"AAC" (space) message & send to 7575

سیاسی المیوں کی تکرار

ہماری قومی تاریخ سیاسی تحریکوں کے دوران رونما ہونے والے ایسے دلخراش المیوں اور انسانی جذبات سے کھیلنے جیسے فنِ سیاست سے بھری پڑی ہے جن کا ایندھن تو سیاسی جماعتوں کے کارکن اور لیڈر بنے لیکن اِن کاشتہ(planted)تحریکوں کے فوائد ہمیشہ عالمی و ملکی اشرافیہ کے حصے میں آئے۔ اگر سیاسیات کے طالبعلم خلافت موومنٹ، ریشمی رومال تحریک، تحریک ہجرت اور شدھی جیسی مسلح تحریک سے لے کر تحریک نظام مصطفی، صوفی محمد کی تحریک نفاذِ شریعت کی وسیع تناظر میں سیاسی و نفسیاتی زاویوں سے تحقیق کریں تو انہیں ایسی تمام تحریکوں کے محرکات اور اس خطے کے تہذیبی پس منظر میں انسانوں کی سوچ اور نفسیات پر مرتب ہونے والے اثرات واضح نظر آئیں گے۔ یعنی سیاسی جماعتیں اور رہنما عوام کے لیے دام بچھاتے اور اس دام کو ہمیشہ عوامی حقوق اور سیاسی آزادی کا نام دیتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاستی اشرافیہ معاشرے کے سماجی مفادات کو ردّ کرنے کے لیے ایسی جذباتی تحریکوں کی آبیاری ضروری سمجھتی ہے، جو بظاہر ہجوم کے لیے پُرکشش ہوتی ہیں لیکن ان کے نتائج مذہبی، سیاسی و سماجی طبقات اور معاشروں کے فطری ارتقا کیلئے کبھی سودمند ثابت نہیں ہوئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارا سماج ایسی تمام تحریکوں کے تلخ و شیریں تجربات کی کٹھالی سے گزرنے کے باوجودکندن بن سکا اور نہ ہی ایسے مظاہر ہمارے سیاسی و سماجی ارتقا کا زینہ بن سکے۔ البتہ ظاہری طور پر بامقصد نظر آنے والی ان تراشیدہ تحریکوں میں بروئے کار آنے والے کچھ سماجی دانشور معصوم انسانوں کو خارجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کو آدمیت کے خلاف سمجھنے کے باوجود اپنے ماحول پر چھائی التباسات کی دھند اور انسانی اذہان میں گہرائی تک سرایت کرجانے والے تراشیدہ تصورات کو تبدیل کرکے سماج کو ان مصنوعی وظائف کی تکرار سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ چنانچہ آج بھی بیرونی اور اندرونی عناصر کی برپا کردہ تحریکوں میں آزادی اور مساوات کے نعروں کی گونج عام لوگوں کے لیے جال میں پڑے چارے کی ترغیب کے سوا کچھ نہیں۔ آج بھی بعض لوگوں کے ادنیٰ ترین سیاسی مفادات اورتعصبات کی تسکین کے لیے انسانی خون کے نذرانے پیش کرنے کی روایتیں زندہ ہیں۔
جمعرات کے روز سابق وزیر اعظم عمران خان کے کنٹینر کے قریب فائرنگ میں ایک قیمتی انسانی جان کی قربانی اور اعلیٰ قیادت کے زخمی ہونے کے باوجود خوش قسمتی سے حالات اس قدر خراب نہیں ہوئے جتنا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ عمران خان پر حملے کے ردعمل میں230 ملین پر مشتمل قوم میں بڑے پیمانے کے مظاہرے یا کہیں بھی پُرتشدد فسادات نہیں پھوٹے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا‘ جہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومتیں ہیں‘ چند گنے چنے مظاہرین نے پولیس اور مقامی انتظامیہ کی چشم پوشی سے فائدہ اٹھا کر مرکزی شاہراہیں بند کرکے جزوی طور پر ٹریفک کا پہیہ جام رکھا لیکن اس سرگرمی کا کوئی خاص سیاسی اثر نظر نہیں آیا۔ خان صاحب نے اپنے اوپر ہوئے قاتلانہ حملے کا الزام وزیراعظم شہبازشریف اور وزیر داخلہ سمیت اہم ادارے کے ایک افسر پر لگایا۔ عمران خان قبل از وقت انتخابات کے مطالبات کی گونج میں جو لانگ مارچ لے کر اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھے، اس کی کامیابی کی امید بتدریج کم ہوتی جا رہی تھی اور سانحہ وزیرآباد نے انہیں لانگ مارچ کی آزمائش سے نکلنے کا موقع فراہم کیا لیکن کچھ نادیدہ مسائل نے انہیں پھر اسی دلدل میں کھینچ لیا ہے۔
گولیاں لگنے سے عمران خان کو پنڈلی میں زخمی آئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مرکزی جنرل سیکرٹری اسد عمر کہتے ہیں ''ہمارے پاس حملے بارے پیشگی معلومات تھیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نامزد افراد کو عہدوں سے ہٹایا جائے، اگر انہیں ہٹایا نہ گیا تو ملک گیر احتجاج کی کال دیں گے‘‘۔ پی ٹی آئی رہنما اعجاز چودھری سمیت کئی دیگر افراد کا بھی دعویٰ ہے کہ انہیں پہلے ہی پتا تھا کہ گوجرانوالہ یا وزیرآباد کی حدود میں ان پر کوئی حملہ ہو سکتا ہے۔ ایک مقامی رہنما کا کہنا ہے کہ اس نے حملے سے ایک رات قبل ہی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو خبردار کر دیا تھا۔ پنجاب پولیس نے جس حملہ آور کو جائے وقوعہ سے گرفتار کیا‘ اس کے اعترافی وڈیوبیانات سوشل میڈیا پر وائرل ہیں‘ جن میں وہ اعترافِ جرم کر رہا ہے ؛ تاہم خان صاحب اور ان کے رفقائے کار اس مبینہ حملے کے پیچھے حکومت کا ہاتھ دیکھتے ہیں جس کے جواب میں مسلم لیگ (ن)کے کئی رہنمائوں نے پی ٹی آئی پر خان صاحب کے ناکام لانگ مارچ کو مہمیز دینے کی خاطر ''فالس فلیگ اٹیک‘‘ کا الزام لگایا ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی کہا ہے کہ ''عمران خان نے سیاست میں جس نوع کی آگ بھڑکائی، اب وہ نفرتوں کی اس آگ میں خود جلنے والے ہیں‘‘۔
