"AAC" (space) message & send to 7575

ڈیجیٹل میڈیا اور بدلتے سماجی حقائق

نئی حکومت نے پی ٹی آئی حکومت کے قائم کردہ اُس ڈیجیٹل میڈیا وِنگ (DMW) کو بند کر دیا ہے جس کے ذریعے مبینہ طور پر سیاسی مخالفین خاص طورپر تنقید کرنے والے صحافیوں کی ٹرولنگ کی جاتی تھی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے متنازع ڈیجیٹل میڈیا وِنگ کے خاتمے کو احسن قرار دیا ہے۔ ایچ آر سی پی نے کہا کہ اس کے ذریعے حکومت اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کے علاوہ ریاستی وسائل پہ پارٹی ایجنڈے کو پروان چڑھانے میں مصروف تھی۔ ڈی ایم ڈبلیو 2018ء میں پی ٹی آئی کے برسر اقتدار آنے کے فوری بعد قائم کیا گیا تھا۔ منگل کو وزیر اطلاعات کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ پی ٹی آئی کے قائم کردہ سوشل میڈیا ونگ‘ جو پارٹی کارکنوں پر مشتمل تھا اور اپوزیشن اور اداروں کو نشانہ بنا رہا تھا‘ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ وزارتِ اطلاعات و نشریات میں سائبر ونگ پہلے سے موجود تھا۔ یقینا وزارت کے پہلے سے موجود سائبر ونگ کو مضبوط کرنا اچھی پیشرفت ہو گی کیونکہ اس طرح حکومتیں بدلنے کے باوجود ادارے برقرار رہنے کے علاوہ بیوروکریسی بھی کسی سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں ملوث نہیں ہوگی۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے کہا ہے کہ سائبر ونگ کو بدلتے ہوئے رجحانات کے ساتھ مزید اختراعی بننا چاہیے اور بیرونِ ملک پاکستان کا اچھا امیج بنانے کے لیے وزارت خارجہ کے ساتھ ہم آہنگ رہنا چاہیے۔
اس امر میں اب کوئی شبہ نہیں رہاکہ ڈیجیٹل میڈیا نے نہایت تیزی کے ساتھ ابلاغ کے بنیادی اصولوں اور خیر وشر میں تفریق کرنے والی اقدار کو کنفیوز کرکے فطرتِ انسانی کو پوسٹ ٹروتھ (بعد از سچ)عہد کی جدلیات تک پہنچا دیا جہاں ہر سچائی اور ہر حقیقت متعلقہ (ریلیٹو) ہو کر اپنی مستقل تفہیم کھو دیتی ہے؛ چنانچہ اب انسان کی ان کلاسیکی سماجی اقدار اور تہذیبی شعور کو نئی اصلاحات کا سامنا کرنا پڑے گا جس نے سماجی نظام کی تدوین اور شخصی اخلاقیات کے اصول مدون کیے۔ اگرچہ ابھی اس امر کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ انسانی زندگی کے نظام کو استوار کرنے والے اصول بدل رہے ہیں یا پھر ذہن انسانی میں ایسی تبدیلیاں آئی ہیں کہ وہ نفسِ انسانی میں متلاطم ان سارے احساسات کو اگل دینے کی منزل تک پہنچ گیا ہے جو فطرت سے انحراف کے متقاضی تھے، جس طرح کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسان کے وجود کے اندرجبلت نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ یہ سب عادتیں اسے ورثے میں یا پھر اپنے خارجی ماحول سے حاصل ہوتی ہیں۔ اسی طرح اب جدید سائنس کی فلاسفی بھی ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے بنیادی جبلتوں اور فطرتِ انسانی کی خارج سے قطع و برید کے تجربات میں الجھی ہوئی ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے معلومات کے تبادلے اور برق رفتار روابط نے انسانی فطرت کو تبدیل کرکے مابعد الطبیعیات پہ اس کے یقین کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ سوشل میڈیا ابلاغ سے دنیا بھر میں انسانی سماج کی ہیٔت اورسوچنے کے انداز متاثر ہوئے، اس لیے عہدِ جدید میں انسانیات پہ تحقیق کرنے والے ماہرین انسانی فطرت پر ڈیجیٹل میڈیا کی بصری ٹیکنالوجی کے مضمرات کی چھان بین میں مصروف ہیں لیکن فی الحال وہ زندگی کے متعدد شعبوں کی تکنیکی مہارتوں کے ساتھ اسے جوڑنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں تاکہ اس نئے ڈیجیٹل تمدن کو واضح شکل دی جا سکے‘ خاص طور پر بصری مواد کے پروڈیوسرز، محققین اور صارفین کے درمیان باہمی تال میل اورکلچرومکس اور نیٹ ورک کے تجزیے کے بہتر استعمال کو سمجھنے کی کوشش جاری ہے جس کے ذریعے اس عہد میں معلومات کے اشتراک اور اس کی باہم رسانی ممکن بنائی گئی۔ صارفین کے علم، رویوں اور طرزِ عمل پر بصری میڈیا کے قریبی اثرات کے تجرباتی مطالعات کو کسی نظریے پر مبنی تشخیص کے ساتھ جوڑنا کہ کس طرح ہیومن آن سکرین بالآخر انسانی فطرت کے تعامل کو متاثر کرتی ہے‘ ایک اہم کام ہو گا لیکن مشکل یہ ہے کہ ڈیجیٹل بصری میڈیا کی پیداوار، پھیلاؤ، کھپت اور مشغولیت اتنی تیزی سے بدلتی ہے کہ جہاں تحقیق کے لیے نت نئے مواقع ملتے ہیں‘ وہاں کئی فوری چیلنجز بھی ابھر کے سامنے آ جاتے ہیں‘ یعنی ایک کراس ڈسپلنری جائزہ‘ جو سب سے قیمتی اگلے مراحل کو نمایاں اور سکرین پر فطرت کی نمائندگی اور اثرات کے بارے میں مزید تحقیق کی ترغیب دیتا ہے۔
سوشل میڈیا ایک شہری کو باخبر رکھنے کے باوجود اس کی ذہنی افزائش میں رکاوٹ بھی بنتا ہے۔ یہ انسانی سوچ کو گہرائی تک جانے کی مہلت نہیں دیتا بلکہ تیزی سے ابھرتی لہریں ہر آن انسانی سوچ کو مضطرب اور سطح کے اوپر رکھتی ہیں۔ یہ انسان کے اندر چھپی ہوئی خواہشوں کو بے نقاب کرنے کے علاوہ انسانی ذہن کو چوس کر اس کی زرخیزی اور افزائش کو بنجر بنا دیتا ہے۔ اس میں متنوع خیالات کی تشکیل اور فکر کے نئے شگوفے نہیں کھلنے دیتا بلکہ فرد کا ذہن خود سوچنے کے بجائے سوشل میڈیا کے مجموعی وظائف کی تکرارمیں پھنس جاتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ مجموعی طور پہ سوشل میڈیا جنگ کو مشکل اور ریاست کو کمزور کرکے اس سٹیٹ لیس سوسائٹی کی راہ ہموار بنائے گا جسے کارل مارکس کا ''یوٹوپیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ انفرادی طور پرڈیجیٹل میڈیا شہریوں کی سیاسی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا لیکن یہی ابلاغ فرسودہ سیاسی کلچر کی توڑپھوڑ کا سبب بھی بن رہا ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد معلومات کے لیے ڈیجیٹل میڈیا ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے بلکہ مواصلاتی کلچر میںمجموعی طور پر اب ڈیجیٹل میڈیا نے مرکزی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ یہ اہم پلیٹ فارم ہے جسے لوگ عریانی اور زک پہنچانے کے باوجود ایسے متحرک پیغامات کا وسیلہ بناتے ہیں جو سماجی و سیاسی عوامل کو زیادہ پیچیدہ بنانے کی سہولت فراہم کرکے تشویشناک بناتے ہیں کیونکہ ان میں غلط معلومات کے پھیلاؤ کا حجم بہت زیادہ ہے۔
پچھلی دہائیوں سے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا نے یا تو ترقی میں کردار ادا کیا یا اس میں گہری رکاوٹیں ڈالیں لیکن اس سب کے باوجود ڈیجیٹل میڈیا فرد کی سیاسی و سماجی زندگی کا جزو لاینفک بن گیا ہے کیونکہ دنیا بھر میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد معلومات کے تبادلے اور نجی و سماجی مواصلات کے لیے ڈیجیٹل میڈیا ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے۔ گویا اجتماعی طور پر ڈیجیٹل میڈیا نے اہم پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر لی ہے، جسے لوگ ہم خیال افراد کے مابین ربط اور اپنے گروہ کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؛ تاہم متحرک پیغامات کی تقسیم کے دوران ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات کا پھیلاؤ، معلومات کی تقسیم کے مضمرات کو جانچنے میں ناکامی اور حد سے بڑھتی ہوئی سیاسی پولرائزیشن جیسے عوامل مہلک ثابت ہوئے ہیں۔
آج کے سیاسی ابلاغ میں سب سے زیادہ اہم وہ نظریاتی مسائل ہیں جو تیزی کے ساتھ ملتبس ہوتے جا رہے ہیں، متحرک اور سیاسی طرزِ عمل، انٹرنیٹ اور سیاسی سرگرمی پر حالیہ مطالعے نے سیاسی شرکت کی متنوع شکلیں تشکیل دینے اور دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر سماجی احتجاج کو متحرک کرنے میں ڈیجیٹل میڈیا کے کردار کو اجاگر کیا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا؛ جیسے کہ ٹویٹر اور فیس بک علمی و جذباتی رویے سے متعلق رابطوں کے لیے اہم وسیلہ ہیں جو لوگوں کو باہمی تعاون کے ساتھ نیٹ ورک بنانے کے قابل بھی بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیجیٹل میڈیا لوگوں کو خبریں فراہم کرتا ہے، سائنسی، سیاسی اور سماجی معلومات کو متحرک کرتا ہے اور انہیں بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے جذبات اور رائے کا تبادلہ کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے، انہیں عوامی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی ترغیب دیتا ہے حتیٰ کہ میدانِ جنگ میں کھڑے سپاہی کو بھی اپنے گھر والوں اور سماج کے ساتھ منسلک رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا مواد کو وقت، رقم اور جسمانی محنت کی زیادہ مقدار خرچ کیے بغیر تیزی سے اَپ ڈیٹ کیا جا سکتا ہے، جو ڈیجیٹل میڈیا کے صارفین کو آن لائن مختلف سرگرمیوں کے ذریعے اپنے مواصلاتی اہداف کو آسانی سے حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اس طرح سوشل میڈیا آمریت کے جبر سے بچنے، شخصی آزادیوں کے تحفظ اور عوام کو زیادہ طاقتور بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ڈیجیٹل میڈیا نے تیزی سے مختلف افعال اور استطاعت کو مربوط کیا، اس لیے ضروری ہے کہ ان مختلف طریقوں پر نظرثانی کی جائے تاکہ سیاسی و سماجی مصروفیت کے نئے اصول تلاش کیے جا سکیں۔ شہری طرزِ عمل پر یہ تحقیق کرنا بھی بہت اہم ہے کہ ڈیجیٹل نیٹ ورک میڈیا کے ذریعے برقرار رہنے والے سیاسی مواصلات کے یہ نئے طریقے، غیر ترمیم شدہ عوامی دائرے کو کیسے کھول سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غلط معلومات اور جعلی خبروں کی جو گونج خاص طور پر ریاستہائے متحدہ میں 2016ء کے صدارتی انتخابات کے بعد ابھری تھی‘ اس نے وہاں کے مربوط جمہوری تمدن کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ڈیجیٹل میڈیا ٹیکنالوجی کی ترقی اور معلومات کی تقسیم نے غلط معلومات یا جعلی خبروں کے ذریعے سب سے پہلے امریکا کی قومی وحدت میں دراڑیں ڈالیں‘ اب بھی وہاں فریب کے مختلف طریقوں کا استعمال کیا جا رہا ہے جن میں منفی اشتہارات، پروپیگنڈا، ہیرا پھیری، من گھڑت، خبروں کا طنز اور خبروں کی پیروڈی شامل ہیں۔ موجودہ دور میں جعلی خبروں اور غلط معلومات سے متعلق بہت سے سوالات ابھی جواب طلب ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں