الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم عمران خان کو اثاثے چھپانے کے جرم میں پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دے کر نیا سنگِ میل عبور کیا ہے۔ اِس فیصلے میں الیکشن کمیشن نے خان صاحب کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے پر فوجداری کارروائی کا حکم بھی دیا ہے۔ ہماری سیاسی روایات کے برعکس قومی تاریخ میں کسی سیاستدان کے خلاف پہلی بار اس طرح کی تادیبی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس سے قبل آئینی طریقہ کار کے مطابق پارلیمنٹ میں تحریک عدم کے ذریعے اقتدار سے بے دخل ہونے کا پہلا شکار بھی عمران خان کوہی بنایا گیا تھا۔ ماضی قریب و بعید میں عام طور پر مقبول سیاستدانوں کو ایسے مہمل الزامات کے تحت ایوانِ اقتدار سے نکالا گیا جن کی معقولیت پر سنجیدہ سوال اٹھتے رہے؛ جیسے ایبڈو جیسے کالے قانون کے تحت ابتدائی عہد کے پختہ کار سیاستدانوں کو سیاست سے بیدخل کرنے کے علاوہ ذوالفقارعلی بھٹو کو ایک کمزور سے مقدمے میں تختۂ دار تک پہنچا دیا گیا۔ ان غیر منصفانہ اقدامات کی بازگشت آج بھی ہمارے نظامِ عدل میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔ علی ہٰذا القیاس! پی ٹی آئی کے لاکھوں ورکرز آج اسی ذہنی اذیت سے دوچار ہیں جس ستم ظریفی کا سامنا جولائی 2016ء میں میاں نوازشریف کے حامیوں کو کرنا پڑا تھا، مؤخر الذکر کو بیٹے سے قابلِ وصول تنخواہ گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے جیسے الزام پر مجرم قرار دے کر وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے معزول کیا گیا تھا‘ حالانکہ اس تنخواہ سے متعلق ان کا موقف ہے کہ وہ انہوں نے کبھی وصول ہی نہیں کی تھی۔
عمران خان کو اگرچہ ان کے اثاثوں اور واجبات کی غلط معلومات کی بنا پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل کیا گیا لیکن ماضی میں کئی نامورسیاستدانوں کے خلاف کی جانے والی غیر منصفانہ کارروائیوں کے واقعاتی تناظر میں ایک قانونی عمل کے ذریعے خان صاحب کے خلاف کی جانے والی کارروائی کو بھی سیاسی انتقام سے جوڑا جا رہا ہے۔ عمران خان کی نااہلی کی وجہ الیکشن کمیشن میں دائر وہ ریفرنس بنا جسے توشہ خانہ کیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فریقین کا موقف سننے کے بعد خان صاحب کو الیکشن کمیشن میں غلط اور غیر حقیقی معلومات دینے کا مجرم پایا گیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق خان صاحب نے بحیثیت وزیر اعظم غیر ملکی حکمرانوں سے موصول ہونے والے قیمتی تحائف اور توشہ خانہ سے ذاتی استعمال کے لیے حاصل کیے گئے 112 تحائف کی اپنے اثاثوں اور واجبات کے گوشواروں میں تفصیلات ظاہر نہ کر کے مادی حقائق کو جان بوجھ کر چھپایا اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا بھی کوئی حساب وہ پیش نہ کرسکے۔
عمران خان کی نااہلی کی مدت ایک معمہ بنی رہی ہے۔ بعض آئینی ماہرین کا موقف تھا کہ آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نااہلی کی مدت اسمبلی کے مدت تک ہوتی ہے، بعض اس نااہلی کی مدت کو پانچ سال تک قرار دے رہے تھے جبکہ کچھ کے نزدیک یہ نااہلی تکنیکی بنیادوں پر محض ''ڈی سیٹ‘‘ ہونا ہے۔ اب الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے نے اس سارے ابہام کو دور کر دیا ہے۔ کمیشن نے عمران خان کو این اے 95 میانوالی سے ڈی نوٹیفائی کرتے ہوئے ان کی آبائی نشست کو خالی قرار دے دیا ہے جبکہ این اے 45کرم سے الیکشن لڑنے کے لیے عمران خان کو اہل قرار دے دیا ہے جبکہ حالیہ ضمنی انتخاب میں چھ نشستوں پر جیتے گئے ان کے انتخاب کو بھی درست قرار دیا ہے؛ البتہ انتخابی اخراجات کی تفصیلات نہ بتانے کی بنا پر ابھی تک ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ یوں بظاہر نااہلی کے ا س فیصلے سے عمران خان کو سیاسی طور پر کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ البتہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے نے عمران خان کے خلاف مزید قانونی کارروائی اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 190(2) کی فوجداری دفعات کے تحت فالو اَپ کارروائی کرنے کی حکومت کو جو ہدایت کی ہے‘ اس کے مضمرات چیئرمین تحریک انصاف کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ فوجداری قانون کے مطابق مجرم ثابت ہونے پر عمران خان کو نہ صرف تین سال قید کی سزا ہو سکتی ہے بلکہ تاحیات نااہلی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ عمران خان کے پاس الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کا حق ہے۔ بعض افراد کا ماننا ہے کہ حکومت اس کارروائی کو تاخیری حربوں کے سپرد کر دے گی یعنی فوجداری قوانین کے تحت ٹرائل کے ذریعے ان کے سر پر آرٹیکل 62 کی تلوار لٹکانے کے علاوہ ان کی جارحیت کو کند کرنے کی خاطر انہیں مقدمات کی طویل چکی سے گزرا جا سکتا ہے۔ دریں اثنا اور بھی زیادہ سنگین کیسز بشمول غیر ملکی فنڈنگ کیس، جس میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کو ممنوعہ فنڈنگ حاصل کرنے اورخیراتی فنڈز کے غلط استعمال کا قصوروار ٹھہرایا‘ کے حوالے سے مزید کارروائی بھی حکومت ہی کو کرنی ہے اور یہ فیصلہ بھی نہ صرف عمران خان بلکہ پوری پی ٹی آئی کے لیے دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو اعلیٰ عدالتی بصیرت کے پیمانوں پر جانچنے سے قطع نظر‘اس پیش دستی کے سیاسی مضمرات نے عمران خان کی سیاسی ساکھ کو ناقابلِ تلافی گزند پہنچائی ہے۔ خان صاحب کے ناقدین اس فیصلے کو لے کر خود کو پاک دامن اور ایماندار سیاست کار کے طور پر پیش کرنے کی مہم کو پوری شدت سے روک رہے ہیں، ان مقدمات کے فیصلوں کی بدولت مخالفین کو بدعنوان قرار دینے کا خان صاحب کا بیانیہ بھی غیر مؤثر ہونے والا ہے؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کی فالوونگ ان دستاویزی ثبوتوں کو نظر انداز کر دے گی جو ان کے خلاف فیصلے کی وجہ بنے۔ ان کے حامی اب بھی انہیں ایسے سیاسی شہید کے طور پر دیکھنے میں لذت محسوس کرتے ہیں جو اس ''کرپٹ‘‘ نظام میں ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے انتقام کا نشانہ بنا۔جب ہم ملکی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ پاکستان میں کسی سیاستدان کے کیریئر کو ختم کرنے یا اسے اکھاڑے سے باہر کرنے کے راستے میں مقبولیت کبھی آڑے نہیں آئی۔
اس وقت ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہمارا اقتصادی نظام امریکہ، چین اور خلیجی ریاستوں جیسے دوست ممالک کی مالی و سفارتی مدد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ مہیب معاشی بحران بری گورننس کی بدولت پیدا ہوا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ عمران خان کی مقبولیت کو کم نہیں کرے گا لیکن طاقت کی سیاست کے دائرے میں فی الحقیقت وہ عمران خان کے سیاسی مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے گا؛ چنانچہ اب خان صاحب کے لیے آپشنز روز بروز کم ہوتے جائیں گے۔ وہ طویل مزاحمت کے ذریعے خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھ سکتے ہیں لیکن وہ اپنے طرزِ عمل کے ذریعے طاقت کے مراکز تک پہنچنے کی راہیں خود مسدود کر رہے ہیں۔ وہ اب سڑکوں پر دباؤ بڑھا کر قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ منوانے یا اقتدار حاصل کرنے کا ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اگر وہ پہلے آپشن کا انتخاب کرتے ہیں تو اس آپشن میں قانونی پیچیدگیاں راہ میں حائل رہیں گی۔ اس بات کا شاید ہی کوئی امکان موجود ہو کہ پی ڈی ایم انہیں اگلے انتخابات کے بعد وزیر اعظم کے عہدے پر واپس آنے کی راہ دے گی۔ فی الحال تو الیکشن کمیشن کے فیصلوں نے عمران خان کی سیاست کو ناقابلِ برداشت صدمہ پہنچایا ہے؛ تاہم چار سالوں پہ محیط ان کا بے ڈھنگا گورننس ریکارڈ بھی ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔ خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت کی نو‘ دس سالوں پر پھیلی حکومت کے نتیجے میں دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھانے لگی ہے۔ کے پی حکومت قرضوں کے ناقابلِ برداشت بوجھ تلے کرا ہ رہی ہے۔ اس ماہ سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے حکومت کے پا س فنڈ بھی میسر نہیں ہیں۔
سیاسی طور پر پاکستان کو اُس انتہائی پولرائزڈ ماحول سے نکلنے کی ضرورت ہے جسے ہر دو اطراف کی جارحانہ سیاست نے جنم دیا ہے۔ عمران خان نے اگر عوامی مقبولیت کے زعم میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تو حکومت اس مارچ کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گی جس سے یقینا معاملات مزید خرابی کا شکار ہوں گے۔ اس دوران نہ صرف خان صاحب کو جیل بھیجا جا سکتا ہے بلکہ ان کا سیاسی مستقبل بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