افغانستان میں امریکی تاریخ کے طویل ترین جنگی مشن کی ناکامی کے باعث پاک‘ امریکہ تعلقات میں پڑنے والی دراڑوں نے پورے خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کیا ہے۔ کابل کی شکست کے نتیجے میں چین‘ امریکہ کشیدگی میں اضافے کے علاوہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات کی نوعیت بھی بدل گئی۔ اس وقت حکومت امریکہ سے انسانی تعاون اور معیشت کے دو طرفہ تعلقات کی تعمیرِ نو کی امید کے علاوہ چین، روس، ایران اور ترکی کے ساتھ بھی نئے تجارتی اور سٹرٹیجک تعلقات کی استواری کے ذریعے خطے کی جیو پالیٹکس میں کلیدی کردار کی متمنی ہے۔ البتہ واشنگٹن پاکستان کو جنوبی ایشیا پہ اپنی گرفت قائم رکھنے سے آگے‘ بیجنگ کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں سٹرٹیجک ''پارٹنر‘‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکہ کی یہ خواہش پاکستان کی سلامتی کے تقاضوں اور مفادات سے میل نہیں کھاتی۔ چار سال کے وقفے کے بعد پاکستان میں امریکی سفیر کی حیثیت سے تعیناتی پانے کے بعد مسٹر ڈونلڈ بلوم نے اسلام آباد کے ساتھ جن دو طرفہ روابط کی یقین دہانی کرائی ہے ان میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ ''وہ سنیں گے، سمجھیں گے اور ہر بات واشنگٹن تک پہنچائیں گے‘‘۔ کابل سے انخلا کے بعد پاک‘ امریکہ تعلقات میں جس قسم کی گہری پیچیدگیاں در آئی ہیں انہیں متوازن بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ بائیڈن انتظامیہ نے اسلام آباد کو واشنگٹن کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا تو پاکستان نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی پالیسی کی ناکامیوں کے لیے اسلام آباد کو بَلی کا بکرا بنا رہا ہے؛ چنانچہ باہمی اعتماد کے فقدان کے باعث جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے محدود ہوتے امکانات کو زیادہ نازک بنتا دیکھ کر امریکی مقتدرہ کی اجتماعی دانش اس امر پہ یکسو ہونے لگی کہ پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا کر تلخیاں بڑھانے کے بجائے جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نئی شرائط پر اسلام آباد کو دوبارہ انگیج کیا جائے۔ اسی تناظر میں امریکہ اور پاکستان نے افغانستان سے امریکی انخلا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تلخی کو پسِ پشت ڈال کر دوطرفہ تعلقات کو ایک حد تک بحال کرنے میں کامیاب تو پا لی لیکن واشنگٹن اسلام آباد تعلقات کے نئے فریم ورک کو جنوبی ایشیا میں امریکہ اور چین کے مابین جاری مسابقت کے تناظر میں بھی دیکھنا پڑے گا۔
بلاشبہ اسلام آباد واشنگٹن کے ساتھ نئے تعلقات کی اساس تجارت پر قائم کرنا چاہتا ہے لیکن امریکہ آج بھی پاکستان سے نئے محدود تعلقات کو چین کی عینک سے دیکھتا ہے۔ امرِ واقع بھی یہی ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا نے دونوں ممالک کو اپنے تعلقات از سر نو ترتیب دینے کا موقع عطاکیا ہے۔ گزشتہ 40 سالوں سے افغان تنازع پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی بنیاد بنا ہوا ہے۔ 1979ء میں سوویت روس کے افغانستان پر حملے نے دوطرفہ تعلقات کو کمیونزم کے خلاف اتحاد کے لیے نئی تحریک میں ڈھالا۔ اسی طرح ستمبر2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان پر امریکی جارحیت نے انسدادِ دہشت گردی کی مہمات کو باہمی تعلقات کا مرکزی ستون بنایا۔ بیس سالوں پر محیط اس مہیب جنگ نے پاکستان کو ہولناک دہشت گردی، وسیع معاشی نقصانات، انفراسٹرکچر کی تباہی اور انتظامی ڈھانچے کی زبوں حالی جیسے مصائب میں مبتلا کرنے کے بعد تنہا چھوڑ دیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں بھی پاک‘ امریکہ تعلقات کا بگاڑ کم نہ ہوا، حالانکہ اس وقت پاکستان واشنگٹن و طالبان کو دوحہ معاہدے اور افغانستان سے امریکی افواج کے محفوظ انخلا میں غیرمعمولی سہولت فراہم کر رہا تھا۔
صدراوباما اور صدر ٹرمپ کی طرح‘ بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان پر افغانستان میں امریکی مقاصد کو نقصان پہنچانے کا الزام دہرایا تو وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ''افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں‘‘ جیسے بیان کے ساتھ جوابی وار کیا؛ چنانچہ صدر جو بائیڈن کی طرف سے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کو فون نہ کرنے کی وجہ سے بھی پہلے سے خراب تعلقات مزید کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ اسی طرح اپریل میں عمران خان کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ سے اپنی برطرفی کو روس کا دورہ منسوخ کرنے کے مغربی دباؤ کو ٹھکرانے کے پاداش میں امریکی سرپرستی میں ہونے والی سازش کا شاخسانہ قرار دیا گیا تو ان سیاسی نعروں کی گونج نے بھی پاک امریکہ تعلقات کو کم ترین سطح تک پہنچا دیا؛ تاہم پی ڈی ایم حکومت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے مئی میں واشنگٹن کے پہلے دو روزہ دورے نے دو طرفہ تعلقات کومعمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلاول بھٹو کے دورے سے آئی ایم ایف کے معطل شدہ پروگرام پر دوبارہ بات چیت کرنے میں مدد ملی جس کے نتیجے میں پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ مفاہمت کے مرحلے تک آن پہنچا؛ تاہم تعمیرِ نو کے مرحلے میں ہونے کے باوجود امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اب بھی بنیادی رابطہ منقطع ہے، اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورۂ امریکہ کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک منصوبہ محض اسلام آباد اور بیجنگ کے مابین اقتصادی تعاون تک محدود نہیں بلکہ اس گیم چینجر منصوبے کے خطے کی سٹرٹیجک جہتوں اور عالمی اقتصادیات پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ گوادر تجارت کے علاوہ پورے بحرِہند پر پاکستان کے کنٹرول کا مؤثر وسیلہ بننے کے علاوہ مشرقِ بعید کے ممالک، پیسفک رِم اور خلیج فارس میں بھی پاکستانی بحریہ کی بالادستی کی راہ ہموار بنائے گا۔ ماہرین کا خیال ہے 1971ء کے پاک ہند تنازع اور کارگل جیسے بحرانوں کے دوران بھی گوادر کی ترقی یافتہ بندرگاہ پاکستان کی سمندری حدود کے لیے سٹرٹیجک گہرائی کی متحمل بن سکتی تھی۔ علیٰ ہذاالقیاس! گوادر سی پورٹ پورے خطے کیلئے خوشحالی کی نوید لائے گی۔ اس وقت مڈل ایسٹ کی کل تجارت کا ستر فیصد یورپ و امریکہ، دس فیصد جاپان اور باقی بیس فیصد پوری دنیا میں منقسم ہے لیکن سی پیک کے ذریعے بحرِہند تک چین کو رسائی ملنے کے بعد مڈل ایسٹ کی سترفیصد تجارت چین سے منسلک ہو جائے گی۔ اسی پیش دستی کی بدولت گلف کی تیل کی سب سے بڑی عالمی مارکیٹ بھی‘ پونے دو ارب آبادی پر مشتمل چین اور ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ آبادی کے حامل بھارت سے جڑ جائے گی۔ اسی لیے عالمی طاقتیں مشرق کی نئی ابھرتی ہوئی معیشتوں اور آبی گزرگاہوں میں پھیلتی تجارت میں اپنے لیے مناسب حصہ چاہتی ہیں۔ مفادات کا یہی ٹکرائو کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ زخم خوردہ امریکی اس وقت جس لب ولہجے میں پاکستان اور چین سے مخاطب ہیں‘ اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ مغرب والوں نے اپنے یقینی معاشی زوال کو دیکھ کر انتہائی اقدامات کا تہیہ کر لیا ہے لہٰذا اس نامطلوب صورتحال کو ٹالنے کی خاطر پاکستان اور چین باہمی اشتراک سے سی پیک کو سست روی کا شکار کر سکتے ہیں تاکہ اس دوران عالمی قوتوں کے مفادات کے تحفظ کی کوئی قابلِ عمل راہ تلاش کر لی جائے۔ اسی تناظر میں اسلام آباد اپنے نئے جیو اکنامک وژن کے تحت جنوبی ایشیا میں تجارت کو دوطرفہ تعلقات کا محور بنانا چاہتا ہے مگر واشنگٹن انہیں بیجنگ کے ساتھ دشمنی کی عینک سے دیکھ رہا ہے۔
پاکستان اب دھڑے بندی کی عالمی سیاست سے دور رہنے اور امریکہ و چین کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی کوشش میں خود کو سینڈوچ بنتا پائے گا۔ اگرچہ امریکہ اور پاکستان نے کابل میں شکست کی تلخی کو پسِ پشت ڈالنے پر اتفاق کیا ہے لیکن بین الاقوامی دہشت گردی کے پس اندوز خطرات اور افغان ریاست کی نزاکتوں کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات پر اب بھی افغان تنازع کا نقابِ ابہام ڈالا جا سکتا ہے۔ امریکہ ایک بار پھر القاعدہ اور داعش کے مبینہ خطرے اور افغانستان سے بین الاقوامی سطح کے ممکنہ دہشت گرد حملوں جیسے خدشات کو جواز بنا کر نئی پیچیدگیاں پیدا کر کے انٹیلی جنس خلا پر قابو پانا چاہتا ہے۔ واشنگٹن کا یہی تصور ہماری داخلی سیاست پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو مضبوط رکھنے کیلئے دونوں انتہاؤں کے مابین کافی جگہ موجودہے لیکن امریکہ اور چین کے ساتھ اپنے معاملات کو متوازن رکھنے کیلئے ہنر مندانہ سفارت کاری کی ضرورت ہوگی۔