وائس چانسلر گومل یونیورسٹی نے صوبائی گورنمنٹ سے اختلاف کے بعد اپنے منصب سے استعفیٰ دے کر یونیورسٹی کو پھر نئے بحران کی دہلیز پہ لا کھڑا کیا ہے۔ واقفانِ حال کے مطابق انہوں نے جامعہ گومل کی ایگریکلچر فیکلٹی کو زرعی یونیورسٹی کا درجہ دے کر گومل یونیوسٹی سے الگ کرنے کے فیصلے کے خلاف وزیراعظم کو خط لکھ کر بتایا کہ یونیورسٹی ماڈل ایکٹ کے تحت کسی بھی یونیورسٹی کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا، صوبائی حکومت اگر زرعی یونیورسٹی بنانا چاہتی ہے تو ضرور بنائے لیکن گومل یونیورسٹی کی زمین اور اثاثہ جات کو تقسیم نہ کرے۔ وزیراعظم کو لکھے گئے اِسی خط کی پاداش میں گورنرخیبر پختونخوا شاہ فرمان نے ان سے وضاحت طلب کی تو انہوں نے جواب میں لکھاکہ بحیثیت وائس چانسلر میرا فرض ہے کہ اس ادارے کے وقار اور مفادات کا تحفظ کروں، مجھے محض نوکری نہیں کرنی، اگر میں یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق اس مادر علمی کی حفاظت نہیں کر سکتا تو مجھے یہاں بیٹھ کے تنخواہ لینے کا کوئی حق نہیں؛ چنانچہ ایکٹ کے مطابق گومل یونیورسٹی کے اکیڈیمک سٹرکچر، اثاثہ جات، مالی مفادات اور جغرافیائی وحدت کو قائم رہنے دیا جائے بصورت دیگر میرا استعفیٰ قبول کر لیا جائے۔ وائس چانسلر کے استعفے کی خبر ملتے ہی گومل یونیورسٹی کے اساتذہ، افسران اور طلبہ میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی، سینکڑوں اہلکار وی سی ہائوس کے باہر جمع ہو گئے، کئی جذباتی مناظر بھی دیکھنے کو ملے، کچھ اہلکار فرطِ جذبات میں رو دیے اورکئی اساتذہ نے یونیورسٹی چھوڑنے کا عندیہ دے دیا۔
گومل یونیورسٹی کی 47 سالہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ کسی وائس چانسلر کے مستعفی ہونے پر فیکلٹی اور طلبہ سمیت پوری انتظامی مشینری اجتماعی ردعمل دینے پہ مجبور ہوئی ہو۔ بدقسمتی سے اپنے قیام کے ساتھ ہی گومل یونیورسٹی نسلی، لسانی اور گروہی کشمکش کے بھنور میں پھنستی چلی گئی، مہیب تعصبات کی آندھیوں نے مادرِ علمی کی تعلیمی فضاکو مسموم، انتظامی ڈھانچے کو کمزور اور معاشی حیثیت کو پراگندہ رکھا۔ سینئر فیکلٹی کی دھڑے بندی نے کسی بھی وی سی کو چین کا سانس نہیں لینے دیا، اسی سرگرانی کے باعث ماہر اساتذہ کی قابل لحاط تعداد یونیورسٹی چھوڑگئی، یوں جامعہ گومل رفتہ رفتہ علمی زوال کی دلدل میں اترتی چلی گئی۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ گومل یونیورسٹی کی بندش کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔ قصہ کوتاہ، پچھلے سال جب ڈاکٹر افتخارنے کمان سنبھالی تو اس وقت یونیورسٹی معاشی و انتظامی بحران کے علاوہ منشیات کا گڑھ اور بے راہ روی کی لعنت میں ڈوبی دکھائی دیتی تھی، ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے تعلیمی ادارے کا ماحول خراب کر رکھا تھا، جعلی ڈگریوں کے سکینڈل سے لے کر مالی بدعنوانیوں کی داستانوں تک نے یونیورسٹی کی ساکھ کو تباہ اور ملازمین کے مستقبل کو مخدوش بنا رکھا تھا۔ مالیاتی بدنظمی اور طلبہ کی روز بروز کم ہوتی تعداد کی وجہ سے یونیورسٹی کی اقتصادی حالت قابل رحم تھی، یونیورسٹی کے پاس ملازمین کو دینے کی تنخواہیں تھی نہ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن ملتی تھی۔ ہر معاملے کو عدالتوں میں لے جانے کی روش نے لامتناہی مقدمے بازی کو جنم دے کر یونیورسٹی کی انتظامی اتھارٹی کو مفلوج کر رکھا تھا۔ ایسے میں قابل عمل اصلاحات کے ذریعے نہ صرف یونیورسٹی کا تعلیمی ماحول سازگار بنایا گیا بلکہ اپنی بہترین انتظامی صلاحیتوں سے مالیاتی بحران میں الجھی یونیورسٹی کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے میں بھی کامیابی پائی۔ محض ایک سال کے اندر یہاں کئی نئے ڈیپارٹمنٹ کھلے اور طلبہ کی تعداد میں غیر معمولی اضافے سے ریونیو بڑھنے لگا جس سے آج نہ صرف یونیورسٹی اہلکاروں کو وقت پہ تنخواہیں ملتی ہیں بلکہ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی بروقت فراہمی بھی کر دی جاتی ہے۔ اس وقت یونیورسٹی کی انتظامی اتھارٹی پوری طرح فعال ہے، تمام ہاسٹلز بند کرکے منشیات کا استعمال ختم کرکے ماحول کو پاکیزہ بنا دیا گیا ہے۔ اساتذہ پڑھانے میں اور طلبہ پڑھنے میں مشغول ہیں، کئی سرکش ملازمین کو برطرف کر کے نہایت گہری جڑیں رکھنے والی نسلی و لسانی کشمکش پہ قابو پایا گیا، انہی اقدامات کی بدولت یونیورسٹی کے ماحول میں ایسی خوشگوار تبدیلیاں آئیں جس سے اساتذہ اور طلبہ کو ذہنی آسودگی ملی۔
2016ء میں وزیراعظم نوازشریف سی پیک مغربی روٹ کا افتتاح کرنے آئے تو مولانا فضل الرحمن کے ایما پر انہوں نے یہاں زرعی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا، حسبِ معمول زرعی یونیورسٹی کیلئے زمین کے حصول کی تگ و دو کے علاوہ دیگر قانونی تقاضوں کی تکمیل کی پیش رفت چلتی رہی؛ تاہم چار سال بعد صوبائی حکومت نے نئی یونیورسٹی بنانے کے بجائے پہلے سے موجود گومل یونیورسٹی کی زرعی فیکلٹی کو ''یونیورسٹی‘‘ کا درجہ دینے کا فیصلہ کر کے یونیورسٹی ایکٹ کی خلاف وردی کا نیا تنازع کھڑا کر دیا۔ وائس چانسلر کہتے ہیں کہ ایکٹ کے مطابق گومل یونیورسٹی خود مختار ادارہ ہے، یونیورسٹی ماڈل ایکٹ کی دفعہ 3 یونیورسٹی کو انتظامی، مالیاتی اور پالیسی امور میں مکمل خودمختاری کی ضمانت دیتی ہے لیکن اس امر سے واقفیت کے باوجود صوبائی کابینہ نے یونیورسٹی امور میں مداخلت کرتے ہوئے اسے منقسم کرنے کا فیصلہ کیا؛ تاہم اس تنازع کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ایک عوامی سروے کی روشنی میں یونیورسٹی ماڈل ایکٹ میں ترامیم کا مسودہ تیارکر کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی وساطت سے تمام یونیورسٹی اتھارٹیز کو مشاورت کے لئے بھجوایا تھا تاکہ وسیع تر اتفاق رائے کے بعد اسے صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا جا سکے۔ البتہ یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز نے ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کی مخالفت کی کیونکہ ان ترامیم کے ذریعے حکومت وائس چانسلر بننے کیلئے مطلوب فکس اہلیت میں ترامیم کرکے بیوروکریٹس اور دیگر افراد کیلئے وائس چانسلر بننے کی گنجائش پیدا کرنا چاہتی تھی۔ دوسر،ا ان ترامیم کے ذریعے یونیورسٹی میں رجسٹرار، ڈائریکٹر فنانس اور کنٹرولر امتحانات جیسے عہدوں کو مخصوص مدت کی پوسٹیں قرار دے کر ان پر تین سال کی مدت کے لئے آفسیرز کی تعیناتی کرکے انہیں فعال بنانا چاہتی تھی، جسے یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان ترامیم کیخلاف مزاحمت کرنے والوں میں سب سے توانا آواز ڈاکٹر افتخاراحمد کی تھی جنہوں نے اس ایشو کو وزیراعظم عمران خان کے سامنے اٹھایا تو صوبائی حکومت وقتی طور پر متنازع ترامیم منظور کرانے سے پیچھے ہٹ گئی۔ اب وائس چانسلر صاحب نے مفصل خط لکھ کر وزیراعظم کو اعلیٰ تعلیمی اداروں کی خود مختاری ختم کرنے کے مضمرات بتائے تو اِسی خط کو جواز بنا کے ایچ ای ڈی نے جواب طلبی کا نوٹس جاری کرکے دیگر وائس چانسلرز کو بھی واضح پیغام دے دیا؛ تاہم نوٹس کے مفصل جواب کے ہمراہ اپنا استعفیٰ ارسال کر کے وی سی جامعہ گومل نے گیند ایچ ای ڈی کے کورٹ میں ڈال دی۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ گومل یونیورسٹی کو تقسیم کر کے زرعی یونیورسٹی کا قیام محض زمین یا عمارت کی تقسیم تک محدود نہیں ہو گا بلکہ اس میں اثاثوں، سڑکوں، مرکزی دروازوں، مکانات، فیکلٹی اور طلبہ کی تقسیم بھی شامل ہو گی۔
مخمصہ یہ ہے کہ ہماری کوئی مستقل تعلیمی پالیسی موجود نہیں، نت نئے سلیبس، امتحانات کے نئے طریقے اور ماضی کے تجربات سے قطع نظر‘ بلاسوچے سمجھے تعلیمی اداروں کی انتظامی تشکیل میں رد وبدل معمول بنا لیاگیا ہے۔ 2002ء میں جو نئی تعلیمی پالیسی متعارف کرائی گئی تھی‘ اٹھارہ سال بعد اسے بدل کے ایم اے، ایم ایس سی اور بی اے، بی ایس سی کی جگہ بی ایس سسٹم متعارف کرا دیا گیا، اسی طرح 2010ء میں ہائرایجوکیشن کو صوبوں کے حوالے کر کے بازیچہ اطفال بنایا گیا۔ اُس وقت اے این پی گورنمنٹ نے چانسلر کے اختیار محدود کرنے کے علاوہ یونیورسٹیز کے وی سی کی اہلیت کو پی ایچ ڈی سے مشروط کر کے ہائرایجوکیشن کا نظام اساتذہ کے سپرد کر دیا، جس سے کئی قسم کے انتظامی مسائل جنم لینے لگے تھے‘ اب پی ٹی آئی گورنمنٹ وائس چانسلرز کی تعیناتی کے سکوپ کو وسیع کرنا چاہتی ہے مگر اساتذہ اسے قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ بلاشبہ تعلیم جب تک فرد کی شخصی آرزوؤں اور اجتماعی ذمہ داریوں میں مطابقت پیدا نہ کر دے‘ اس وقت تک وہ ایسے رجالِ کار پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتی جو اپنے کردار کواجتماعی بہبود کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ سپنسر نے کہا تھا کہ سکول ہمارے ذہن کیلئے ایسے آلاتی رجحانات پیدا کرتے ہیں، جس کا مقصد ذہن کی مسلسل نشو نما اور زندگی کی ایسی مستقل تنویر ہو جو ہمارے مستقبل کے دبستانوں کو روشن بنا سکے۔