بادی النظر میں قومی سیاست کے سمندر میں ابھرنے والے مدوجزر سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تشدد اور انارکی کے وجود سے نمودار ہونے والے سیاسی ماحول سے نجات کی خاطر ایک نئی جوابی انارکی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اگرچہ یہی جدلیات طاقت کے مراکز کو زیادہ مضبوط بنائے گی‘ لیکن اسی کشمکش کی کوکھ سے قومی امور سے جبراً بیدخل کئے جانے والے عناصر کو بھی پاور کاریڈورکے اندر واپس پلٹنے کی سہولت مل جاتی ہے؛چنانچہ عمران خان کی سہل انگاری کی بدولت سیاست کے اسی نئے تال میل نے متضاد مفادات کی حامل قوتوں کو عارضی سیاسی توازن پیدا کرنے پہ متفق کرلیا۔ بلاشبہ سیاست بھی سمندر کی طرح بالائی سطح پہ پُرشور لہروں کے باوجود سطح کے نیچے اپنے معمولات کو پرسکون رکھتی ہے۔اسی لئے ہمیں سیاسی خرابیوں اور جمہوری بدنظمی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ رائے عامہ انہیں بہت جلد ہموار بنا لیتی ہے۔
پچھلے ساڑھے تین سال کی حکومتی ناکامیوں کا جواز ہمیں اور کہیں نہیں صرف وزیراعظم عمران خان کے سیاسی رویوں اور انتظامی صلاحیتوں کے ناقص استعمال میں تلاش کرنا پڑے گا‘ جس نے مملکت کو چلانے جیسی بھاری ذمہ داریوں کو اپنی افتادِ طبع کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرکے ایک سنجیدہ ذمہ داری کو ایساکھیل سمجھ لیاجس میں فتح و شکست کا تصور محض نفسیاتی ہوتا ہے۔ ریاستی امور میں کامیابی اور ناکامی اپنے دور رس اثرات اور گہرے مضمرات رکھتی ہے‘اسی لئے ہماری ریاست معاشی بدحالی اور سیاسی تنازعات میں پھنستی چلی گئی‘پھرطاقتور منصب پہ براجمان کسی بھی شخص کی اصلاح ممکن نہیں ہوتی؛ چنانچہ کوششِ بسیار کے باوجود کہنہ مشق اپوزیشن اور انتہائی تجربہ کار مقتدرہ انہیں حکمرانی کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔اس لئے ملکی سیاست کے روایتی طریقوں کو بروئے کار لا کر ریاستی معاملات کو غیر پیشہ ورانہ سوچ سے نجات کی راہ نکالنا ناگزیر ہوتا گیا۔اگرچہ یہی لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جیسے آئینی عمل کو سیاسی تشدد کے ذریعے روکنے کی کوشش میں جمہوری اداروں کو نت نئی آزمائشوں میں ڈالیں گے لیکن امید ہے کہ عملاً کسی تصادم کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ سیاسی نظام میں ایسی تبدیلیاں ہمیشہ طاقت کی ایما پہ آتی ہیں‘جبکہ موجودہ سیاسی بحران کا بے قابو خطرات سے کوئی تعلق نہیں۔
توقع کے عین مطابق وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں اپنی حمایت کم ہو جانے کے خلا کو پُر کرنے کی خاطر دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک میں لاکھوں کا جم غفیر جمع کرنے کا اعلان کرکے دباو ڈالنے کا جو حربہ استعمال کیا‘اسی تعلّی نے اپوزیشن جماعتوں کو بھی ہزاروں لوگوں کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دے کر حکومت کا محاصرہ کرنے کی ترغیب دی۔ اپوزیشن کی لیڈر شپ تو پہلے ہی وزیراعظم عمران خان کو قومی معیشت کی بدحالی‘گورننس کی ناکامی اور خارجہ پالیسی کو غلط مینج کرنے اور عوام کو مہنگائی کے دلدل میں اتار کر ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے باعث اقتدار چھوڑنے کا کہہ رہی تھی‘ لیکن اب حکمران جماعت کے اپنے اراکینِ اسمبلی بھی خان صاحب کو سیاسی اور معاشی پالیسیوں کی ناکامیوں کا دوش دینے لگے ہیں۔حکومت کو چھوڑنے والوں میں صرف ''الیکٹ ایبلز‘‘ ہی شامل نہیں بلکہ نجیب ہارون جیسے پی ٹی آئی کے بانی اراکین بھی شامل ہیں۔
ہماری پارلیمانی اپوزیشن تین بڑی جماعتوں پر مشتمل ہے‘ جن میں (ن)لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کو ایوان زیریں میں تقریباً 163 ارکان کی حمایت حاصل ہے‘ جبکہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بنانے کیلئے 172 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہو گی۔ اطلاع کے مطابق حکمران جماعت کے 34کے لگ بھگ منحرف اراکین نے پارٹی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ووٹ کاسٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے‘گویا اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم کو ووٹ کی طاقت سے بے دخل کرنے کی کوشش میں کامیاب ہورہی ہے‘جس کی نوبت تحریک عدم اعتمادپر ووٹنگ کی صورت میں اسی مہینے کسی وقت آسکتی ہے۔
ابتدا میں اسلام آباد کی انتظامیہ نے عدم اعتماد کی تحریک کا جواب تشدد کی دھمکیوں اور پارلیمنٹ کے دو اراکین کو مختصر طور پر حراست میں لے کر کیا‘ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریوں کی نقل و حمل کی آزادی کو گزند پہنچنے اور امن عامہ قائم رکھنے میں غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم جاری کرکے سرکاری اہلکاروں کی دست درازی کی راہ روک لی‘ تاہم اس کے باوجود بعض تجزیہ کار صورتحال کو خطرناک تصادم کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کی اولین ذمہ داری یہی ہے کہ وہ آئین کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک پر دھمکیوں یا تشدد کے بغیر ووٹنگ کا عمل یقینی بنائے۔حکمران پارٹی کی اتحادی جماعتوں کا جھکاؤ بھی اپوزیشن کی طرف دکھائی دیتا ہے‘کئی تجربہ کار سیاستدانوں نے اپنے تجزیہ میں ان چار اتحادی جماعتوں‘جن کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں کل 20 نشستیں ہیں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عمران خان کی حمایت سے دست کش ہو چکی ہیں۔ اتحادی جماعتوں کی حمایت کے بغیر‘خان صاحب کی پارٹی‘جس کی قومی اسمبلی میں 155 نشستیں ہیں‘ اپنا اقتدار برقرار نہیں رکھ پائے گی۔خان صاحب کی اتحادی جماعتوں (ایم کیو ایم‘بلوچستان کی بی اے پی اور مسلم لیگ (ق)) کا کہنا ہے کہ وہ دیگر آپشنز پر غور کر رہی ہیں۔منگل کے روزخان صاحب کے اہم اتحادیوں میں سے ایک نے کہا کہ وزیراعظم کوعدم اعتماد کی تحریک کے دوران اپنے اتحادی شراکت داروں کو کھونے کا خطرہ درپیش ہے۔خان صاحب کے حکمران اتحاد میں شامل چار جماعتوں میں سے ایک کے سربراہ چوہدری پرویز الٰہی نے ایک نجی ٹی وی کی اینکر کے ساتھ انٹر ویو میں بتایا کہ خان صاحب سو فیصد خطرے میں ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں تاکہ خان صاحب کی حکومت گرنے کی صورت میں نئے بندوبست میں ان کی پارٹی کو مناسب حصہ مل سکے۔حزب اختلاف اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خان صاحب پاکستان کی اُن مقتدر قوتوں کی پشت پناہی سے محروم ہو چکے ہیں جن کی حمایت کو وہ ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے اقتدار حاصل کرنے کا بنیادی وسیلہ سمجھتے تھے ۔ اگرچہ خان صاحب اور مقتدرہ اس تاثر کی تردید کرتے ہیں لیکن حالات کی صرف ایک کروٹ نے بہت سے رازوں سے نقاب الٹ دیا۔نمبر گیم سے قطع نظر‘فریقین نے ووٹنگ سے قبل پارلیمنٹ کے باہر احتجاجی دھرنا دینے کی کال دے رکھی ہے۔
اس وقت پیراڈائم شفٹ کے ٹرانزٹ پیریڈ کی وجہ سے ایک تو ہماری مملکت داخلی سیاسی انتشار کو سنبھالنے میں دشواری محسوس کرے گی کیونکہ قومی ریاستوں سے بالاتر اتھارٹی کی عدم موجودگی ایسا خلا پیدا کر چکی ہے جسے پُر کرنے کیلئے ہمیں عالمی نظام کی تیزی سے بدلتی صورتوں سے ہم آہنگ رہنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔دوسرا عمران خان نے ذوالفقارعلی بھٹو کی مانند مغربی طاقتوں کو للکارنے کے جس مقبول بیانیہ کا سہارا لیا وہ مہلک اور غیرفطری ہے ۔بلاشبہ مطلق آزادی کا وجود اس دنیا میں کہیں نہیں پایاجاتا۔ جنہیں ہم عالمی قوتیں سمجھتے ہیں وہ بھی اپنی حدود سے آگے نہیں نکل سکتیں‘ اس لئے ہمیں آزادی کا وہ غیر فطری تصور فرض نہیں کرناچاہئے جسے قرون ِاولیٰ کی مطلق العنانی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جو بالآخر ہمیں ایسی کیفیت کی طرف لے جاتا ہے جو قانون کی حکمرانی یا فعال حکومت کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرتی ہے۔عام خیال تو یہی ہے کہ اقتدار کی منتقلی کا بحران اور بالادستی کی جنگیں اکثر ایک مرکزی اداکار کی طرف سے نظام کے اندر اپنی بگڑتی ہوئی پوزیشن کو برقرار رکھنے کی کوشش کے نتیجے میں بھڑکتی ہیں‘لیکن ریاستوں کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ میں حقیقت پسندوں کا پرائمری مفروضہ اور ممتاز مکتبہ فکر عالمی قانون کے تصور کو دراصل عملی طور پر ریاستوں کے رویہ پر کچھ براہ راست پابندیاں عائد کرنے کا حق دیتا ہے۔ جزوی طور پر اس کے نفاذ کا کوئی طریقہ موجود نہیں کہ سپر پاور یا ثالث کی غیر موجودگی میں‘خاص طور پر مضبوط ریاستوں کیلئے‘ قابلِ عمل طرزِ عمل کا کوئی بنیادی اصول متعین کیا جا سکے۔