"AAC" (space) message & send to 7575

یوکرین جنگ، عالمی نظام کا مستقبل؟

یوکرین پہ روسی حملے کے نتائج کیا ہوں گے ‘ اس سے قطع نظر ‘ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کیف پر روسی فوج کی یلغار نے دوسری جنگ عظیم کے بعد تشکیل پانے والے اس عالمی نظام کی چولیں ہلا ڈالیں‘ جس میں بڑی طاقتوں نے دنیا کے تمام وسائل پہ قبضہ کرکے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کی بحالی کو جواز بنا کے چھوٹے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے علاوہ مالیاتی امداد اور قرضوں کے جال میں جکڑکر انہیں نئے سسٹم کا اسیر بنا لیا۔ تازہ ترین روسی حملے نے عالمی منظر پہ چھائے جمود کو توڑ کر جس نئے عہد کی بنیاد رکھی ہے اس میں یورپ اور امریکہ اپنی بالادستی برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ عالمی طاقتیں خود اس فرسودہ بندوبست کی تحلیل چاہتی تھیں یا نئی صورتحال مکافات کے تحت وقوع پذیر ہوئی ‘تاہم یوکرین کے تحفظ بارے امریکہ اور نیٹو ممالک کی بے بسی نئے افق کا پتہ دیتی ہے۔
جمعرات 24 فروری کی صبح روس نے یوکرین میں فوجیں داخل کرکے دہائیوں بعد یورپی ممالک کو ایسے بڑے فوجی تنازع کی طرف دھکیل دیا جو عالمی سیاست کا تناظربدل دے گا۔مغربی اشرافیہ اپنے تمام تر دانشورانہ شکوہ کے باوجود یورپ کو مہلک جنگ کا میدان بننے سے بچا سکی نہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کا دفاع کر سکے ۔صدر جوبائیڈن کو''یقین‘‘ تھا کہ روس آنے والے دنوں میں یوکرین پر حملہ ضرور کرے گا لیکن انہوں نے اس تنازعے کے محرک مسائل کے حل کی طرف عملی قدم اٹھانے سے گریزکے ذریعے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کیا۔بلاشبہ یوکرین پہ روسی حملہ یورپ اور دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بحال کرنے کے علاوہ پوتن کوداخلی سیاسی میراث مضبوط بنانے کا موقع دے گی۔پوتن کیلئے یہ کوئی چھوٹی چیز نہیں کہ وہ یوکرین پہ قبضہ کرکے اپنی عالمی طاقت کی حیثیت دوبارہ حاصل کر لے۔صدر پوتن نے مطالبہ کیا کہ نیٹو مشرق کی جانب توسیع روکنے کے علاوہ یوکرین کو نیٹو میں رکنیت دینے سے باز رہے بلکہ یورپی ممالک1997ء کے بعد نیٹو میںشامل ہونے والے ممالک سے فوجیںواپس بلائیں‘جس سے یورپ کو دہائیوں پہ مشتمل پیشقدمی اور جغرافیائی سیاسی صف بندی سے پیچھے ہٹنا پڑتا اور یہ پسپائی روس کی نہ صرف یوکرین پہ دوبارہ تصرف بلکہ مشرقی یورپ میں روسی سکیورٹی ڈھانچے کوبحال کرنے کا موقع فراہم کرتی؛ چنانچہ توقع کے مطابق امریکہ اور نیٹو نے روسی مطالبات مسترد کر دیے حالانکہ امریکہ‘نیٹو اور روس تینوں جانتے ہیں کہ یوکرین مستقبل قریب میں نیٹو کا رکن نہیں بن سکتا۔امریکی خارجہ پالیسی کے ممتاز مفکرین کہتے ہیں کہ سرد جنگ کے اختتام پر نیٹو کو روس کی سرحدوں کے قریب نہیں جانا چاہیے تھا لیکن نیٹو کی کھلے دروازے کی پالیسی کہتی تھی ''خودمختار‘‘ممالک اپنے لیے سکیورٹی اتحاد کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ان کا خیال تھاکہ پوتن کے مطالبات کو تسلیم کرنا کریملن کو نیٹو کی فیصلہ سازی اور اس کے ذریعے براعظم کی سلامتی پر ویٹو کا اختیار دینے کے مترادف ہو گا‘تاہم یوکرین پہ روسی حملے کے بعد اب دنیا دیکھ اور انتظار کر رہی ہے کہ جنگ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ صرف یوکرین کیلئے نہیں بلکہ باقی یورپ اور پورے مغرب کیلئے تباہ کن نتائج کی حامل ہوگی۔عام خیال یہی ہے کہ موجودہ بحران کی جڑیں سوویت یونین ٹوٹنے سے پروان چڑھیں۔نوے کی دہائی کے اوائل میں جب سوویت یونین بکھرا تو سابق سوویت جمہوریہ یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا تیسرا بڑا ذخیرہ تھا‘امریکہ اور روس نے جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کیلئے یوکرین کے ساتھ مل کے کام کیا‘سفارتی معاہدوں کی لمبی سیریز کے تحت کیف نے اپنے سینکڑوں جوہری وار ہیڈز سلامتی کی یقین دہانیوں کے بدلے روس کو واپس کر دیے‘ تاہم یہ یقین دہانیاں 2014ء میں اس وقت کافور ہو گئیں جب روس نے داخلی سیاسی شورش کو جواز بنا کے یوکرین پر پہلا حملہ کیا۔روس نے جزیرہ نما کریمیا سے الحاق اور مشرقی ڈونباس کے علاقے میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی قیادت میں ابھرنے والی بغاوتوں کی پشت پناہی بھی شروع کردی۔بظاہر روس کے پہلے حملہ کا محرک یوکرین میں بڑے پیمانے پر ہونے والے وہ مظاہرے بنے جن کے ذریعے روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت کا تختہ الٹا گیا ‘تاہم صدر بارک اوباما روس کے ساتھ کشیدگی بڑھانے سے گریزاں رہے۔اگرچہ وہ یورپ میں سفارتی مساعی کو متحرک نہ کر سکے لیکن انہوں نے یوکرین کو بھی ہتھیار فراہم نہ کئے۔پوتن اور کریملن سمجھتے تھے کہ یوکرین اگرچہ نیٹو کا حصہ نہیں لیکن کیف بغیر کسی رسمی فیصلے کے نیٹو کا رکن بن چکا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ پوتن کو یوکرین کا یورپی یونین اور نیٹو کی طرف جھکاو ٔاپنی قومی سلامتی کیلئے خطرہ نظر آیا۔یوکرین اور جارجیا کے نیٹو میں شامل ہونے کے امکان نے اس وقت پوتن کوچوکنا کر دیاجب سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے 2008ء میں اس خیال کی حمایت کا اظہار کیا تھا‘یہی حقیقی غلطی تھی جس نے یوکرین اور جارجیا میں ایسی توقعات پیدا کیں جوکبھی پوری نہ ہوئیں اور اسی نے مشرق کی جانب نیٹو کی توسیع کے معاملے کوپیچیدہ بنا دیا۔حقیقت یہی ہے کہ کوئی بھی ملک تمام 30 رکن ممالک کی متفقہ رضامندی کے بغیر اتحاد میں شامل نہیں ہو سکتا‘ اوراب بھی نیٹو کے کئی ممالک یوکرین کو رکنیت دینے کی اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ یہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔
یورپی سیاست کے ماہرین کہتے ہیں کہ روس یوکرین تنازع 2014 ء میں شروع ہونے والے بحران کا تسلسل ہے لیکن یوکرین‘ امریکہ‘ یورپ اور روس کے اندر حالیہ سیاسی پیش رفت اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد دیتی ہے کہ پوتن کیوں محسوس کرتا تھا کہ اب کارروائی کرنے کا وقت آ گیا۔ان پیش رفتوں میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا انتخاب بھی شامل تھا۔ایک مزاحیہ اداکارجس نے ٹی وی پر صدر کا کردار ادا کیا اور پھر حقیقی صدر بن گیا‘جس نے انتخابی مہم کے دوران مشرقی یوکرین میں تنازع کو ختم کرنے کیلئے بشمول مذاکرات کے پوتن کے ساتھ براہ راست ڈیل کا وعدہ بھی کیا۔روس نے بھی ممکنہ طور پر اس سیاسی نوخیز کو کسی ایسے شخص کے طور پر دیکھا جو اُن کے نقطہ نظرسے مفید تھا۔روس چاہتا ہے کہ زیلنسکی 2014-15ء کے ان معاہدوں پر عمل کرے مگر زیلنسکی نے روسی دباؤ کے خلاف مدد کیلئے مغرب کا رخ کیا اورنیٹو میں شمولیت بارے کھل کے بات کی۔اس سے روس کو ایسا محسوس ہواجیسے اس نے یوکرین کو واپس لینے کیلئے اپنے تمام سیاسی اور سفارتی آلات کھو دیے؛چنانچہ ماسکو کی سکیورٹی اشرافیہ نے کچھ کرنے کی ٹھان لی اور اگر وہ تاخیر کرتے تو نیٹو اور یوکرین کے مابین فوجی تعاون زیادہ مضبوط اور پیچیدہ ہو جاتا۔پوتن نے 2021ء کے موسم بہار میں یوکرین پر ایک بار پھرحملہ کرکے یورپ و امریکہ کا ردعمل جانچنے کی کوشش کی‘سرحدوں پہ روسی فوج کی تشکیل نے نئی بائیڈن انتظامیہ کی توجہ حاصل کر لی‘بعد میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات بھی ہوئی لیکن کچھ دن بعد روس نے سرحد پرمزید فوجیں اتار دیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ کے بارے پوتن کا نقطہ نظر بدل چکا ہے۔ان کے نزدیک افراتفری میں افغانستان سے انخلا اور امریکہ کا داخلی انتشار کمزوری کی نشانیاں ہیں۔پوتن دنیا میں امریکہ کے کردار پر یورپ کو بھی منقسم دیکھ رہا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ کے وقت پیدا ہونے والے عدم اعتماد سے قطع نظر بائیڈن اب بھی ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کوباقی رکھنا چاہتے ہیں لیکن جوبائیڈن کی کچھ سفارتی غلطیوں نے یورپی شراکت داروں کو نالاںکر دیا خاص طور پر افغانستان سے انخلا اور جوہری آبدوزوں کا معاہدہ ‘جو برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ کیا گیا‘نے فرانس کو چوکس کر دیا۔یورپ کے اندرونی اختلافات بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔پورا یورپ اوربرطانیہ اب بھی Brexit کے نتائج سے نمٹنے میں الجھا ہوا ہے۔جرمنی میں انگیلامرکل کے 16 سال بعد نئے چانسلر اولاف شولزکی مخلوط حکومت تاحال خارجہ پالیسی بنانے میں مشغول ہے۔جرمنی بھی دیگر یورپی ممالک کی طرح روسی قدرتی گیس درآمد کرتا ہے اور اس وقت توانائی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔فرانس میں اپریل میں انتخابات ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروںمذاکرات میں اپنے لئے جگہ بنانے کیلئے کوشاں ہے۔یورپ کی یہی تقسیم جسے واشنگٹن بھی برقرار رکھنا چاہتا ہے‘پوتن کو حوصلہ دے گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں