آرمی کی چین آف کمانڈ میں تبدیلی فوج کی اگلی نسل کو دفاعی ذمہ داریاں منتقل کرنے کا منظم ذریعہ بن کر فطری طور پر ادارہ جاتی ارتقا کے عمل کی تکمیل کرتی ہے؛ تاہم پرویز مشرف کے دورِ آمرانہ کے بعد‘ پچھلے پندرہ سال میں دو چیفس کو مدتِ ملازمت میں توسیع ملنے سے تبدیلی کا یہ قانونی عمل تنازعات میں الجھ کر رہ گیا ہے؛ چنانچہ ہمارے معروضی حالات میں جیسے ہی کسی چیف کی مدتِ ملازمت ختم ہو رہی ہو تو اس کی جگہ کون لے گا‘ یہ سوال قیاس آرائیوں کا محور بن جاتا ہے، گزشتہ ہفتے باجوہ صاحب کی ریٹائرمنٹ اور نئے چیف کی تعیناتی پر اٹھنے والا شور اِسی رجحان کا غماز تھا جس نے ادارہ جاتی کمانڈ کی تبدیلی کو بھی سیاسی معاملات کا موضوع بنا دیا۔
اگر ہم اپنی حرماں نصیبی کا وسیع تناظر میں جائزہ لیں تو سیاست میں بے رحمی کے ساتھ سیاسی مخالفین کو جھوٹے الزامات کا ہدف بنا کر جس طرح سیاسی روایات اور سماجی رواداری کی تہذیب کو تہس نہس کیا گیا‘ اُس نے سیاسی کلچر کے علاوہ ہمارے معاشرتی نظم و ضبط کو بھی پراگندہ کر دیا۔ اب ہم نہایت بے حجابی کے ساتھ سوشل میڈیا پر بسیار گوئی کے ذریعے حفظ و مراتب کی تقدیس اور باہمی احترام کی ہر حدود کو بسہولت توڑ دیتے ہیں اور جس جوش نے آج کل ہماری زندگیوں کا محاصرہ کر رکھا ہے، یہی ہمارے اخلاقی اور سیاسی نظام کو برباد کر رہا ہے۔ لاریب عقل نے ہمیں روشنی دکھائی جس سے انسان نے عمرانی اصول دریافت کیے اور حکومت نے انسانوں کو اصول و ضوابط اور قاعدے قانون پر چلنا سکھایا لیکن آج ہم لامحدود آزادی کے جنون میں عقل اور حکومت‘ دونوں کو مسترد کرنے پر تل گئے ہیں۔ اسی بے ربط اور آزادانہ رجحان کے تحت ہم عدلیہ، مقننہ اور دفاعی اداروں سمیت ہر کسی کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہمات کو آزادیٔ اظہار جیسے مقدس حق کا لبادہ پہنا کر معاشرتی تباہی کے اسباب خود مہیا کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، یعنی اگر ہمیں مکمل آزادی مل گئی تو چھٹے ہوئے بدمعاشوں کی مانند‘ ہماری للچائی نظریں بستیاں اجاڑ دیں گی۔
اِن دنوں سوشل میڈیا کے ٹرینڈزمیں ادارہ جاتی قیادت کی مذہبی و نظریاتی وابستگیوں، کارکردگی، عزائم، مالی امور اور خاندانی زندگی کی جزئیات تک کو زیرِ بحث لانا فیشن بن چکا ہے، حالانکہ یہ تنقید برائے تنقید اذیت پسندی کے سوا کچھ نہیں مگر افسوس کہ تاریخی شعور سے عاری ہماری نوجوان نسل اِسی خود فریبی کے ذریعے اپنا کتھارسس کرنا چاہتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اِس لاحاصل پیش دستی کے مضمرات کا ادراک کیے بغیر ہر صاحبِ گفتار آزادیٔ اظہار کے نام پہ مسلمہ اخلاقی روایات کی تلبیس اور سماجی آداب کی ہر حد عبور کرنے کا تہیہ کیے بیٹھا ہے۔ کسی عمل کے جائز و ناجائز ہونے کی بحث سے قطعِ نظر سماجی انصاف کے اعلیٰ اصولوں کے انسانی فطرت پر اطلاق کے طریقے نہایت نازک، دقیق اور متنوع ہیں، جن کی ماہیت کا جامع ادراک ہی ہمیں تلخ الفاظ کے مضمرات سے بچا سکتا ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ بہت سے نیک نیت لوگ صحیح راستے پر چلنے اور اصلاحات کے وہم میں بھٹک گئے، آگے چل کر انہی خوش خصال انسانوں نے بظاہر سماج کی تطہیر کے خبط میں مبتلا ہو کر خود اپنے وجود سمیت پورے معاشرے کو تباہی و تنزل سے دوچار کر دیا۔ اس حوالے سے اگر صرف برصغیر میں اٹھنے والی پُرتشدد تحریکوں کا مطالعہ کیا جائے تو کئی چشم کشا حقائق سامنے آئیں گے۔ ان کے ظاہری مقاصد میں بنیادی آزادیوں سے لے کر فلاحِ انسانیت تک کا پورا ایجنڈا شامل تھا لیکن ایسی یک رخی فعالیت کے نتائج انسانی سماج کے علاوہ خود اُن عالم گیر سچائیوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوئے جن کی اصابت پہ پوری دنیا متفق تھی۔
