آج یورپ کو ایشیائی لوگوں کی نقل مکانی کے علاوہ سیکولرازم اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والے خوشنما قوانین کی وجہ سے اجتماعی قومی وجود کو لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے پرانی سماجی وثقافتی روایات اوراُن مذہبی امتیازی رجحانات کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت درپیش ہے جوکبھی یورپی شناخت کی اساس بنی تھیں؛ تاہم ایسے میں خلیجی ریاستوں کی نوخیز نسلوں کو مذہبی رواداری اور غیر مسلموں کے ساتھ مخلوط معاشروں کی تشکیل جیسے انہی ملتبس اصولوں کا سبق پڑھایا جا رہا ہے جنہوں نے اہلِ یورپ کی امتیازی ثقافتی پہچان اورمضبوط مذہبی رجحانات کو کندکرکے انہیں بے شناخت ہجوم میں بدل دیا۔ اس وقت اماراتی نصابِ تعلیم میں امن اور رواداری کے بین الاقوامی معیارات پر مبنی ایسے مضامین شامل کیے جا رہے ہیں جو بظاہر دوسروں کے خلاف ''نفرت‘‘ سے پاک ہیں لیکن حقیقتاً وہ مسلمانوں اور عربوں کی امتیازی شناخت مٹانے کی اُسی سکیم کا چربہ معلوم ہوتے ہیں جس نے یورپ میں خاندانی نظام، سماجی ڈھانچہ اورمذہبی رجحانات کو تحلیل کرکے انہیں قوتِ مدافعت سے محروم کردیا۔ یہ تعلیمی نصاب' دی انسٹیٹیوٹ فار مانیٹرنگ پیس اینڈ کلچرل ٹالرنس اِن سکول ایجوکیشن (IMPACT)‘کے 128صفحات پر مشتمل مطالعہ سے اخذ کیا گیا۔ رپورٹ میں اماراتی نظام تعلیم کے تانے بانے میں غیر تنقیدی اطاعت کے اُس اصول پہ بحث کی گئی جو ''حب الوطنی‘‘ اور ''دفاع وطن کے عزم‘‘ سے معمور رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں اخوان المسلمون کے حامی عرب اساتذہ کی جگہ لینے والے مغربی باشندے مسٹر بوہل نے کلاس روم میں دیے گئے لیکچر میں کہا: تعلیمی اداروں میں جو سیاسی رویے بنتے ہیں اُن میں سے بعض کو نفاذکا موقع ملتا ہے۔ اگر بچے اخوانوں کی طرح سوچتے ہیں تو وہ لائن سے ہٹ کے حکومت کے لئے سیاسی خطرہ بن سکتے ہیں۔ وہ تنقیدی سوچ کی حدود اور اتھارٹی کے رویوں پرسوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا یہ رپورٹ محض نصابی کتب کے بجائے تعلیمی نظام کی تشکیل میں سرایت کر سکتی ہے؟آنے والی نسلوں کی تربیت کے ضامن نظام تعلیم کے بجائے صرف نصابی کتب کا جائزہ کافی تھا؟اِسی سے وہ اُس بحث کا آغازکرتے ہیں۔ نئی نصابی کتب امن و سلامتی کیلئے ایسا نقطہ نظر پیش کرتی ہیں جس میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد فلسطینی امنگوں کو حل کرنے والی جدوجہدکے محرک یعنی مذہبی بھائی چارے کی بہرصورت مخالفت شامل ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ''اگرچہ اب بھی فلسطینی کاز کی حمایت جاری ہے لیکن اب اسے علاقائی چیلنجوں کی وسیع رینج کے حل کی کلید کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا‘‘؛ تاہم مسلمانوں کی اساسی عقیدے سے وابستگی اور اپنے یقین سے متصادم نظریات سے نفرت ہی فی الوقت بڑا''خطرہ‘‘ہے۔
دنیا بھر پہ امریکا کی تہذیبی بالادستی کا مشاہدہ کرنے والے محقق Roger Scrutonپہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جرمن محقق ''اوسوالڈ سپینگلر‘‘ کی ان پیشگوئیوں پہ دوبارہ غورکر رہے ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ ہر تاریخی سپرآرگنزم ثقافت کے ذریعے اپنی متعین روح کو ظاہر کرتا ہے، مغرب کے اس ''فاؤسٹین‘‘ جس میں سائنس‘ آرٹ‘ دنیا کی اصلاح کی خاطر باہرنکلنے اور فتح کرنے والا رویہ شامل ہے‘ نے روشن خیالی کے ذریعے خود کودور تک پھیلایا لیکن آخرکار وہ خود بحران کے کنارے آن پہنچا۔ سپینگلر کو پڑھنے والوں نے دیکھا کہ اس کا ثقافتی مایوسی کا برانڈ دوسری جنگ عظیم شروع ہوتے ہی رفتار پکڑکے جنگ کے بعد کی ادبی دنیا پر مسحور کن اثر ڈالنے کے قابل ہو گیا۔ آر سکروٹن کہتے ہیں: سپینگلر کی پیشگوئی یقینی طور پر درست ثابت ہوئی، زوال یورپی ثقافت کا مقدر ہے، اب جس ثقافت کے اردگرد قوانین اور بیوروکریٹک ڈھانچے کا مضبوط حصار قائم ہے‘ وہاں کبھی آرٹ اور مذہبی شکوہ جلوہ گر تھا۔ وہ کہتے ہیں: مجھے ان دونوں باتوں میں کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کوگہرے خطرات لاحق ہیں اور یورپی یونین ان خطرات کو سمجھنے میں ناکام ہوگی۔ اندر اور باہر سے اٹھنے والے خطرات باہم جڑے ہوئے ہیں‘ اندر سے ہمیں اپنی مسلم آبادی کی اسلام سے گہری وابستگی اور یورپی معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کے انہدام جیسے خطرات درپیش ہیں‘ جس میں خاندان، شادی، مذہبی عقائد سے انحراف اور انہی اقدار سے بنے روابط سے بیزاری اور باہر سے ہم لاگت کو سنبھالے بغیر یورپی قانونی نظام کے فوائد کی تلاش میں نقل مکانی کرکے آنے والوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔
