"AAC" (space) message & send to 7575

اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ارتقائی ماحول

چند روز قبل پنجاب اور ملحقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے چند اہلِ قلم کو جنوبی پنجاب کی ابھرتی ہوئی جامعہ‘ اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کا مطالعاتی وزٹ کرایا گیا جہاں علم و آگاہی کی متضاد جہتوں کو سمجھنے کا نادر موقع ملا۔ بلاشبہ اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایسے متنوع تعلیمی ماحول کی نمائندگی کرنا چاہتی ہے جو نہ صرف علم و تحقیق کے عالمی سرچشموں سے وابستہ ہو بلکہ اپنے سماج کی اجتماعی دانش اور مقامی تہذیب و ثقافت کی آبیاری کا دوطرفہ فریضہ بھی سرانجام دے سکے۔ تیرہ سو ایکڑ پہ محیط اس عظیم درسگاہ نے اپنی آغوش میں 53 ہزار سے زائد طلبہ کوسنبھال رکھا ہے، ساڑھے بارہ سو اساتذہ ہمہ وقت محوِ تعلیم و تدریس ہیں جنہیں عملی زندگی میں بھی اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کی خصوصی اجازت دی گئی تاکہ یونیورسٹی کی فیکلٹی کو صرف کتابی علم ہی نہیں بلکہ زندگی کے عملی تجربات سے استفادہ کرنے کے مواقع بھی مل سکیں۔ بلاشبہ حقیقی سائنس کا منصب یہی ہے کہ وہ شعور کو عملی زندگی کے مختلف پہلوئوں پہ عائد کرنے کے طریقے بتائے۔ البتہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی‘ ایم فل اور بی ایس پروگراموں میں پڑھنے والے طلبہ کے تعلیمی معیار کی نگرانی کے طریقہ کار کے بارے میں کسی میکنزم کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ اگرچہ اعلیٰ تعلیم کے کثیر جہتی معیار کی پیچیدگیوں کو محض ایک نشست میں سمجھنا ممکن نہ تھا؛ تاہم فی الوقت دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیم کے معیارات کی نگرانی کے اصولوں پہ بحث جاری ہے تاکہ تیزی سے بدلتی دنیا میں تعلیمی معیار پر توجہ مرکوز رکھنے کے سسٹم میں تبدیلی ممکن بنائی جا سکے۔ یہ دلیل بھی دی گئی کہ معیار کی نگرانی کے دوران سٹوڈنٹس کی تعلیم متاثر ہوئی‘ اس لیے بہت سی خوبیوں کے باوجود اعلیٰ تعلیم کی کوالٹی مینجمنٹ کا کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بہت کم اثر پڑا۔ نئے طریقہ کار میں اکیڈمی کو درپیش سب سے اہم سوالات کو نظر انداز کردیا گیا جس میں فیکلٹی کی مدت، نصاب، ٹیوشن اور سکالرشپ کی مدد سے فیسوں کا تعین شامل ہے۔ ہمارے ماہرین کے پاس ان ایشوز کے بارے میں کہنے کوکچھ نہیں؛ چنانچہ تعلیمی ثقافت کی نوعیت اور اعلیٰ تعلیم کی صحیح وضاحت میں دشواری کی وجہ سے کئی مسائل جنم لینے لگے۔ عالمی سطح پر اعلیٰ تعلیم میں جس نوع کی تبدیلیاں آرہی ہیں اُن کا باریک بینی سے تجزیہ درکارتھا لیکن ہماری جامعات میں علمی حوالوں سے تنقیدی رجحان کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ اس یونیورسٹی نے پہلی بار یہاں نرسنگ مینجمنٹ سائنسز کا ایسا منفرد پروگرام متعارف کرایا، جس میں عالمی معیار کا پیرامیڈیکل سٹاف تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ بین الاقومی معیارکے مطابق ایک ڈاکٹرکے ساتھ 5 نرسز درکار ہیں، مجموعی طور پہ ہمیں 10 لاکھ پیرامیڈیکس کی ضرورت ہے لیکن ملک بھر میں سالانہ 30 ہزار ڈاکٹرز اورصرف 5 ہزار نرسز تیار ہو پاتی ہیں۔ مڈل ایسٹ میں چین اور انڈیا نرسنگ سٹاف کی فراہمی کے ذریعے بھاری زر مبادلہ کما رہے ہیں۔ بلاشبہ نرسنگ کا شعبہ بھی ان تبدیلیوں سے مستثنیٰ نہیں جنہیں عالمی مارکیٹ میں مسابقت کیلئے اپنانا ضروری ہے۔ نرسنگ کے تعلیمی عمل کی پیچیدگیوں اور اس کی ارتقائی تبدیلیوں کو حل کرنے کیلئے بھی مزید تحقیق کی ضرورت پڑے گی۔ مجموعی طور پر نرسوں کے علم اور مہارت سے متعلق ای لرننگ اور روایتی طریقوں سے سیکھنے کے درمیان کوئی شماریاتی فرق تو نہیں؛ تاہم ای لرننگ تعلیم کا ایسا متبادل طریقہ پیش کرتی ہے جس سے مستقبل کے اقدامات کا انتخاب کرتے وقت مواد کے واضح تصور کے ساتھ موزونیت کے تعین میں بھی سہولت ملتی ہے۔
