افغانستان سے امریکی فوج کی پسپائی کے نتیجہ میں جس طرح عالمی سطح پر کئی دور رس تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوئی‘تغیرات کی اسی لہر میں پاکستان کی قومی سیاست بھی جمود کی اُس یبوست سے نکل کر سفرِ حیات کے نئے مرحلہ میں داخل ہونے والی ہے جس نے تہتّر سالوں سے ہمارے اجتماعی قومی وجود کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ایک طرف ڈیجیٹل عہد کے سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی اور سماجی سطح پر ابھرنے والی مزاحمتی تحریکوں نے عام شہری کے سیاسی شعور کو بڑھایا تو دوسری جانب ہماری ریاستی مقتدرہ نے دو افغان جنگوں میں خاموش مزاحمت کے ذریعے عالمی طاقتوں کی ہزیمت کے اسباب مہیا کرکے اپنے وطن کے علاوہ پورے جنوبی ایشیا کو امریکی چُنگل سے آزاد کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا‘جس کے نتیجہ میں ہماری ریاست کے ساتھ امریکی مقتدرہ کا وہ روایتی گٹھ جوڑ بھی ٹوٹ گیا جو ہمیشہ یہاں آئین کی بالادستی اور جمہوری آزادیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا رہا؛چنانچہ پنڈورا پیپرز کی تشہیر سے واضح ہوتا ہے کہ زخم خوردہ امریکیوں سمیت انتقام کی آگ میں سلگتی مغربی دنیا اب یہاں فوج اور عوام کے مابین نفرتوں کی دیوار کھڑ ی کرنے کی کوشش کرے گی۔ماضی اور حال کی مبینہ بدعنوانیوں کا علم امریکہ کو پہلے بھی تھا لیکن اس وقت ان کے مفادات کا تقاضا تھا کہ صرف سیاستدانوں کی کردار کشی کے ذریعے جمہوریت کو بدنام کرکے آمریتوں کو سہارا دیا جائے‘اب جب حالات کی الٹ پھیر سے فائدہ اٹھا کر مقتدرہ نے اپنی مملکت کو امریکی پنجۂ استبداد سے نکال لیا تو عالمی اسٹیبلشمنٹ اس کی بھی دشمن ہو گئی۔شاید اسی لئے اب مغربی ذرائع ابلاغ کا ہدف عسکری قیادت ہو سکتی ہے۔اس نازک مرحلہ سے نکلنے کی خاطر فوجی اور سیاسی قیادت کو مل کر کام کرنا ہو گا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب نوآبادیاتی نظام کی بساط لپیٹ کر عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے چھوٹے ممالک کو منیج کرنے کا نیا استعماری سسٹم متعارف کرایا گیا تو پاکستان برطانوی غلامی سے نکلتے ہی غیر محسوس انداز میں نئی عالمی طاقت امریکہ کی نفسیاتی گرفت میں پھنستا چلاگیا؛ پچھلی سات دہائیوں سے ہماری قومی سیاست اور فیصلہ سازی کے عمل پر امریکی کنٹرول نے یہاں کے سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی ارتقا کو منجمد رکھا‘خاص کر پہلے منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد تو عملاً مملکت امریکی مفادات کی اسیر بن کر رہ گئی۔ بلاشبہ تخلیقِ پاکستان کے ابتدائی ایام میں ہمارا معاشرہ استعماری قوتوں کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات سے لبریز تھا۔ان دنوں یہاں سوشلسٹ‘ جمہوری نظریات کی حامل دائیں بازو کی جماعتوں کو مقبولیت حاصل تھی‘اس لئے مارشل لاء کے ذریعے پہلے یہاں معمول کے سیاسی عمل کو کنٹرول کرکے بائیں بازو کی جمہوریت نواز جماعتوں کوکچلا گیا ‘خان عبد الغفار خان کی سرخ پوش تحریک‘عطا اللہ شاہ بخاری کی احرار ‘ نیپ اور علامہ مشرقی کی خاکسارتحریک جیسی استعمار مخالف جماعتوں کے علاوہ مزدوروں اور ہاریوں کی ان تحریکوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا جن کا رجحان سیاسی‘سماجی اور اقتصادی آزادیوں کی طرف تھا۔ان دنوں یہاں صرف مغرب نواز لیڈر شپ کوکام کرنے کی اجازت تھی‘پاور پالیٹکس کا اجتماعی ڈھانچہ قومی سوچ کو ایک خاص سمت پہ مائل رکھنے کی خاطر منبر و محراب کے علاوہ ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لانے میں سرگرداں رہتا تھا۔اسی زمانہ میں رائے عامہ کی سطح پہ بائیں بازو کی جماعتوں اور لیڈرشپ کی پذیرائی روکنے کی خاطر یہاں وسیع پیمانے پہ ترقیاتی کاموں کے جال بچھا کر معاشی خوشحالی کا سوانگ رچایا گیا‘ لیکن سوچی سمجھی سکیم کے تحت اس ترقی کے ثمرات سے مشرقی پاکستان کو محروم رکھا گیا۔اسی دور میں امریکی تعاون سے منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیم بنے‘نہروں کے جال بچھائے گئے‘غیر معمولی صنعتی ترقی ہوئی اور سڑکوں کا وسیع نظام تشکیل دے کر ذرائع نقل حمل کو فروغ دیا گیا۔اُس وقت ملک کے پرائمری سکولوں کے طلبہ کو امریکن دودھ پلایا جاتا اور گھروں میں استعمال کیلئے کوکنگ آئل کے ایسے پیک مفت فراہم کئے جاتے جن کے گیلن پر پاک امریکہ دوستی کی علامات نمایاں نظر آتیں۔
