جب مسگراں گیٹ سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں داخل ہو کے بھاٹیہ بازار میں کم و بیش فرلانگ کا فاصلہ طے کر لیں تو بائیں جانب مغربی سمت واقع بگائی سٹریٹ کا دروازہ دعوت نظارہ دیتا ملتا ہے جس کے آخری سرے پہ انیسویں صدی کے فنِ تعمیرکا شاہکار ''بگائی آشرم‘‘ افسردہ و مضمحل نظر آتا ہے۔ یہ ہماری اجڑی ہوئی تہذیب کی وہ مسحور کن علامتیں ہیں جنہیں اِس عہد جدید کے سماجی شعور نے نہایت بے رحمی کے ساتھ فراموش کر دیا ہے۔ اِس پُرشکو عمارت کو مقامی لوگ ''بگائی محل‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔ اپنے زمانے میں یہ بلڈنگ مشرق و مغرب کے متنوع فنِ تعمیر کا نادر نمونہ تھی اس لئے لوگ اس محل کو دیکھنے کیلئے دور دور سے آیا کرتے تھے۔ 1970 کی دہائی میں ایک پروفیسر صاحب نے محکمہ آباد کاری کے ملازمین کے ساتھ مبینہ طور پر ساز باز کر کے اس عظیم عمارت کو الاٹ کرا لیا جس کی کانوں کان کسی کو خبر نہ ہوئی۔ اب کم و بیش پینتالیس سال بعد ان کی با اثر اولادنے بگائی آشرم کو فروخت کیا اور یہاں کالونی بنانے کی خاطر عمارت کا وسیع ڈھانچہ منہدم ہونے لگا تو سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ شوریدہ سر لوگوں نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر کے اس تاریخی عمارت کا انہدام رکوا لیا تاکہ محکمہ سیاحت و ثقافت والے اسے پشاور کے دلیپ کمار اور راج کپور ہائوس کی مانند قومی ورثہ قرار دے کر دستبردِ زمانہ سے بچا لیں۔ اس مہم کو سوشل میڈیا پہ بھی اچھی خاصی حمایت ملی۔ دنیا بھر کے افراد نے ٹرینڈز چلا کے قومی ورثے کی ناقدری کا رونا رویا لیکن اب ایسی عمارات کو بچانا اتنا آسان نہیں رہا کیونکہ اس کاروباری ڈیل سے کچھ مقامی سیاستدانوں اور مقتدر سرکاری افسران کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ 2017ء میں دنیا نیوز نے بگائی محل کی تاریخی و ثقافتی اہمیت پہ ایک رپوٹ چلائی تو پشاور سے محکمہ سیاحت و ثقافت والے بگائی آشرم کو سنبھالنے پہنچ گئے لیکن اس عمارت کے مالکان نے انہیں پسپا کر دیا اور وہ سر جھکائے واپس لوٹ گئے۔
اِس عالی شان بلڈنگ کو اپنے عہد کے معروف ٹرانسپورٹر سیٹھ لالہ رام داس بگائی نے تعمیر کرایا تھا، بیسویں صدی کے آغاز پر لالہ رام داس بگائی کی بس سروس شمال مغربی سرحدی صوبے کے طول و عرض میں پوری طرح فعال تھی اور ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر پشاور تک اس ٹرانسپورٹ کمپنی کے ذاتی بس ٹرمینل آباد ہوا کرتے تھے، جنہیں تقسیم ہند کے بعد این ڈبلیو ایف پی (اب خیبر پختونخوا) کی صوبائی حکومت نے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس(GTS) میں بدل دیا۔ اٹھارہویں‘ انیسویں صدی میں ڈی آئی خان کو گیٹ وے ٹو انڈیا کی حیثیت حاصل تھی، وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کے ساتھ تجارت کا سب سے مختصر اور پُرامن روٹ یہی تھا‘ اس لئے برصغیر کی کئی بڑی تجارتی کمپنیوں کے ہیڈ آفس ڈیرہ اور برانچ آفس کلکتہ یا ممبئی میں ہوا کرتے تھے ۔ رام داس بگائی کی کمپنیاں نہ صرف اس خطے کی معیشت کو توانائی فراہم کرتی تھیں بلکہ ان کے زیرانتظام فلاحی کاموں کا وسیع نیٹ ورک بھی چلتا تھا۔ 1939ء میں لالہ رام داس نے اس وقت اے کیٹیگری کا ٹی بی ہسپتال بنا کے غریب مریضوں کو علاج کی مفت سہولت فراہم کی جب ٹی بی کو انتہائی مہلک مرض سمجھا جاتا تھا اور اس کا علاج کافی مہنگا تھا۔ اس ٹی بی ہسپتال کا سنگِ بنیاد اس وقت کے گورنر جارج کننگھم(George Cunningham) نے رکھا تھا۔ ٹائون ہال سے ملحقہ ٹی بی ہسپتال کی عمارت آج بھی گومل میڈیکل کالج کے گرلز ہاسٹل کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
بہادر جیسا رام بھاٹیہ، رائے بہادر دیوانند رام داس بگائی یہاں ہسپتالوں کے علاوہ پانی کی سکیمیں اور ہائی سکولز بنوائے جبکہ نواب آف ڈیرہ شیرمحمد خان اور بعدازاں ان کے بیٹا احمدنواز خان سدوزئی نے مساجد اور امام بارگاہیں تعمیر کرانے کے علاوہ قبرستانوں کیلئے زمینیں وقف کیں۔ 1890 میں پہلا اسلامیہ ہائی سکول یہاں کے غریب مسلمانوں نے''ایک مٹھی آٹا‘‘مہم کے ذریعے چندہ کر کے بنایا تھا جس میں سابق صدر غلام اسحاق خان سمیت کئی نامور افراد تعلیم حاصل کر چکے ہیں؛ تاہم تقسیم ہند کے بعد یہاں کے متنوع کلچر اور صحت مند سماجی رجحانات کو ناگہاں معدوم کر دیا گیا۔ تقسیم ہند کے بعد اس شہر کی معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور تعلیم یافتہ لوگوں کے قحط کی وجہ سے یہ ترقی یافتہ شہر اچانک پسماندگی کے تاریکیوں میں ڈوب گیا۔ ہمارے ماضی اور حال کے مابین حائل اندھیرے کی یہ دیوار ابھی تک تحلیل نہیں ہو سکی ہے۔ قصہ کوتاہ ! لالہ رام داس بگائی نے 1934ء میں اندرون شہر کے گنجان محلوں میں اپنی رہائش کے لئے بگائی آشرم کی پرشکوہ عمارت تعمیر کرائی لیکن اس خاندان کو یہاں بسیرا رکھنے کی زیادہ مہلت نہ ملی اور تقسیم کے بعد بگائی فیملی دہلی منتقل ہو گئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد متروکہ ہندو املاک کا بڑا حصہ تو بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کے سپرد کر دیا گیا لیکن قیمتی جائیدادوں پہ بااثر وڈیروں اور مقتدر سرکاری اہلکاروں نے نہایت بے رحمی کے ساتھ ہاتھ صاف کئے، کچھ جو ابھی تک بچی ہوئی ہیں‘ انہیں بھی سمیٹنے کی تگ و دو جاری ہے۔ ہندوئوں اور سکھوں کی متروکہ املاک میں کئی خوبصورت مندر، گوردوارے، آشرم، گائوشالے، باغات، شمشان گھاٹ، کمرشل پلازے، بس ٹرمینلز، فلور ملز، پرنٹنگ پریس، ہوٹلز، سرائے، خیراتی مسافر خانے اورحیرت انگیزکمیونٹی سنٹرز شامل تھے جو ایک لحاظ سے یہاں کے مکینوں کے تہذیبی رویوں، بود وباش، فن و ثقافت اور تمدنی شعور کا مظہر تھے۔ ان کی حیثیت پراپرٹی سے زیادہ اس خطے کے ثقافتی ورثے کی سی تھی اگر اُس وقت اس ورثے کو محفوظ بنا لیا جاتا تو یہ خطہ وسیع سیاحتی سرگرمیوں کا مرکز بن کر مقامی معیشت کو فائدہ پہنچا سکتا تھا لیکن ہمارے اربابِ بست و کشاد اجتماعی حیات کو اتنی باریکیوں میں دیکھنے کے عادی نہیں تھے۔ بگائی خاندان نے جو تعمیراتی منصوبے مکمل کرائے وہ بلڈنگز اس زمانہ کی شاہکار عمارات تھیں اور ان کو بچانا یہاں کے تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے کے مترادف تھا، افسوس! ہمارا اجتماعی شعور ان اثاثوں کی قدر و قیمت کا درست ادراک نہ کر سکا۔
کہا جاتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے کئی اعلیٰ افسران کے علاوہ محکمہ آباد کاری کے بعض چھوٹے اہلکاروں نے متروکہ باغات، مندروں اور گوردواروں کی ملکیت حاصل کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہ کیا۔ 1960ء کی دہائی کے ایک مشہور بیوروکریٹ نے مغربی سرکلر روڈ سے ملحقہ بھاٹیہ فیملی کے وسیع باغ کو الاٹ کرا لیا، جہاں اب ایک کالونی بن چکی ہے، اسی طرح کسی چالاک اہلکار نے توپانوالہ گیٹ کے قریب مشرقی سرکلر روڈ پہ کالی باڑی مندر کے وسیع دلان پہ قبضہ جما لیا، آج کل وہاں ایک ہوٹل موجود ہے جس کے عقب میں مندر کی عالی شان عمارت چھپ گئی ہے، کچھ عرصہ قبل تک کالی باڑی مندر میں انسدادِ رشوت ستانی پولیس کا دفتر تھا جو اب شاید مقفل پڑا ہے اور خیال ہے کہ بہت جلد یہ انمول عمارت بھی اونے پونے بک جائے گی۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے منسلک شمشان گھاٹ پہ قبضہ کر کے وہاں نجی ہسپتال بنا لیا، حیران کن امر یہ ہے کہ شہر کے باسی جس وقت بگائی محل کے انہدام پہ ماتم کناں ہیں، عین اسی وقت بھاٹیہ بازار میں قائم خیراتی ہسپتال کی اربوں روپے مالیت کی عمارات کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا۔ رحیم بازار میں گوردوارے کی عالی شان بلڈنگ اب بھی پوری طرح سلامت کھڑی ہے، البتہ اس کے جنوب مغربی فرنٹ پہ کچھ دکانیں تعمیر ہو چکی ہیں، حتی کہ یہاں کے تاریخی کمپنی باغ (اب حق نواز پارک) کے فرنٹ کا ایک حصہ اکھاڑے کے نام پہ کسی ریسلنگ کلب کو دان کر دیا گیا، اس سے پہلے کمپنی باغ میں ڈاکٹرز کی رہائشی کالونی اور بلدیات کے دفاتر بنا کر اِس شہر گلستان کو کنکریٹ کے قبرستان میں بدل دیا گیا۔شمالی سرکلر روڈ پہ قائم تیسرے کمپنی باغ کو ختم کر کے1962ء میں گرلز ڈگری کالج بنا دیا گیا، فصیلِ شہر کے گرد گول دائرے کی مانند نہایت خوبصورت گرین بیلٹ ہوا کرتی تھی‘ جسے ٹی ایم اے کے اہلکار ہضم کر گئے۔
بہرحال!ذکر بگائی آشرم کا ہو رہا تھا‘ جس کی توڑ پھوڑ کی خبریں وائرل ہوئیں تو دہلی میں آباد بگائی خاندان بھی متحرک ہو گیا۔ لالہ رام داس بگائی کے پوتے نے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے پی اور وزیراعظم پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ مداخلت کرکے اس تاریخی عمارت کو بچائیں اور اگر آشرم کوکمیونٹی سنٹر میں تبدیل کرکے سیاحوں کیلئے کشش کا سامان پیدا کریں گے تو رام داس بگائی کی آتما کو شانتی ملے گی۔