یورپ اپنی کمزور ہوتی سماجی تنظیم اور دم توڑتی معیشت کی کوکھ سے نمودار ہونے والے مسائل کی وجہ سے جس قسم کے داخلی تضادات میں الجھتا دکھائی دیتا ہے‘اس سے نجات کیلئے اسے نیٹو کے فوجی اتحاد سے نکلنے کی ضرورت پڑے گی‘ لیکن امریکی مقتدرہ نیٹو کو مزید وسعت دے کر روس کے خلاف سدِجارحیت بنائے رکھنے کی خاطر نئے تنازعات کی آبیاری میں مفادات تلاش کرتی ہے۔ یوکرائن کا تنازع واشنگٹن کی اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے جس نے پہلے سے مضمحل یورپ کو بڑی جنگ کے دہانے پہ لاکھڑا کیا۔تاریخی دلچسپی کیلئے ا س بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مصراور لیبیا سے لے کر عراق تک پھیلے مشرق وسطیٰ کی اکثر ریاستیں سوشلسٹ نظریات سے متاثرہونے کی وجہ سے سوویت یونین کے قریب تھیں‘اسی زمانے میں روسی حکومت نے مصر میں دنیا کے سب سے بڑے اسوان ڈیم کی بنیاد رکھی لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل کے تحفظ کی خاطر بلادِ عرب چھوڑنے کے عوض مشرقی یورپ کو روس کے سپردکرنے کی پیشکش کی جسے کمیونسٹ قیادت نے بخوشی قبول کرکے اپنے حامی عرب مملکتوں کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا‘جس کے بعد وہ رفتہ رفتہ اسرائیل نواز امریکی بلاک میں شمولیت پہ مجبور ہوتی گئیں حتیٰ کہ روس نے اسوان ڈیم پہ جاری کام بھی ادھورا چھوڑ دیا‘جسے بعد میں امریکہ نے پایا تکمیل تک پہنچایا۔تاہم افغانستان میں روسی شکست کے بعد سوویت یونین کمزور ہوا تو وسطی ایشیائی ریاستوں کی مانند امریکی ایما پر مشرقی یورپ کی کمیونسٹ ریاستیں بھی روس سے علیحدگی اختیار کرنے لگیں‘ لیکن آج جب گردشِ ایام نے امریکہ جیسی سپرپاورکو بیس سالہ افغان جنگ کی بدولت کمزور کر دیا ہے تو روسی مقتدرہ ایک بار پھر مشرقی یورپ کی کھوئی ہوئی میراث کو اپنے حلقۂ اثر میں لانے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
روس قرونِ وسطیٰ کی سپر پاور رہا ہے‘ جس میں مشرقی یورپ کا بڑا حصہ شامل تھا لیکن 1991ء میں روسیوں اور یوکرائنیوں نے لسانی‘ تاریخی اور سیاسی طور پر راستے جدا کر لئے۔صدر پوتن اب بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ روسی اور یوکرائنی ہم نسل ہیں‘ تاہم یوکرائنی اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد یوکرائن 2005ء اور 2014ء میں دو انقلابوں سے گزرا‘دونوں بار روس سے وابستگی کو مسترد کرتے ہوئے یورپی یونین اور نیٹو میں شامل ہونے کی تگ و دو کرتا رہا۔پوتن‘ جو خاص طور پر اپنی سرحدوں کے قریب نیٹو اڈوں کے امکان سے نالاں ہیں‘ یوکرائن کے امریکہ کی قیادت میں ٹرانس اٹلانٹک اتحاد میں شامل ہونے کو سرخ لکیر عبور کرنے سے تعبیر کرتے ہیں‘تاہم یوکرائن کے 2014ء کے انقلاب نے بالآخر ماسکو کے حامی یوکرائنی صدر وکٹر یانوکووچ کو اقتدار چھوڑنے پہ مجبور کر دیا‘جس نے یورپی یونین میں شمولیت کا معاہدہ مسترد کر دیا تھا۔پوتن نے طاقت کے اسی خلا کو کریمیا کے ساتھ الحاق کیلئے استعمال کیا اور جنوب مشرقی صوبوں ڈونیٹسک اور لوہانسک میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کرکے مغرب نواز اشرافیہ کوالجھا کر اس تنازع کو یورپ کی گرم ترین جنگ میں بدل بیٹھا‘جس میں اب تک چودہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘جو نیٹو کی تحلیل کے حامی تھے‘کا پہلا مواخذہ کیف کو فوجی امداد اور اسلحے کی برآمدات کی معطلی کے باعث ہوا۔ان کے جانشین جوبائیڈن آنے والے ہفتوں میں یوکرائن میں مہلک ہتھیار اور مشیر بھیجنے کے متمنی ہیں۔اگرچہ بقائے باہمی کے تقاضے اس وقت یورپ والوں کو نیٹو سے نکل کر روس اور چین کے ساتھ اقتصادی اور فوجی وابستگیوں کی تشکیل پہ مجبور کرتے ہیں لیکن امریکی قیادت میں قائم نیٹو اتحاد سے نکلنے کے خطرات انہیں ایسی پیشقدمی سے روک لیتے ہیں۔
صدر پوتن ماسکو کے زیر قیادت اس آزاد تجارتی بلاک میں یوکرائن کی رکنیت کے شدت سے حامی ہیں جس کا آغاز 2000ء میں ہواتھا۔یوریشین اکنامک کمیونٹی (EAEC) نے کئی سابق سوویت جمہوریاؤں کو متحد کیا‘جسے امریکیوں نے یو ایس ایس آر کے دوبارہ جنم لینے کے پہلے قدم کے طور پر دیکھا۔43 ملین کی آبادی اور طاقتور زرعی اور صنعتی پیداوار کے ساتھ یوکرائن کو روس کے بعد EAEC(European Automobile Engineers Cooperation) کا سب سے ضروری عنصرسمجھا گیا لیکن کیف نے EAEC میں شامل ہونے سے انکار کرکے روسی قیادت کو مشتعل کر دیا۔ روس نے کہا کہ وہ اس بات پر اصرار کرے گا کہ مغربی حکومتیں 1999ء کے معاہدے کا احترام کرتے ہوئے دوسروں کی قیمت پر اپنی سلامتی کو مضبوط نہ کریں اور اس معاہدے سے انحراف ہی یوکرائن کے بحران کا سبب بنا۔اس سال الیکشن میں یوکرائنی صدر نے بھی کہا تھا کہ روس کے ساتھ فوجی تنازع صرف یوکرائن کو نہیں بلکہ پورے یورپ کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔کیف میں بورس جانسن سے ملاقات میں صدر زیلنسکی نے روس پر قابو پانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ ماسکو کے ساتھ یوکرائن کے تعطل میں آگے کیا ہونے والا ہے۔بورس جانسن نے کہا کہ وہ روس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کر رہے بلکہ ہم بڑی تعداد میں فوجیوں کی تعیناتی اورایسی کارروائیوں کو دیکھ رہے ہیں جو مکمل فوجی مہم سے مطابقت رکھتی ہیں۔روسی قیادت امریکہ کی یوکرائنی فوج کے ساتھ مشترکہ مشقوں اورہتھیاروں کی فراہمی کو یوکرائن کے زیر قبضہ علاقوں کو طاقت کے ذریعے دوبارہ حاصل کرنے کی ترغیب کا محرک اور نیٹو کے بعض ارکان کی جانب سے یوکرائن میں فوجی تربیتی مراکز قائم کرنے کو یوکرائن کے نیٹو میں شمولیت کے بغیرمشرقی یورپ میں فوجی قدم جمانے کی کوشش سمجھتی ہے؛چنانچہ جب یورپ کو کسی بڑی جنگ سے بچانے کی خاطر واشنگٹن نے ماسکو کو یوکرائن کے خلاف نئے روسی حملوں کے خطرے کو کم کرنے کیلئے ہتھیاروں کے کنٹرول اور اعتماد سازی کے اقدامات کی پیشکش کی توکریملن نے سرد جنگ کے مشرقی یورپ سے نیٹو افواج کی واپسی سمیت یہ ضمانت بھی مانگ لی کہ وہ کسی صورت کیف کی نیٹو میں شمولیت قبول نہ کریں۔
سرحدوں پر فوجیوں کی تعداد میں بتدریج اضافے کے پیش نظر یوکرائن کے صدر زیلنسکی نے مغرب سے مطالبہ کیا کہ وہ گھبراہٹ سے گریز کریں لیکن روس کے ممکنہ زمینی حملے سے خوفزدہ نیٹو اتحادیوں نے یوکرائن میں اضافی فوجی سازوسامان بھیج کرصورتحال کو مزید کشیدہ بنا دیا۔روس یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کے علاوہ روسی سرحدوں سے نیٹو فورسز کو نکالنے کا مطالبہ دہرا رہا ہے۔دسمبر میں صدر پوتن نے کہا تھا کہ روس ایسی ضمانتوں کا خواہاں ہے کہ مشرق کی طرف نیٹو کی مزید پیش قدمی اور ہتھیاروں کے ایسے نظام کی تنصیب روک دی جائے جو روسی سرزمین کیلئے خطرہ بن سکتی ہیں۔صدرپوتن نے مغرب کو اس مسئلے پر ٹھوس بات چیت کی پیشکش کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ محض زبانی یقین دہانیاں نہیں بلکہ ''قانونی ضمانتوں‘‘ کا طلبگار ہے۔اگرچہ نہ تو ماسکو اور نہ ہی مغربی طاقتوں نے اس ردعمل کی تفصیلات منظر عام پر لائیں لیکن یہ واضح ہے کہ روس کے بنیادی مطالبات یوکرائن پر نیٹو کا رکن بننے پر پابندی اور یہ وعدہ لینا ہے کہ اتحاد مشرق یورپ میں مزید فوجی توسیع نہیں کرے گا۔نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے دسمبر میں یوکرائن کے ساتھ 2008ء کے اس وعدے کو منسوخ کرنے کے روسی مطالبات کو مسترد کر دیا تھا جس کے تحت اسے نیٹو کا رکن بنانا مقصود تھا۔سٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ جب اس معاملے پر غور کا وقت آئے گا تو روس یوکرائن کے الحاق کو ویٹو نہیں کر پائے گا۔تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیٹو کے پاس مشرقی یورپ میں فوجی قدم جمانے اور ماسکو سے تعلقات مزید خراب کرنے کی گنجائش نہیں اس لئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی طرف سے نیٹو میں یوکرائن کی رکنیت کی حمایت کے باوجود صدر جوبائیڈن اسی سوال کا واضح جواب دینے سے ہچکچاتے ہیں۔یہ معلوم نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑے گی یا نہیں لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ روس یوکرائن پر تیزی سے فیصلہ کن فتح پانے کے باعث نیٹو کی توسیع اور اثر و رسوخ بارے مستقبل کی بات چیت میں سودے بازی کی طاقت کو بڑھا لے گا۔
مغربی ممالک بظاہر یوکرائن کی حمایت پہ مائل ہیں‘ ماسکو کو قابو کرنے کی خاطر اقتصادی پابندیوں بارے میں بھی سوچا جا رہا ہے۔امریکہ اور یورپی اتحادیوں نے یوکرائن میں فوج کشی کی صورت میں روس کو بینکنگ ٹرانزیکشن کے نظامSWIFT سے کاٹنے کا عندیہ دیا ہے۔اس اقدام سے روس تیل اور گیس کی پیداوار سے ہونے والی آمدنی‘جو ملک کی کل آمدنی کے 40 فیصد سے زائد ہے‘سے محروم ہو سکتا ہے‘ تاہم روسی صدر نے یورپ کو گیس کی سپلائی روکنے کی دھمکی دے کر صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