاست میں سمجھوتوں کے آرٹ کو استعمال کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، نامطلوب تصادم سے بچنے کی خاطر قومی سیاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو خود سے منسلک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ فتح پہ مفاہمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ کہیں نہ کہیں یہ احساس ضرور پایا جاتا ہو گا کہ موجودہ حکومت کی ناتجربہ کاری، سہل انگاری اور بے لچک رویوں نے اپوزیش تحریک کو توانائی فراہم کر کے طاقت کے مراکز کو مشکلات سے دوچار کر دیا، اگر اس کی جگہ عنانِ اقتدار پیپلزپارٹی کی جہاں دیدہ قیادت کے ہاتھ میں ہوتی تو وہ مملکت کی سیاسی سکیم کو روبعمل لانے کے لئے زیادہ بہتر انداز میں اپوزیشن کو مینج کر سکتی تھی۔ چنانچہ اب بھی اس امر کا قوی امکان موجود ہے کہ اگلے عام انتخابات میں تحریک لبیک، قاف لیگ اور تحریک انصاف کو پیپلزپارٹی کے ساتھ منسلک کر کے پنجاب میں نواز لیگ کی راہ روکنے کی کوشش کی جائے۔