بدقسمتی سے ہماری سیاست میں تشدد اجنبی عنصر نہیں۔1951ء میں ملک کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ 27 دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کو اسی راولپنڈی شہر میں ایک جلسے کے بعد بم دھماکوں کی گونج میں گولیوں سے نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ اس سے قبل 18 اکتوبر کو جب وہ آٹھ سالہ جلاوطنی کے بعد ملک واپس آئی تھیں تو کراچی میں کارساز کے علاقے میں ان کے فقید المثال استقبالیہ میں دو خودکش حملے ہوئے تھے۔ اب عمران خان پر قاتلانہ حملے کی مذموم کوشش کی گئی ہے جس کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، کینیڈا اور ترکی سمیت سبھی اہم ممالک نے اس حملے کی پُرزور مذمت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی عمران خان پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے تشدد، ہراساں کرنے اورباہم دھمکیاں دینے کی روش سے گریزکا مطالبہ کیا ہے۔ ترکی نے عمران خان کو ترکی میں علاج کی پیشکش بھی کی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کے بقول ترک وزیر خارجہ نے عمران خان کی خیریت دریافت کی اور پیشکش کی کہ اگر چیئرمین تحریک انصاف علاج کے لیے ترکی آنا چاہیں تو انہیں تمام سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
اس وقت سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہمات، باہمی الزام تراشی، پُرتشدد مظاہروں اور ڈرانے دھمکانے کے بیانات کے ساتھ قومی سیاست تیزی سے انتقامی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ دریں اثنا ہمارا ملک 26 فیصد تک پہنچ جانے والی مہنگائی اور ہولناک سیلاب‘ جس میں ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا‘ میں 1700سے زیادہ انسانی جانیں گنوانے کے علاوہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 بلین ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ ماہرینِ سیاست کہتے ہیں کہ یہ حیران کن ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران اور خوفناک سیلابوں کو دیکھتے ہوئے بھی عمران خان مملکت کو سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو عمران خان اس وقت سیاسی طور پر تنہا ہو چکے ہیں۔ اپنی حکومت کے گرنے سے پہلے بھی وہ غیرضروری طور پر مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے جیسے رویے کے مرتکب ٹھہرائے گئے۔ مخالف سیاست دانوں کو نیب مقدمات میں پھنسانا اور سیاسی حریفوں کو ''غدار‘‘ قرار دینے کے علاوہ میر جعفر و میر صادق جیسے طعنوں سے اداروں کی قیادت کو بھی متنازع بنانے کی سعی کی گئی۔ دو ہفتے قبل آئی ایس پی آر کے سربراہ کے ہمراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے پہلی بار میڈیا سے گفتگو کے دوران یہ انکشاف کیا کہ راتوں کی تاریکی میں مذاکرات کیے جاتے ہیں اور دن کی روشنی میں اعلیٰ قیادت کو طعنے دیے جاتے ہیں۔ اس سے قبل اکتوبر میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کواثاثے چھپانے کے جرم میں قومی اسمبلی کی سیٹ سے نااہل قرار دیا تھا جبکہ حالیہ ضمنی انتخابات میں جیتے جانے والی عمران خان کی سات نشستوں کے حوالے سے بھی مسلم لیگ (ن) الیکشن کمیشن پہنچ چکی ہے۔ الیکشن کمیشن میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس فیصلے میں عمران خان کو کرپٹ پریکٹس کا مرتکب قرار دیا ہے جبکہ سیشن عدالت میں شکایت دائر کرنے کا بھی کہا گیا ہے، کمیشن کے فیصلے میں انہیں نااہل قرار دیا گیا لہٰذا اُن کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کیا جائے۔ ریاستی ادارے پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ وسیع پیمانے پر بدامنی کی صورت میں پوری قوت کے ساتھ وفاقی حکومت کے احکامات پر عمل پیرا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں