قومی زندگی کے اس موڑ پر جب ہماری مملکت پیراڈائم شفٹ کے نازک مراحل عبورکرکے خودمختار ریاست کی صورت میں ڈھلنے کے قریب آن پہنچی تھی‘ سابق وزیراعظم عمران خان کی مزاحمتی تحریک مملکت کو سیاسی تفریق کی طرف دھکیلنے کے علاوہ قوم میں داخلی تقسیم کو بڑھا کر سویلین بالادستی اور آئین کی حکمرانی کی راہ کھوٹی کر رہی ہے۔ خان صاحب کے اِس جارحانہ طرزِ عمل کے نتائج آئینی نظام کے مستقبل پر اپنے اثرات چھوڑنے کے علاوہ ماضی کی طرح ایک بار پھر عالمی طاقتوں کو ہمارے اندرونی امور میں مداخلت کی دعوت دے سکتے ہیں، جیسے1977ء کی ذوالفقار علی بھٹو مخالف تحریک نے ضیاء الحق کی صورت میں امریکہ کو قدم جمانے کا ایسا موقع دیا جس نے پینتالیس سالوں سے ہماری فکری اور سیاسی آزادیوں کو پابجولاں رکھا ہوا ہے۔ اب جب خوش قسمتی سے افغانستان سے امریکی و نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد ہماری سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کے لیے صحت مند ارتقا کی نئی راہیں کشادہ ہوئیں تو منظم قوم کی حیثیت سے ان حالات سے فائدہ اٹھا کر دنیا کے نقشے پر ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرنے کے بجائے ہم داخلی انتشار میں الجھ گئے ہیں۔ گویا مقبول سیاسی قیادت کی خودغرضی نے ایک بار پھر ہمیں فنا و بقا کے خطِ امتیاز پر لا کھڑا کیا اور حالات اس لیے زیادہ تشویشناک نظر آتے ہیں کہ حکمران اشرافیہ کے پاس ان پیچیدہ تنازعات کو پُرامن طریقوں سے سلجھانے کاکوئی قابلِ عمل فارمولا ہی موجود نہیں ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمیں پاناما سکینڈل کی کوکھ سے جنم لینے والی تبدیلیوں کے مضمرات سے نکلنے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت تھی لیکن شومیٔ قسمت خان صاحب آج بھی کسی ماورائے آئین بندوبست کے ذریعے اقتدار میں سے حصہ پانے پر مصر دکھائی دیتے ہیں؛ تاہم وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی یہی خواہشات مملکت کو مزید عدم استحکام کی طرف لے جانے کا سبب بن رہی ہیں۔ شاید اسی الجھن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند روز قبل ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے اپنی پہلی غیرمعمولی میڈیا بریفنگ میں فرمایا کہ قومی سلامتی کے لیے سیاسی و معاشی استحکام کے علاوہ آئینی اصولوں کے مطابق امورِ مملکت نمٹانا بھی ازحد ضروری ہے‘ بصورتِ دیگر انتشار بڑھتا جائے گا لیکن خان صاحب ماورائے آئین طریقوں سے حصولِ اقتدار کی اپنی سوچ سے پیچھے ہٹتے نظر نہیں آتے اور اس وقت یہی وہ بنیادی مخمصہ ہے جو ملک کو بحران سے نکالنے کے وسیع تر قومی اتفاقِ رائے کی راہ میں حائل ہو رہا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ کسی شفاف آئینی و قانونی نظام کے تحت بائیس کروڑ عوام کی نظروں کے سامنے قومی امور کو نمٹانے سے گریز ہی ہمیشہ ہماری ذہنی آزادیوں اور قومی خود مختاری کو پراگندہ رکھنے کا ذریعہ بنا اور یہی غیرآئینی وظائف ہمیشہ اُن سازشی تھیوریوں کے کلچر کو فروغ دیتے رہے جو سیاسی و ادارہ جاتی لیڈرشپ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ قوم اور قیادت میں خلیج بڑھاتا رہا اور جس سے عالمی قوتوں نے فائدہ اٹھا کر ہماری حاکمیت کے حق کو غصب کیا۔ کہنہ مشق سیاستدان رضا ربانی کے بعد اب مولانا فضل الرحمن بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم آئینی فریم ورک کے اندر رہ کر ہی ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف لے جا سکتے ہیں، ماورائے آئین فیصلوں سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ جائیں گے لیکن کوئی کج کلاہ اس بنیادی نکتے پہ قومی لیڈرشپ کو متفق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ارسطو نے کہا تھا ''سماجی نظم و ضبط تہذیب کا سرچشمہ اورسیاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات میں مفاہمت کا آرٹ ہے‘‘۔ مگر افسوس کہ ہمارے ماحول میں چہارسو جنونِ استرداد کی گونج سنائی دیتی ہے۔ کوئی کسی دوسرے کو راہ اور فیس سیونگ دینے کو تیار نہیں۔ پی ڈی ایم کی قیادت، وفاقی حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی طرف سے کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے واضح انکار کے باوجود عمران خان کی حکمت عملی یہی نظر آتی ہے کہ وہ دبائو پیدا کرکے پورے سیاسی ڈھانچے کو مفلوج کر دیں اور سسٹم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی اور علاقائی طاقتیں پاکستان کو آئینی نظام کی طرف پلٹنے سے روکنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
جی ٹی روڈ کے راستے لاہور سے اسلام آباد کی طرف محوِ خرام ''حقیقی آزادی مارچ‘‘ کو رات ڈھلتے ہی تحلیل کرکے خان صاحب خود لاہور اور کارکن اپنے گھروں کو پلٹ جاتے ہیں۔ اگلی صبح یہ کارواں نئے شرکا کے ساتھ اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے لانگ مارچ میں ابھی تک وہ مومینٹم پیدا نہیں ہوسکا جس کی قوتِ رفتار خان صاحب کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبور کر سکے۔ اس سب کے باوجود سوشل میڈیا اور مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ پر چھائی یہ سر گرمی بتدریج قوم کو ذہنی تقسیم کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اگرچہ آزادی کوئی سیاسی چیز نہیں بلکہ ایسی کیفیتِ ذہنی ہے جو لوگوں کو مربوط کرتی ہے لیکن عمران خان کا آزادی مارچ قوم کو‘ مملکت کو معاشی خود مختاری کی ڈھال اور آئینی نظام کے حصار میں پناہ لینے سے روکتا ہے، یعنی یہ موجودہ کشمکش ہمیں فرضی حقائق کے جال میں پھنسا کر ذہنی آزادیوں سے دور لے جانے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ گویا اس وقت کھیل کو زیادہ منطقی اور پُر اثر بنانے کے لیے آزادی مارچ کے دوران بھی بیک ڈور رابطوں کے ذریعے مقتدرہ کو انگیج رکھنے کی حکمت عملی کے ذریعے ایک طرف اپنے ارادوں کو کیموفلاج اور دوسری جانب مخالفین کو غافل رکھ کر سیاسی بازی الٹنے کی کوشش جاری ہے۔
عمران خان کارکنوں کے حوصلے بڑھانے کی خاطر اپنے ٹویٹر پیغام میں نرم یا گرم انقلاب لانے کی نوید سنا رہے ہیں۔ یہ سوالات اہم ہیں کہ خان صاحب اگر بیلٹ باکس کے ذریعے نرم انقلاب لا سکتے ہیں تو پھر انہیں ٹکرائو کی سیاست سے ملک و قوم کو کسی گرم انقلاب کی آگ میں جھونکنے کی کیوں سوجھی؟ کوئی بھی بالغ النظر قومی لیڈر صرف دس ماہ کی دوری پہ کھڑے انتخابات کا قبل از وقت مطالبہ لے کر ملک و حکومت اور معیشت کوعدم استحکام کی طرف کیونکر دھکیلے گا ؟اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر خان صاحب آئینی حدود میں رہتے ہوئے جمہوری انداز میں پی ڈی ایم کی کمزور حکومت کی پالیسیوں کا نظری محاسبہ کرتے تو عوام میں نہ صرف ان کی حمایت بڑھتی‘ جو ان کے ووٹ بینک میں اضافے کا سبب بھی بنتی بلکہ اسی عوامی سپورٹ کے بل بوتے پر وہ قومی پالیسیوں کو اپنے سیاسی معیارات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت بھی حاصل کرلیتے لیکن وہ دانستہ اپنی جماعت کو تصادم کی طرف دھکیل کے ایک طرف پی ٹی آئی جیسے قیمتی سیاسی اثاثے کو تباہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف لاشعوری طور پر قومی وحدت کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ لاریب‘ تبدیلی کے دو ہی طریقے ہیں، آپ بیلٹ باکس کے ذریعے نرم انقلاب لائیں یا پھر دوسرے طریقے‘ جو معاشرے میں تباہی کا باعث بنتے ہیں اختیار کیے جائیں۔ خان صاحب برملا اداروں کو پاور پالیٹکس میں ''ثالث‘‘ کا کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتے رہے ہیں لیکن اب اداروں نے چونکہ سیاسی امور میں ثالث یا فریق بننے کے بجائے اپنے کردار کو آئینی حدود میں سمیٹنے پر اکتفا کر لیا ہے‘ لہٰذا مقتدرہ کا یہی طرزِ عمل خان صاحب کے لیے تعجب کا باعث بنا۔ ریاستی اداروں پر بے جا تنقید اور انہیں سیاست میں ملوث کرنے سے متعلق بیان بازی نے عالمی ذرائع ابلاغ کو بالعموم اور سوشل میڈیا کو بالخصوص اداروں کی بتدریج پنپتی غیر جانبداری پر طنز و استہزا کے تیر چلانے کے علاوہ خان صاحب کی تحریک کو مہمیز دینے کا بہانہ فراہم کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت کا میڈیا بھی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھرپور اشتعال انگیزی پر اتر آیا ہے اور پاکستان کے دفاعی اداروں پر زہر اگل رہا ہے۔ افسوس کہ نہ تو خان صاحب اور نہ ہی دیگر جماعتیں اس صورتحال کا ادراک و تدارک کر پا رہی ہیں۔