انہی دنوں مقتدرہ نے علماکی مددسے سوشلزم کے خلاف ملک گیر پروپیگنڈا مہم چلائی اوراینٹی سوشلسٹ سیاسی بیانیہ کو پروان چڑھایا گیا۔اگرچہ یہ تراشیدہ تحریکیں عام آدمی کے دل و دماغ میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکیں لیکن ایوب خان کے دور میں مقتدرہ مغرب مخالف سیاسی لیڈرشپ کا قلع قمع کرنے میں ضرورکامیاب ہو گئی۔اسی دور میں کئی عظیم سیاسی لیڈر اور سینکڑوں سرفروش سیاسی کارکن تہہ خاک سلا دیے گئے۔بنگلہ دیش کو علیحدہ کرنے کی سکیم کو عملی جامہ پہنانے سے قبل بے وفا امریکیوں نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ بے مقصد جنگ میں الجھا کر پچھلے دس سالوں کے دوران ہونے والی معاشی ترقی کو برباد کر ڈالا تاکہ ابھرتا ہوا پاکستان معاشی خود کفالت کی منزل کبھی نہ حاصل کر پائے۔1965ء کی جنگ مملکت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ فیلڈ مارشل ایوب خان کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کا وسیلہ بھی بنی؛چنانچہ ایوبی اقتدار کے آخری ایام میں ان کے چہیتے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جب بغاوت کرکے جمہوری آزادیوں کا نعرہ لگایا تو سماج کے دل و دماغ میں جمہوری آزادیوں کی دبی ہوئی آرزوئیں پھر جاگ اٹھیں اور یوں لاکھوں لوگ دیوانہ وار ان کے گرد جمع ہوگئے۔اس سے قبل مشرقی پاکستان میں بھی اٹھنے والی سیاسی تحریکیں علاقائی و لسانی تعصبات کی لہروں پہ سوار ہو کر علیحدگی کی طرف گامزن ہو چکی تھیں‘اس لئے مقتدرہ کو وقتی طور پر پیپلزپارٹی کی مقبولیت سوٹ کر گئی ‘ انہوں نے اپنے روایتی طریقوں کو استعمال کرکے نہ صرف پیپلزپارٹی کو مقبولیت کی معراج تک پہنچایا بلکہ ذوالفقارعلی بھٹو کی سحرانگیز شخصیت کے ذریعے سانحہ بنگال کے باعث پیدا ہونے والے مہیب سیاسی خلا کو پُر کرنے میں بھی کامیابی پائی۔سیاسی آزادیوں کا یہ عبوری مرحلہ ملک میں آئینی نظام کے قیام کے علاوہ قومی امور میں عام آدمی کی ذہنی شمولیت کا وسیلہ بنا تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی ذہنیت کے باعث جمہوری تمدن جڑ نہ پکڑ سکا اور جنرل ضیا الحق کے ذریعے نئے مارشل لاء کی راہ ہموار ہوئی۔
حیرت انگیز طور پر بظاہر امریکی مفادات کے تحت افغانستان میں لڑی جانے والی دونوں طویل ترین جنگوں میں عالمی قوتوں کی غیر متوقع ناکامیوں نے ایک بار پھر ہماری ریاست کو امریکی استعمار کے پنجۂ استبداد سے نکلنے کا خوبصورت موقع عطاکیا‘جس سے فائدہ اٹھا کر ہم ایک خود مختار قوم کی طرح اپنے سفر حیات کا آغاز کر سکتے ہیں۔اسی پس منظر میں دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ دو دہائیوں پہ محیط افغان جنگ میں اتحادی ہونے کے باوجود امریکی خفیہ ادارے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے تعاقب میں رہے ‘تاہم ہماری مقتدرہ ملکی مفادات کا دفاع کرنے میں کامیاب رہی۔واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں پہلی دراڑ اُس وقت پڑی جب2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا‘ لیکن تعلقات میں کشیدگی کے باوجود امریکی پاکستان کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل مواد کی حفاظت کیلئے کام جاری رکھنے پہ مائل رہے تاہم پیچیدہ تعلقات میں پاکستان زیادہ چست واقع ہوا‘بلکہ اسی کشمکش کے سائے تلے دیرینہ دوست چین کی انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری حاصل کرکے عالمی مالیاتی اداروں پہ اپنا انحصارکم کرنے میں کامیاب رہا۔چین کا کہنا ہے کہ اسے امریکیوں کو افغانستان سے نکلتے ہوئے دیکھ کر خوشی ہوئی‘اب اسے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو افغانستان تک وسعت دینے میں سہولت مل گئی‘ تاہم چینی قدرے محتاط ہیں۔ چینی کارکنوں کی دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکت افغانستان میں کسی مشکل سفر کا پیش خیمہ سمجھی گئی ‘تاہم طالبان جو پہلے سڑکوں اور ڈیموں کی تعمیر سے بیگانہ رہ کر آبادیوں پر کنٹرول رکھنے میں سرگرداں تھے‘اب انفراسٹر کچر اور اقتصادی ترقی کا ہدف پانے کیلئے چین کی سرمایہ کاری کو ویلکم کر سکتے ہیں۔لندن میں ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے انٹرنیشنل سکیورٹی ڈائریکٹر سجن گوہیل کے مطابق چین افغانستان میں سہولت کار کے طور پر پاکستان پر پورا اعتماد کرتا ہے۔مسٹر گوہیل نے کہا ''چینی بااعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ وہ طالبان سے مزید سکیورٹی گارنٹی حاصل کرلیں گے‘‘۔