بلاشبہ سچ میں طاقت اور نجات ہے لیکن حکمت ہی ہمیں آزادی کی نعمت سے مالا مال کر سکتی ہے۔ اگر ہم غور سے دیکھیں تو اس نظم و ضبط کا بیشتر حصہ‘ جو انسانیت پہ حاوی ہے‘ قانون کا مرہونِ منت نہیں بلکہ ان کا سرچشمہ انسان کی وہ فطرت ہے، جو اپنے تجربات کی بوقلمونی سے ہر آن ہمہ جہت شعور حاصل کرتی رہی کیونکہ دانش کبھی بھی الفاظ کے ذریعے آگے منتقل نہیں کی جا سکتی‘ یہ صرف مثال اور تجربے کے ذریعے دوسروں تک پہنچتی ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں اس میں ملاوٹ، رشوت ستانی، بے انصافی، اپنوں اور غیروں کی حق تلفی، بدعنوانی اور دھوکا دہی اتنی عام ہے کہ اس قسم کی برائیوں کا حامل شخص شرم تک محسوس نہیں کرتا لیکن ہر شخص اپنے گربیان میں جھانکے بغیر دوسروں کے عیوب اور خامیوں کو اچھالنے اور اصلاحِ احوال کے لیے تلوار لے کر لڑنے کے لیے سربکف نظر آتا ہے۔ یہ باہمی کردار کشی کا ایسا کربناک نفسیاتی دائرہ ہے جس میں ہم سب پھنسے ہوئے ہیں اور دائروں کے اس چکر سے ہمیں نکالنے والا بھی کوئی نہیں۔ بلاشبہ بے مقصد فعالیت اور محوری گردشوں سے فی الاصل کوئی اصلاح ممکن نہیں ہو سکتی؛ البتہ ہم سب ایک دوسرے کو رسوا کرنے کی مشقِ ستم کیش کو ضرور آزماتے رہیں گے۔ زیادہ تر لوگ بہتری کے لیے نہیں‘ غیر تعمیری مقاصد کے لیے تنقید کرتے ہیں بلکہ دوسرے کی قیمت پر اپنی عزتِ نفس کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ عیب ڈھونڈ کر یا بشری کمزوریوں پر غصے میں آکر اپنی برتری جتلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علمی ماحول میں بھی لوگ بغیر کسی وجہ کے استدلال یا تجزیے میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی نشاندہی کرکے دوسرے کو مرعوب کرنے کوشش کرتے ہیں۔ ایسی تنقید کبھی تعمیری نہیں ہو سکتی۔ ایسی تنقید ناقد و وصول کنندہ‘ دونوں کے لیے مہلک ثابت ہوتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ خالی خولی تنقید لوگوں کو تبدیلی کی طرف راغب نہیں کرتی بلکہ ایک جوابی ردعمل پیدا کرنے کے علاوہ فریقین کے مثبت تعلقات میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ صحت مند تنقید دراصل مختلف آرا اور کرداروں میں موازنہ یا اچھائی اور برائی کے مابین فرق کو سمجھنے کی اُس شعوری مشق کا نام ہے جس سے انسانی ذہن کا ارتقا اور رجالِ کار کی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے کے امکانات پیدا کیے جاتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے کا تنقیدی شعور غیر ہمدردانہ ہے‘ اس لیے ہم حکمت کے ساتھ انسانی کمزرویوں کے مداوا کے بجائے تنقیدکے نشتر سے خود اور دوسروں کو مسخ کرنے پہ مائل رہتے ہیں۔ اصلاح دراصل زندگی کے بارے میں مربوط زاویۂ نگاہ اور ایسا ہمہ جہت شعوری عمل ہے جو ناقد و منقود سمیت پورے ماحول کے تزکیے کا وسیلہ بنتا ہے۔ اس لیے اصلاحاتی تدابیر میں وسیع تال میل کے علاوہ سچی ہمدردی اور نفسیاتی توازن کا پایا جانا لازم ہے۔ ایک عبرانی روایت ہے کہ یہودیوں کا ایک گروہ ایک خاتون پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگا کر اسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے پاس لایا اور درخواست کی کہ شریعتِ موسوی کے مطابق اسے رجم کی سزا دی جائے۔ انہوں نے جھوٹے گواہ تک پیش کر دیے، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ان کی سازش کو بھانپ گئے، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے اسے رجم کر دو‘ مگر اسے پہلا پتھر وہی شخص مارے جس نے خود کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ یہ جواب سن کر سارے سازشی سر جھکائے پلٹ گئے۔ یہ واقعہ اس زمانے کے سماجی شعور کی کلاسیکی مثال ہے کہ عام لوگ تمام تر گناہوں کے باوجود اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا کامل احساس رکھتے تھے۔
اس وقت جو لوگ جانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر ریاستی نظام کو بے اعتبار اور معاشرے کو انتشار کے حوالے کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ اگر وہ اپنے گریبانوں میں جھانک لیتے تو دوسروں پہ سنگِ ملامت برسانے کے بجائے انہیں اپنی اصلاح کی فکر دامن گیر ہو جاتی۔ کنفیوشس نے کہا تھا ''اگر ریاست بدنظمی کا شکار ہو جائے تو موزوں کام اس کی اصلاح کرنا نہیں بلکہ ایسے میں خود کو سماجی فرائض کی ادائیگی کرنے والا بنا لیجئے‘‘۔ تاثیر ان لوگوں کے الفاظ میں ہی ہوتی ہے جو بلند بانگ دعوے کیے بغیر اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے کرتے ہیں۔ ہمارے ناصحین محاسبے میں اپنے وجود کو شمار ہی نہیں کرتے۔ انسانی کمزوریوں اور دوسروں کی لغزشوں پہ بھڑک اٹھنے والے جذبات ہماری روح کے ہنگاموں اور فساد کو ظاہر کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم بے مقصدیت میں گندھی اپنی تلخ نوائی کے ذریعے نہیں بلکہ ایک مربوط شعوری عزم کے ذریعے جبریت کی طاقتوں کی تسخیر کر سکتے ہیں۔