روس یوکرین جنگ چوتھے مہینے میں داخل ہو چکی ہے‘ اگرچہ یورپی باشندے کیف کی حمایت میں بڑی حد تک متحد ہیں لیکن اب وہ اس جنگ کے معاشی نتائج کو برداشت کرنے کے بارے میں منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ یورپی ممالک میں کیے گئے سروے سے پتا چلتا ہے کہ عوام کی توجہ جنگ کے مہیب اثرات‘ خاص طور پر یورپ میں اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے مضمرات کی طرف پلٹ رہی ہے‘ ماسکو پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے یورپی حکومتوں کو ان معاشی مشکلات کو سنبھالنا پڑے گا بصورت دیگر جنگ سے تھکن کا احساس یورپ کی اجتماعی مزاحمت کو کمزور کر دے گا۔ سروے میں رائے دینے والوں کی ایک تہائی تعداد یوکرین کی علاقائی دستبرداری جیسی رعایتوں کی قیمت پہ جنگ کا جلد خاتمہ چاہتی ہے‘ 22 فیصد شہری روس کو سزا دینے اور یوکرین کے تمام علاقوں کو واگزار کرانے تک جنگ جاری رکھنے کے حامی ہیں۔آن لائن کرائے جانے والے اس پول میں اپریل کے آخر اور مئی کے وسط تک جرمنی‘ رومانیہ اور سویڈن سمیت 10یورپی ممالک میں 8,172 بالغ افراد سے رائے لی گئی‘ جواب دہندگان کی اکثریت ہر صورت میں ''امن‘‘ کی متمنی تھی‘ چاہے اس کیلئے یوکرین کو کچھ علاقوں سے دستبرار ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ سروے مرتب کرنے والوں کے مطابق یہ بدلتے ہوئے احساسات یوکرین سے متعلق یورپی ممالک کی پالیسی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے لکھا‘ پول کے نتائج سے پتا چلا کہ اس حوالہ سے یورپی رائے عامہ تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے جس کے نتیجہ میں مغرب کے لیے مشکل ترین دن آ سکتے ہیں۔ ادھر امریکی انٹیلی جنس چیف کا کہنا ہے کہ پوتن طویل جنگ کے لیے تیار ہیں‘ خود یورپی باشندے جوہری کشیدگی کے خطرے سے بھی ہراساں ہیں‘ اگر روس پر پابندیاں متوقع نتائج سامنے لانے میں ناکام رہیں تو ان لوگوں کے درمیان‘ جو جنگ کا جلد خاتمہ چاہتے ہیں اور جو روس کی شکست کے آرزو مند ہیں‘ تفریق مزید بڑھ جائے گی۔ ای سی ایف آر نے کہا کہ پہلی قسم کے بہت سے لوگوں کو تشویش ہے کہ ان کی حکومتیں‘ روس کے خلاف جنگ کو دیگر اہم مسائل‘ جیسے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور زندگی کے بنیادوں تقاضوں کی تکمیل پہ ترجیح دے رہی ہیں۔ یورپ میں چونکہ معیشتیں ابھی کورونا لاک ڈاؤن کے آشوب سے نکل ہی رہی تھیں کہ انہیں یوکرین کی جنگ نے آ لیا‘ یوکرین جنگ نے مئی میں یورو استعمال کرنے والے ممالک میں مہنگائی کو ریکارڈ بلندی تک پہنچا دیا‘ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کی سالانہ شرح سب سے زیادہ تھی۔ یورپی ممالک یوکرین کے داراحکومت کیف کے مضافات میں روسی جنگی کارروائیوںکے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے اس ماہ پھر روسی تیل کی درآمدات پہ مرحلہ وار پابندی عائد کرنے کا معاہدہ کریں گے‘ چنانچہ مشرقی یوکرین میں گھمسان کی جنگ کے ساتھ اس کشیدہ تنازعہ بارے‘ ایسے سوالات بھی سر اٹھانے لگے ہیں کہ جنگ کے مضمرات اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ اور توانائی کے بلوں میں بڑھوتری کے ساتھ مل کر ماسکو پر دباؤ ڈالنے کے لیے یورپی ممالک کی سیاسی خواہش کا امتحان لے سکتے ہیں۔ جیسا کہ یورپی ممالک نے گزشتہ ماہ تیل کی پابندی پر بات چیت کی تو یورپی پارلیمنٹ کے بیلجیم کے رکن نے روسی جارحیت کے خلاف ردعمل کو سراہنے کے باوجود بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور توانائی کی قلت بارے خبردار کرنا ضروری سمجھا۔ قانون ساز سارہ میتھیو نے رفقا کو بتایا کہ روس کی معیشت کو متاثر کرنے والی مغربی ممالک کی پابندیاں‘ یورپی شہریوں کی زندگیوں پر بھی گہرا اثر ڈالیں گی۔ انہوں نے یورپی یونین کے 27ممالک پر زور دیا کہ وہ روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے روک کے شہریوں کو ریلیف دیں‘ خاص طور پر ان لوگوں کو جو غربت کی کھائی میں گرنے جیسے خطرے سے دوچار ہیں۔ چنانچہ یورپی گھرانوں پر پڑنے والے منفی اثرات نے پالیسی سازوں کو ایک حد سے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ برطانوی ماہرین کہتے ہیں کہ حکومتیں جس راہ پر چل نکلی ہیں ان کی پوری توجہ روس پہ اقتصادی پابندیوں پر مرکوز ہے‘ جس سے زندگی کی قیمت پر یورپ میں زبردست بے چینی پیدا ہوئی۔ ماہرین کہتے ہیںکہ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہم یورپ میں طویل جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے‘ ہمیں ولادیمیر پوتن کے خلاف کس حد تک جانا ہے؟ ہمارے پاس کوئی ایک آپشن بھی ایسا نہیں جو ہمیں فوری فتح دلا سکے۔ بدقسمتی سے یہ اقدامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو لامحالہ برے انجام پہ منتج ہو گا‘ اس لیے فوری جنگ بندی ناگزیر ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں اور ماہرین کے تجزیوں سے پتا چلتا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے سو دن بعد یورپین لیڈر شپ کے اعصاب پہ جنگی تھکاوٹ کے آثار ہویدہ ہیں‘ کیف کے حکام نے خدشہ ظاہر کیا کہ ''جنگی تھکاوٹ‘‘ کا احساس ماسکو کو پیچھے دھکیلنے میں مدد کرنے کے مغربی ممالک کے عزم کوکمزورکر رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ نے روس پر پابندیاں عائد کرنے میں بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کیا‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یوکرین کو اربوں ڈالر کا اسلحہ دیا‘ یورپ نے جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد کا بوجھ اٹھایا لیکن جیسے ہی 24فروری کے حملے کا جذباتی مرحلہ اختتام کو پہنچا تو ایک متبادل سوچ نے یورپ و امریکہ کو مختلف طریقوں پہ غور کرنے پہ مجبور کر دیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کریملن دور تک گھسیٹنے والے مضبوط تنازعات کے دباؤ اور مغربی طاقتوں کی ممکنہ کم ہوتی دلچسپی کا فائدہ اٹھا سکتا ہے جو بہت جلد یوکرین پر روس کے ساتھ تصفیہ کیلئے دباؤ ڈالنے والے ہیں۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پہلے ہی مغربی مشوروں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سمجھوتہ ہرگز قبول نہیں ہوگا۔ یوکرین امن کیلئے شرائط خود طے کرے گا لیکن زیلنسکی کے پُرعزم خیالات کے الرغم یورپ میں جنگ کی تھکاوٹ بڑھ رہی ہے‘ لوگ ایسا نتیجہ چاہتے ہیں جو فائدہ مند ہو لیکن یوکرینی لیڈرشپ کوئی دوسرا نتیجہ مانگتی ہے۔ اس لیے زیلنسکی نے امن کی اطالوی تجویز مسترد کردی‘ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کو بھی اس وقت غصہ سے لبریز ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے کہا: اگرچہ پوتن کا حملہ ''تاریخی غلطی‘‘ تھی تاہم عالمی طاقتوں کو روس کی تذلیل سے باز رہنا چاہیے۔ پہلے جنگ کو روکیں پھر ہم سب مل کر تعمیر نوکا کام کر سکتے ہیں۔ اس وقت یورپی ممالک سفارتی طریقوں سے جنگ سے نکلنے کی راہ ڈھونڈ رہے ہیں لیکن یوکرین جو مغربی ممالک کی کمزوریوں کا رازداں ہے‘ کسی ایسے امن فارمولہ پہ تیار نہیں جس میں مشرقی علاقوں سے دستبرداری اور رجیم چینج کی شرائط شامل ہوں۔کیف‘ روس کو مشرقی اور جنوبی یوکرین کے نئے زیر قبضہ علاقوں سے باہر دھکیلنے کے علاوہ کریمیا‘ جسے ماسکو نے 2014ء میں ضم کر لیا اور ڈونباس کے وہ علاقے جو گزشتہ آٹھ برسوں سے کریملن کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول ہیں‘ کو واپس لینے کا خواہشمند ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہر مہینے یوکرین کو جنگ کی وجہ سے 5بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کیف کا سارا معاشی انحصار مغربی ممالک کی مضبوط معاشی پوزیشن پر ہے۔ یوکرین کو اپنی بقا کیلئے مزید جدید ہتھیاروں کی ضرورت ہوگی‘ ماسکو کو کمزور کرنے کیلئے روس پر اقتصادی پابندیوں کا دائرہ بڑھانے کیلئے مغربی ممالک کے عزم کو مہمیز دینا پڑے گی۔ تاہم روس طویل جنگ کیلئے تیار ہے اور اب وہ اس مفروضے پر اپنی حکمت عملی بنا رہا ہے کہ مغربی ممالک جنگ سے اکتا چکے ہیں‘ اس لیے روس نے رفتہ رفتہ اپنے عسکری بیانیے کو زیادہ مناسب انداز میں تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ یوکرین کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے‘ 31مئی کو نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون میں بائیڈن نے کہا: ''میں یوکرین حکومت پر نجی یا عوامی طور پر کوئی علاقائی رعایت دینے کے لیے دباؤ نہیں ڈالوں گا‘‘۔اگرچہ یوکرین کی حمایت میں فوری کمی کا کوئی امکان نہیں تاہم مغرب کے مقاصد کیا ہونے چاہئیں‘ اس پراختلافِ رائے کے واضح اشارے ملتے ہیں جن کی تاحال مناسب وضاحت نہیں ہو سکی۔ یورپی اتحاد کو ممکنہ خطرے کے پیش نظر یورپ کے مقامی خدشات اس توضیح کا راستہ روک رہے ہیں‘ خاص طور پر جب توانائی کی قیمتوں‘ خام مال کی قلت‘ بجلی کے بھاری بلوں‘ ایندھن کی قیمتوں اور روزمرہ اشیاء کی نرخوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ کا بوجھ لوگوں پہ پڑنا شروع ہوا تو صورت حال بے قابو ہو جائے گی۔