بلاشبہ مڈل ایسٹ میں سیاسی انتشارپیدا کرنے والی تحریکیں بانجھ نہیں ہیں۔ جدید تاریخ کا یہی سبق ہے کہ انقلابی تحریکیں تب مستحکم ہوتی ہیں جب وہ اپنی افراتفری پڑوسیوں کو منتقل کرسکیں۔ یورپ کے پاس مسلح یلغار کے خلاف تو دفاع ہے لیکن بغیر ہتھیاروں کے حملہ کرنے والوں کے خلاف کوئی دفاعی نظام موجود نہیں۔ ہمارے لیے اہم سوال یہی ہے کہ ان خطرات سے نمٹنے کے لئے مذہب اور اس کی گود میں پروان چڑھنے والی ثقافت کو پہنچنے والے نقصان کا تدارک کیسے کیا جائے؟ اب تو ان سوالات پر بحث کرنا بھی دشوار ہے۔ یورپی یونین نے سرکاری دستاویزات سے عیسائی مذہب اور اس کی اخلاقی میراث کے تمام حوالوں کو مٹا دیا ہے، یورپی عدالت برائے انسانی حقوق اورعدالت انصاف کے سامنے لائے جانے والے مقدمات ہم جنس پرستوں کی شادی، آسان طلاق اور اسقاطِ حمل کی اجازت دینے والے فیصلے‘ پورے براعظم میں عوامی مقامات پر صلیب پر پابندی اورسکولوں میں عیسائی مذہب کی تعلیم کو کم کرنے کے قوانین کے طورپہ سامنے آئے۔ اسی طرح سیکولرگروہ یورپی عدالتوں کو قومی ریاستوں پر اپنا نظریہ مسلط کرنے کیلئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اس ''ڈی کرسچائنائزیشن‘‘ کو یورپی پارلیمنٹ کی بنیادی حقوق کی اُس ایجنسی کے ذریعے آگے بڑھایا گیا جس پہ قانون سازی کی تمام سطحوں پر انسانی حقوق کی وکالت کا الزام ہے۔ بنیادی حقوق کی یہ ایجنسی ''صنفی مساوات‘‘ کی حامی اور روایتی خاندانی نظام اور مذہب پر مبنی اخلاقیات کی مخالف ہے۔ یہی گروہ اسقاطِ حمل کو انسانی ''حق‘‘ کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے۔ یورپ تیزی سے اپنے مذہبی ورثے کو کھو رہا ہے، اور اس مقصد کے لیے اسے ''انسانی حقوق‘‘ کے خوشنما نعرے کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ اسے اب یورپ سمیت دنیا بھر میں ایک نئے ''مذہب‘‘ کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ میں اسے مذہب اس کیے کہتا ہوں کہ یہ واضح طور پر اُس عالمی نظریے کے خلا کو پُر کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا جو مذہب کو چھین لینے کے بعد پیدا ہوا‘ یعنی انسانی حقوق کا تصور، اخلاقی آرا اور قانونی اصول ایسی پالیسیاں ہیں جنہیں مذہب کے بغیرمعاشرے میں نظم و ضبط قائم کرنے کیلئے تیار کیا گیا لیکن یہ تصورات بذاتِ خود بے بنیاد ہیں۔ اگر آپ پوچھتے ہیں کہ مذہب کا امر و نہی کیا ہے تو آپ کو خدا کے نازل کردہ قوانین یا مذہبی سکول سے واضح جواب ملتا ہے۔ اگر آپ پوچھیں کہ انسانی حقوق اور فطری یا بنیادی آزادی کیا ہے‘ تو مختلف لوگوں سے متضاد جوابات ملتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تنازعات کے حل پہ کوئی کسی سے متفق نہیں۔ انسانی حق کے طور پر ''غیر امتیازی سلوک‘‘ کی تمام یورپی دفعات مزید پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں۔
امر واقع یہی ہے کہ تمام مربوط معاشرے امتیازی روایات پر مبنی ہیں لیکن یہاں غیر امتیازی قوانین دوسروں کیلئے مقامی یورپی کمیونٹیز کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہیں مگر اپنے لوگوں کو مراعات دینے سے منع کرتے ہیں اور تارکین وطن کو ہر قسم کے امتیاز کی اجازت دیتے ہیں۔ علی ٰہذاالقیاس، حقیقت میں ہم ان مذہبی تصورات کے خاتمے کا مشاہدہ کر رہے ہیں جنہوں نے یورپ کی اخلاقی اور قانونی وراثت کو بنیاد فراہم کی۔ ہم ان کی جگہ ایسا 'مذہب‘ لے بیٹھے جو فطری طور پر بے بنیاد ہے۔ کوئی نہیں جانتا اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔یورپ کے مقابلے میں امریکیوں کے پاس مشترکہ شناخت کا احساس موجود ہے۔ 19ویں صدی کے بہت سے یورپیوں کا خیال تھا کہ وہ اپنے آپ کو سوشلزم، نیشنلزم، کمیونزم اور مارکسزم کے نظریات سے منسلک کرکے مذہبی عقیدے کے زوال کی تلافی کر سکتے ہیں مگر یہ خیال یکسر غلط ثابت ہوا۔