یونیورسٹی میں تدریس کے علاوہ معاشرتی اصلاحات اور طلبہ کے سیرت و کردار کی تعمیر کیلئے50 سے زیادہ سٹوڈنٹس سوسائٹیز متعارف کرائی گئیں، جن میں آداب زندگی سے لے کر آرٹ، کلچر اور فنونِ لطیفہ کے عہدِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق مختلف زاویوں سے فلسفیانہ تجزیے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ ہرچند کہ یہ یونیورسٹی رینکنگ میں پاکستان کی بارہویں یونیورسٹی ہے؛ تاہم آئی ٹی سافٹ ویئر سلوشن اور نالج بیس اکانومی کی استواری سے انتظامیہ اسے دنیا کی پہلی100یونیورسٹیز کی فہرست میں جگہ دلانے کی تگ و دو میں سرگرداں ہے۔ فی الوقت اس کا سالانہ آپریشنل بجٹ 7 ارب روپے ہے، جس میں سے52 فیصد حکومت دیتی ہے۔ انتظامیہ کے مطابق اگلے سال تک یونیورسٹی کا آپریشنل بجٹ 10 ارب تک پہنچ جائے گا۔ امسال وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے یونیورسٹی کو 8 ارب روپے کی اضافی گرانٹ بھی فراہم کی گئی۔ لاریب! دور افتادہ تعلیمی ادارے کی اتنی وسیع پیمانے پہ مالی معاونت جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے تاثرکا ازالہ کر سکتی ہے۔ وائس چانسلر نے بتایا کہ دور دراز سے آئے طلبہ کیلئے رہائش کی مناسب گنجائش کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ نے نجی سیکٹر میں بنائے گئے ایسے ہاسٹلزمیں طلبہ کو رہائش کی اچھی سہولتیں دلانے کا ایسا بندوبست بھی کر رکھا ہے جن میں طعام و قیام کی معیاری سروسز فراہم کی جاتی ہیں، وہاں پک اینڈ ڈراپ سروس یونیورسٹی خود دیتی ہے، اِس سے 18 سو مقامی افراد کو روزگار میسر آیا ہے۔ 8 ہزار طلبہ کو احساس پروگرام کے علاوہ برٹش کونسل اور یو ایس ایڈ سے وظائف مل رہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں یونیورسٹی نے گجرات انڈسٹریزکے ساتھ مل کر یہاں سستی ماہر لیبر کی فراہمی کے ذریعے انڈسٹریل بوم لانے کے ایم او یوز پہ دستخط کیے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے دور افتادہ خطے کی تیزی سے ترقی پاتی اس عظیم درس گاہ کو پھلتا پھولتا دیکھ کے اتنی بات ضرور سمجھ آئی کہ محرومیوں کا واویلا کرنے کے بجائے اگر مقصد کا شعور، کام کرنے کی لگن اور زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت موجود ہو تو انسان نہ صرف اپنا حق لے لیتا ہے بلکہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے بھی نکل سکتا ہے۔ بیشک انسانی کامیابیوں کا مدار اس کی اپنی آرزوئوں کی توانائی میں مضمر ہوتا ہے۔ محض محرومیوں کا رونا رونے یا پھر اپنی ناکامیوں کا دوش دوسروں کو دینے سے مظلومیت کا طوق تو مل جائے گا‘ حقوق نہیں ملیں گے۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ ہر ترقی یافتہ قوم نے دنیا میں عزت کا مقام قوت بازو سے حاصل کیا۔ کنفیوشس کہتے ہیں: فطرت کوئی دعویٰ کیے بغیر اپنا فرض نبھاتی ہے، اگر تمہیں دانش و امن چاہئے تو فطرت کی مانند خاموشی سے کام کرنے کی عادت اپنائو۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جنوبی پنجاب کے جاگیردارانہ تمدن میں انتھک محنت کرنے والے پروگریسو ذہن جلا نہیں پا سکے بلکہ اس مغموم خطے میں مدت سے ایک افسردہ کن غلامانہ ذہنیت پروان چڑھتی رہی، وسیب میں جنم لینے والے زرخیز دماغ گھٹن کے ماحول کو ترک کرکے لاہور یا کراچی جا براجے، پیچھے فقط یاسیت پسند شاعر، حالات کا ماتم کرنے والے مایوس سیاسی کارکن یا پھر وہ ہوشیار وڈیرے رہ گئے، جو عام لوگوں کو تعصبات کی افیون کھلا کے بیکار بناتے رہے۔
سپائی نوزا نے کہا تھا ''کسی سے نفرت دراصل اپنی کم مائیگی کا اعتراف ہے، عالی ظرف اور بلند فکر رکھنے والے ہمیشہ عفو ودرگزر کی صفات سے بہرہ ور رہتے ہیں‘‘۔ بلاشبہ روح کی رفعت اس وقت مرجھا کے ذلت و خواری میں غرق ہو جاتی ہے، جب انسان فانی اور ناپائیدار دلچسپیوں کی لذتوں میں محو ہوکے لافانی قوتوں کی نشو و نما کو بالائے طاق رکھ دے۔ تاریخی دلچسپی کیلئے یہ تذکرہ ضروری ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں جن تین یونیورسٹیز کا سنگِ بنیاد رکھا، ان میں ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی کے علاوہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور شامل تھیں۔ بدقسمتی سے ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان کی یونیورسٹیاں تو روزِ اول ہی سے لسانی کشمکش کا اکھاڑہ بن کے انتظامی اور معاشی بحرانوں میں الجھ گئیں؛ تاہم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو اس کے منتظمین کی بہترین صلاحیتوں نے درست راہ پہ گامزن کرکے خطے کی تقدیر اور مقامی سماج کی سوچ ہی بدل ڈالی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں