"AAC" (space) message & send to 7575

امریکا جنگ سے کیوں بچنا چاہتا ہے؟

روسی فوج کی پیش قدمی کے باوجود یوکرین کی تسخیر کا مشن خاص قسم کی سٹریٹیجک تاخیرمیں ڈھلتا دکھائی دیتا ہے۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق فریقین کے مابین بات چیت کے باوجود روسی فورسز دارالحکومت کیف سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر پہنچ چکی ہیں۔روسی فضائیہ نے پولینڈ کی سرحد کے قریب خفیہ ٹریننگ کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روس کی اشرافیہ،امریکا اور نیٹو کے فوجی ردعمل کی منتظر ہے۔ پراسرار طور پر اب یوکرینی صدر زیلنسکی نے بھی نیٹو سے زمینی اور فضائی مدد مانگنے کی التجائیں بند کر دی ہیں۔ ادھر جوبائیڈن انتظامیہ براہِ راست جنگ میں الجھنے سے بچنے کی خاطر نئی حکمت عملی کی متلاشی ہے۔ مغربی تجزیہ کار اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ نے نائن الیون کے بعد امریکی خارجہ پالیسی پہ جامع نظرثانی کا ایسا احساس پیدا کیا ہے جس نے امریکا کے عالمی مشن کو نئے رجحانات دے کر اتحادیوں اور مخالفین کے ساتھ یکساں سٹریٹیجک تعلق رکھنے کی راہ دکھائی۔
اگرچہ مغربی میڈیا یوکرین پہ روسی یلغار کو امریکا کیلئے یورپ کے ساتھ مضبوط روابط اورایشیائی اتحادیوں سے تعلقات مزید گہرے کرنے کے علاوہ چین،ایران اورشمالی کوریا جیسے حریفوں سے تنازعات کی ازسر نو صف بندی کا موقع قرار دے رہا ہے لیکن حالات کا بہائو امریکی ارادوں کے برعکس ہے۔ یورپ محض یوکرین کے تحفظ کیلئے روس کے خلاف بڑی جنگ لڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔اس سوچ کی جھلک یورپی یونین پارلیمنٹ کی خاتون ممبر کلیئرڈیلی کے اس جذباتی خطاب میں نمایاں نظر آئی جس میں اس نے نہایت بیباکی کے ساتھ سفید فاموں کے چہرے سے نقاب سرکایا۔ سعودی عرب اور یو اے ای نے بھی صدر بائیڈن کی درخواست کے باوجود یوکرین کے بحران میں فریق بننے سے انکارکر دیا،پاکستان‘حتیٰ کہ بھارت جیسے امریکی اتحادی نے بھی روس کے خلاف پوزیشن لینے سے انکار کرکے واشنگٹن کی قائدانہ حیثیت کو گزند پہنچائی ہے۔
افغانستان سے مایوس کن امریکی انخلا کے چند مہینوں بعد روس کے ساتھ نئی الجھن بدترین مصائب اور اندرونی خلفشارکے ہمراہ آئی ہے جس نے امریکا کو اپنی طاقت کی حدود متعین کرنے اور خارجہ پالیسی کے اصولوں کو بدلنے پہ مجبور کردیا ہے۔ اوباما انتظامیہ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر بینجمن جے روڈس کہتے ہیں ''ہم یقینی طور پر نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں،نائن الیون کے بعد کی جنگ دہشت گردی کے عواقب و زوال ہمارے پیچھے ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم نہیںآگے کیا ہو گا‘‘۔ تاہم اس کے باوجود حالیہ ہفتوں میں امریکی حکام 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد گونجنے والے عظیم اعلانات کی جگالی کرتے سنائی دے رہے ہیں۔ جمعہ کے روز امریکی صدربائیڈن نے کہا ''آزاد دنیا اکٹھی ہو رہی ہے‘‘۔ یہ جملہ جارج ڈبلیو بش کی اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ کس طرح ''پوری آزاد دنیا‘‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اکٹھی ہوئی تھی لیکن یہ مایوس کن پکار امریکا کیلئے چین کے صدر شی جن پنگ کو روسی صدر پوتن سے دور کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی فرسودہ ترغیب کے سوا کچھ نہیں۔یہ کھوکھلی مساعی ممکنہ طور پر روس کے خلاف مغربی پابندیوں کو کچلنے پہ آمادہ چینی صدر کی سفارتی اور اقتصادی لائف لائنز پہ اثرانداز نہیں ہو پائے گی۔
اسرائیلی لابی کو خدشہ ہے کہ یورپ پر دوبارہ توجہ مرکوز ہونے سے لامحالہ ایشیا سے امریکی توجہ ہٹ جائے گی،شاید اسی لیے گزشتہ روزعراق میں امریکی کونسل خانے پہ راکٹ داغ کے امریکی مقتدرہ کی توجہ ایشیا کی طرف مبذول کرائی گئی۔ پوری دنیا کی طرح‘ اسرائیلی گورنمنٹ بھی اپنی توجہ مشرقی یورپ پر مرکوز کیے بیٹھی ہے کیونکہ یہ جنگ یورپ کو ایسے عدم استحکام سے دوچار کر سکتی ہے جس میں اسرائیل کی بقا کے اسباب گم ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ ویانا میں ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کا مرحلہ بھی سر پہ آن پہنچا ہے جو اسرائیل کی سلامتی کیلئے یوکرین کے تحفظ سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ جس طرح یورپی اشرافیہ اس وقت یوکرینی صدر ولادیمیرزیلنسکی کے روس کے ساتھ تنازع کوبڑھانے کی وضاحت تلاش کرنے میں مصروف ہے‘ اسی طرح اسرائیل کا قومی میڈیا بھی اس وقت روس اور ایران کے مابین بڑھتے ہوئے تعلق کا توضیح کا طلبگار ہے۔ افغانستان اور عراق میں امریکی جنگوں کے اختتام کے ساتھ دنیا کیلئے امریکا کا نقطۂ نظر پہلے ہی سے تبدیلی کے عمل سے گزر رہا تھا،جنگوں سے اکتائے ہوئے امریکیوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیرونِ ملک فوجی مہمات کو کم کرنے کی تجاویز کا خیرمقدم کیا تھا‘جنہوں نے نیٹو کی مطابقت پر سوال اٹھائے تھے اور اتحاد سے دستبرداری کیلئے چھیڑ چھاڑ کی تھی؛ تاہم صدر بائیڈن نے چین سے مقابلہ کرنے کے نام پر نیٹو اتحاد کو دوبارہ منظم کرنے کی ٹھانی ہے اور روسی حملے نے اس مشن کو ڈرامائی طور پر بڑھاوا دیا ہے۔
کچھ قابلِ ذکر استثنا کے ساتھ‘ پچھلے چند ماہ میں یوکرین ایشو کے حوالے سے مغرب میں کسی متبادل نقطۂ نظر کو دیکھے بغیر پورے یقین کے ساتھ اس رائے کو قبول کر لیا گیا کہ یہ سب روسی صدر پوتن کی غلطی ہے‘ گویا روس کی بیان کردہ شکایات کی کوئی قانونی یا منطقی بنیادیں نہیں؛ چنانچہ نیٹو اور امریکا کو یوکرین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے لیکن جب روس نے حملہ کیا تو امریکا اور نیٹو کی طرف سے بیان کردہ عزم کی سطح اور اتحاد کی طرف سے اختیار کردہ سفارتی پوزیشن کے مابین حیران کن تفاوت سامنے آیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے واضح کیا کہ واشنگٹن یوکرین میں لڑنے کیلئے فوج نہیں بھیجے گا۔ چند سفارتی ہتھکنڈوں کے علاوہ امریکا یوکرین جنگ لڑنے کو تیار نہیں۔ یہ اس امر کا اعتراف ہے کہ یوکرین کی جنگ میں امریکا کاکوئی مفاد نہیں۔ اس کے برعکس روس نے روزِ اول ہی سے واضح کر دیا کہ وہ اپنے بنیادی مقصد کے حصول کیلئے طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرے گا اور اس کا مقصد یوکرین کونیٹو میں شمولیت سے روکنا ہے۔ روس 2014ء میں بھی اسی مقصد کی خاطر لڑا تھا۔
اس وقت ایک بڑی زمینی جنگ مغرب کو للکار رہی ہے لیکن یورپ کا عزم مضمحل ہے یعنی جس تنازع کو روس اہم سمجھ کر لڑنے مرنے کو تیار ہے‘ وہ یورپ کیلئے اتنی اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ اسے لڑنے کے قابل سمجھے۔ بلاشبہ فوجی صلاحیتوں میں امریکا اور نیٹو مجموعی طور پر روس سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں لیکن دونوں کے عزم میں یہی واضح فرق فتح و شکست کا فیصلہ کرے گا۔ یوکرین ہمسایہ ہونے کی وجہ سے روس کی فضائی اور زمینی افواج کیلئے خطرہ بن سکتا ہے،یہ خطرہ یوکرین کی مستقبل کی جغرافیائی سیاسی صف بندی پہ منحصر ہے۔ یورپ اب بھی مصرہے کہ یوکرین کو نیٹومیں شامل ہونے کا حق حاصل ہے اور معیار پر پورا اترنے کے بعد اسے رکنیت مل جائے گی۔ یہ کوئی اٹل کائناتی قانون نہیں جسے تبدیل نہ کیا جا سکے۔ نیٹو یوکرین اور جارجیا کو اتحاد میں شامل کرنے کے 2008ء کے اعلان کو منسوخ کرکے اس جنگ کو ٹال سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ امر ناقابلِ فہم ہے کہ مغربی رہنما یہ کیسے سوچتے ہیں کہ وہ روس کو اس بنیادی مسئلے پر کچھ دیے بغیربحران کو ٹال سکتے ہیں۔ یہ سوچنا حماقت ہو گی کہ صدر پوتن یوکرین میں میزائل ڈیفنس ریڈار یا دیگر ہتھیاروں کی تنصیب کے بدلے معمولی رعایتوں پہ مطمئن ہو جائیں گے۔ جب مخالف کو میدان میں عسکری برتری حاصل ہو اور وہ اپنے مدمقابل سے زیادہ نتائج کی پروا کرتا ہو،تو تنازع کے حل کی خاطر کچھ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے۔ ایسے مواقع پر صحیح یا غلط نہیں‘ بلکہ تباہی سے بچنے کا سوال پیش نظر رہتا ہے۔ 'سٹریٹیجک ہمدردی‘کسی مخالف کی بالادستی قبول کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ اسے سمجھنے کا پیمانہ ہے تاکہ آپ مناسب جواب دے سکیں۔ بہرحال،نیٹو کی توسیع کے حوالے سے یورپ و امریکا کے عزائم کچھ بھی ہوں‘ اس بات کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ روسی رہنما شروع سے ہی اسے وجودی خطرہ سمجھتے تھے اور بار بار اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ امریکی سکیورٹی اشرافیہ خود تو دور دراز ممالک میں سکیورٹی کے معمولی سے مسائل کو بھی وجودی خطرات کے طور پر دیکھتے ہوئے سب کچھ کرگزرنے کو جائز سمجھتی ہے لیکن دوسروں کوحقیقی وجودی خطرات سے نمٹنے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں