مسلم لیگ (ن)کے صدر شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کو سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے لانگ مارچ اور دھرنوں کے ساتھ ساتھ سنگین معاشی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ پچھلے ایک ماہ میں روپے نے ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے اپنی قدر کھوئی ہے؛ تاہم اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد روپے کی قدر اور سٹاک مارکیٹ کو کچھ عارضی استحکام میسر آیا ہے۔ اب حکومت ادائیگیوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے غیر ملکی قرضوں کی شرائط کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ بات چیت میں مشغول ہے۔ ابتدا ہی سے وزیراعظم شہبازشریف کو پچھلی حکومت کی طرف سے غیر پیداواری ایندھن پہ دی گئی وہ سبسڈی ہٹانے میں دشواری کا سامنا رہا جسے آئی ایم ایف قرض پروگرام کی تجدید کی پیشگی شرط کے طور پر واپس لینے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ پٹرول پہ سبسڈی ختم کرنا اگرچہ غیر مقبول فیصلہ تھا لیکن اتحادی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ساٹھ روپے فی لٹرکا اضافہ کرکے دلیرانہ قدم اٹھایا جو دراصل اس غیر یقینی سیاسی صورت حال کی حتمی وضاحت بھی بنا کہ اب عام انتخابات 2023ء کے وسط سے پہلے نہیں ہوں گے۔
پی ڈی ایم حکومت کا بنیادی ہدف زوال پذیر معیشت کو سنبھالنے کے علاوہ اس سیاسی انتشار پہ قابو پانا ہے جس نے پچھلے آٹھ سالوں سے مملکت کو اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے لیکن اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نواز شریف اگلے الیکشن سے پہلے وطن واپس آ سکیں گے یا نہیں؟ اگر وہ لوٹ آئے تو اس سے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کی حمایت بڑھے گی بلکہ ہمارے جمہوری نظام کی مکمل بحالی کا امکان بھی پیدا ہو گا‘ بصورتِ دیگر سیاسی انتشار کی مہیب لہریں یونہی سر پر منڈلاتی رہیں گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کو بدعنوانی کے ان داغوں سے بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کا وبال پچھلے تیس سالوں سے پی پی پی اور نوازلیگ کی قیادت کا تعاقب کر رہا ہے۔ ہمارے سیاسی نظام میں اس وقت تک توازن قائم نہیں ہوسکے گا جب تک دوسرے سیاست دانوں کی طرح پی ٹی آئی حکومت کو بھی احتساب کی کسوٹی پہ پرکھا نہیں جاتا۔ اس خیال کو تقویت اس امر سے بھی ملتی ہے کہ عمران خان کے پونے چار سالہ دور میں بدعنوانی کے درجنوں سیکنڈلز سامنے آئے لیکن ابھی تک کسی ایک کیس کی بھی تفتیش و تحقیقات شروع نہیں ہوسکیں۔ اس سے قبل مسلم لیگ نواز کی لیڈرشپ پر درجنوں مقدمات بنا کر ان کے سیاسی کیریئر کو داغ دار بنایا گیا، ان میں سے بیشتر مقدمات ان کے نجی کاروبارسے متعلق تھے جن کی وجہ سے آج بھی مسلم لیگ نواز کی سیاسی پیش قدمی میں کافی رکاوٹیں حائل ہیں۔ عمران خان‘ جو اس وقت بپھرے ہوئے سوشل میڈیا کے علاوہ عالمی ذرائع ابلاغ کی تکنیکی حمایت انجوائے کر رہے ہیں‘ بدعنوانی کے اُن مقدمات سے بچ کر نئے انتخابی دنگل میں اترنے کی جلدی میں ہیں،کئی سکینڈلز کی گونج ان کے اپنے دورِ حکومت میں بھی سنائی دیتی رہی، جیسے راولپنڈی رنگ روڈ، ادویات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ، بلین ٹری سونامی، مالم جبہ اور پشاور بی آر ٹی وغیرہ۔
یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ سرد جنگ کے تقاضوں کے مطابق عالمی مقتدرہ نے یہاں فطری سیاسی قیادت کی افزائش روک کر مملکت کی عنان ان موقع شناس آمروںکے سپرد کیے رکھی جو بڑی جنگوں میں شرکت سمیت قومی مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلے لینے میں کسی کو جوابدہ نہیں تھے لیکن بسا اوقات تقدیرظاہری طور پہ غیرمربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھا کر ان کی مرضی کے بغیر انہیں ان دیکھی تباہی میں پھنسا دیتی ہے، جیسے ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی پاداش میں راہ سے ہٹا تو دیا گیا لیکن ان کی بے پناہ عوامی مقبولیت ملک کی ستر فیصد غریب آبادی کو اینٹی امریکا بنا گئی۔ اسی طرح نائن الیون کے تراشیدہ حادثے کی بدولت پرویز مشرف کے دور میں افغانستان پر حملے کے خلاف دائیں بازو کی قوتوں نے جارحانہ مہمات چلا کر ملک کے اُس متوسط طبقے کو امریکا مخالف بنا دیا جس نے کمیونزم کے خلاف مزاحمت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بالکل اُسی طرح اب عمران خان کی رجیم چینج سازش کی تھیوری نے بھی اس ملک کے ان اعلیٰ طبقات کو امریکا بیزار کر دیا ہے جو تہذیبی لحاظ سے مغرب کی پیروی میں آسودگی محسوس کرتے تھے۔ اسی تناظر میں نواز شریف کی بے پناہ مقبولیت بھی پنجاب میں کچھ قوتوںکے لیے مسئلہ بن سکتی ہے؛ چنانچہ قرائن بتاتے ہیں کہ نہ تو حالات کا جبر نوازشریف کو وطن واپس پلٹنے دے گا اور نہ ہی مریم نواز کی راہ میں کاشت کیے گئے کانٹے ہٹانے کی اجازت ملے گی۔ مسلم لیگ نواز اپنی حکومت میں بھی اگر اسی طرح پابہ زنجیر رہی تو وہ ساری مقبولیت کھو بیٹھے گی جو اسے سیاست میں مزاحمتی کردار ادا کرنے کے باعث ملی تھی۔ اب تو یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ نے نوازشریف کو باہر بھیج کر غلطی کی تھی۔ اگر وہ جیل میں قید رہتے تو نہ صرف پی ٹی آئی حکومت دبائو میں رہتی بلکہ پنجاب سمیت ملک بھر میں ان کی ہمدردی مزید بڑھ جاتی اوراس بات کا امکان بھی بہرحال موجود رہتا کہ مؤثر قانونی چارہ جوئی بہت جلد میاں نوازشریف کو جیل سے باہر لے آتی مگر ان کا ملک چھوڑنا ایسی قانونی پیچیدگیاں پیدا کرگیا جس کا تدارک اب آسان نہیں ہو گا۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ مقید پارٹی قیادت جیل کی سختیوں سے اُکتا گئی تھی۔ شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ کتابوں میں پڑھی جانے والی سیاسی جدوجہد کی رومانوی کہانیوں اور عملی زندگی کے تلخ حقائق کتنے مختلف ہوتے ہیں۔ اگر مسلم لیگ کے قائد کی واپسی میں تاخیر ہوئی تو کوئی شک نہیں کہ اگلے الیکشن میں پارٹی کی کارکردگی پہ تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
سابق وزیر اعظم کی طرف سے آخری دنوں میں شاید سب سے خطرناک قدم‘تحریک عدم اعتماد کی آئینی کارروائی کو غیر ملکی سازش قرار دینا تھا۔ اپنے مخالفین کو ایجنٹ باور کرانے کی یہ جذبات انگیزسکیم نہایت دور رس اثرات کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ خان صاحب اسی ایشو کو لے کر ایسی عوامی تحریک برپا کرناچاہتے ہیں‘ جیسی انہوں نے گزشتہ انتخابات سے پہلے پاناما لیکس کو لے کر نواز حکومت کے خلاف اٹھائی تھی۔ یہ بڑے شہروں میں خلل ڈالنے کا وہ نسخہ تھا جو حکومت کو مزید مفلوج کر سکتا اور معیشت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ پیش دستی تشدد کا باعث بھی بنے گی۔ دوسری طرف افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں تناؤ برقرار ہے۔ خان صاحب اور امریکی صدر جو بائیڈن کے مابین رابطوں کا فقدان دونوں ملکوں میں موضوعِ بحث بنا رہا لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ خان صاحب کو آئینی طریقوں سے عہدے سے الگ کرنے سے دونوں ملکوں کے سٹریٹیجک تعلقات پر بظاہرکوئی مثبت یا منفی اثر پڑنے کا امکان نہیں لیکن خان کے سازشی دعووں سے امریکا اور مغرب کے ساتھ ریاستی تعلقات پر منفی اثر ضرور پڑے گا۔ پاکستان کے کچھ حلقوں میں پی ٹی آئی کے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی سے بھی بے پروا اندازِ سفارت کاری کے طریقوںپر تحفظات پائے جاتے تھے۔چنانچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب شہباز حکومت کی جانب سے تجربہ کار انداز میں بات چیت مثبت پیش رفت ثابت ہوگی۔ شہباز شریف نے تزویراتی شراکت داروں کے طور پر ان ممالک کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پہلی فرصت میںسعودی عرب کا دورہ کیا‘ پھر دبئی اور ترکی جبکہ اب وہ بہت جلد چین کا وزٹ بھی کرنے والے ہیں۔ ہر چند کہ افغانستان میں شکست کے بعدجنوبی ایشیا پر امریکی گرفت کمزور ہوئی ہے مگر اب بھی بہت سے عالمی معاملات میں امریکا ہمارے لیے ایک کلید بردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں سے قرض کا حصول امریکا کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں جبکہ امریکا اور یورپ ایک بڑی برآمدی منڈی ہونے کے سبب پاکستان کے معاشی استحکام کا ذریعہ بھی ہیں۔