بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی ساتھیوں سمیت جمعیت علمائے اسلام(ف) میں شمولیت کے بعد اب بلوچستان عوامی پارٹی کے چار نمایاں رہنماؤں اور تحریک انصاف کے سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے امکان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی عمل کو کنٹرول کرنے والی قوتوں نے ملک گیرجماعتوں کو قومی سیاست میں آزادانہ پیشقدمی کی راہ فراہم کر دی ہے۔ کراچی میں آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد حاجی ملک شاہ گورگیج‘میراصغر رند‘میرفائق جمالی‘سردار فیصل جمالی اور آغا شکیل درانی نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کرکے جوڑ توڑ کے نئے مرحلہ کی نقاب کشائی کر دی۔بلوچستان کی علاقائی جماعتوں سے منسلک مزید چار سے چھ الیکٹ ایبلز عنقریب پی پی پی سے ہم آغوش ہونے والے ہیں جبکہ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے سابق گورنر احمد محمود نے متوقع عام انتخابات کیلئے جنوبی پنجاب میں جہانگیرترین کو پیپلزپارٹی کی حمایت پر قائل کر لیا ہے۔سیاسی جوڑتوڑکا یہ تسلسل دیگر بااثر شخصیات کو بھی پیپلزپارٹی سے وابستہ کر سکتا ہے۔ملک گیر سیاسی جماعتوں کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان تک آسان رسائی اور نسلی‘لسانی اور علاقائی گروپوں کی پشت پناہی سے دست کش ہونے کی حکمت عملی ملکی سیاست پہ عائد اُس غیر اعلانیہ کنٹرول کے خاتمہ کی نوید ثابت ہو گی جس کے تحت اکتوبر 1999ء میں پی پی پی اور نواز لیگ جیسی ملک گیر جماعتوں کو منقسم و محدود رکھنے کی خاطر پہلے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پہ دینی جماعتوںکو متحد اور سندھ‘بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے علاقائی گروہوں کو توانائی فراہم کرکے ملک گیر سیاسی پارٹیوں کی مقبول قیادت کو دیوار سے لگادیا گیا اور پھر قومی سیاست کے خلاکو پُر کرنے کی خاطر تحریک انصاف جیسی نیوکنزرویٹو جماعت کیلئے گنجائش نکالی گئی۔اسی صورتحال نے ہمارے ملک کو سیاسی و معاشی استحکام سے دور اور طاقتور حلقوں کو سوشل میڈیا پر عام لو گوں کی بدترین تنقید کے سامنے لا کھڑا کیا۔عالمی تعلقات کی نزاکتوں کی پیش نظر بعدازاں مذہبی جماعتوںکو پیچھے دھکیل کر پی ٹی آئی بنانے کی پالیسی نے مذہبی جماعتوں کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اسی ادھیڑ بُن میں جے یو آئی(س) بالکل ختم اور جماعت اسلامی جیسی منظم پارٹی مضمحل ہو گئی‘البتہ مولانا فضل الرحمن نے سیاسی انجینئر نگ کے خلاف مزاحمتی روش اختیارکرکے کافی مقبولیت پائی۔جے یو آئی(ف) اگر بلوچستان میں جماعت کے اندر پائی جانے والی نچلی سطح کی دھڑے بندیوں پہ قابو پا لیتی اور سندھ میں دانشمندانہ طریقے سے دیگر پارٹیوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کے علاوہ کم از کم پچاس فیصد پارٹی ٹکٹ مذہبی شخصیات کے بجائے بااثر سیاسی شخصیات‘وکلا‘صنعت کاروں‘زمینداروں اورسماجی رہنماؤں کو دینے کی حکمت عملی اپناتی تو وہ ایک مذہبی گروہ کی بجائے معاشرے کی اجتماعی ساخت کی نمائندہ جماعت بن کر ابھر سکتی تھی‘ لیکن بدقسمتی سے اپریل2022ء میں پی ڈی ایم کو اقتدار ملنے کے بعد جمعیت اپنے پارٹی کارکنوں اورخیرخواہوں کی توقعات پہ پورا نہ اتر سکی جس کی وجہ سے جماعت کے اندر فعال کارکنوں اور پارٹی سے باہرکے خیر خواہوں کی بڑی تعداد مایوس ہونے لگی۔اپریل 2022ء سے قبل سندھ میں پیپلزپارٹی جے یو آئی کی مقبولیت سے خوفزدہ تھی لیکن اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔اب آصف زرداری سندھ سے نکل کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی جے یو آئی کیلئے میسر سیاسی گنجائش چھین سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عوام میں ملک گیر جماعتوں کو اپنانے کا شعور بڑھ رہا ہے‘سیاسی ہیرا پھیری کی یہی کثیرالجہت فضامولانا صاحب اور زرداری صاحب جیسے رہنماؤں کو یہاں اپنے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے مواقع دیتی ہے۔یہ رہنما اب زیادہ تر لوگوں کی ایک سے زیادہ ترجیحات کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔بلوچستان کے طول و عرض کی سب سے کامیاب سیاسی الٹ پھیر‘دراصل ایک مکمل نئی جہت کو شامل کرنے پر مشتمل ہو گی‘اس لیے بلوچستان کے مقامی اور ملکی سطح کے رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ لوگوں کے متضادات اور مفادات انہیں سیاست کے مرکزی دھارے کی طرف مائل کر رہے ہیں۔بہرحال‘پنجاب میں پیپلزپارٹی کی پیشقدمی علامتی لیکن بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پی پی پی کو جگہ بنانے کے بہتر مواقع مل جائیں گے۔اگر گزشتہ سال فیصل کریم کنڈی صوبائی صدر کا تختہ الٹ کر دھڑے بندی نہ کرتے تو خیبرپختونخوا میں بھی پیپلزپارٹی اب تک مضبوط سیاسی قوت بن کر ابھر چکی ہوتی۔بلوچستان کے پشتون علاقوں میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے داخلی خلفشار سے پیدا ہونے والے خلا کو اے این پی اور جمعیت پُر کر سکتی تھیں لیکن اے این پی کو غیر فعالیت اور جے یو آئی کو داخلی تنازعات نے پا بہ زنجیر رکھا ہوا ہے۔شمالی بلوچستان کے پشتون ایریا کی نمائندگی کی دعویدار پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ورکرز اِن دنوں اچکزئی خاندان کے اُس سیاسی تسلط سے نجات کی تگ و دو میں سرگرداں ہیں جس نے پچاس سال سے پارٹی کے ارتقا کو منجمد رکھا۔اسی سیاسی جمود کے خلاف خوش گفتار عثمان کاکڑ نے سوال اٹھائے تو انہیں اچکزئی خاندان کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا؛ چنانچہ میپ کے ابھرتے ہوئے سیاسی رہنما عثمان کاکڑ کے اندھے قتل نے پارٹی میں تفریق کی لکیروں کو مزید گہرا کر دیا۔ شمالی بلوچستان میں اچکزئی قبیلہ چمن اور قلعہ سیف اللہ جیسے دو دراز اضلاع تک محدود ہے جبکہ کاکڑ قوم بلوچستان کے گیارہ ضلعوں میں پھیلی ہوئی ہے۔یہ تاثر بھی کافی گہرا ہے کہ محمود اچکزئی نے پارٹی کے اقتدار کو اپنے خاندان اور ترقیاتی کاموں کو دو ضلعوں تک محدود رکھ کر متنوع آبادیوں والے گیارہ اضلاع کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔اس تفریق پر پہلی آواز عثمان کاکڑ نے ہی اٹھائی تھی۔ بلوچستان کے اس رہنما کے قتل کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بھی بنایا گیا لیکن پارٹی رہنماوں کے عدم تعاون کی وجہ سے کمیشن غیر مؤثر رہا؛ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ پارٹی کے اندر پنپتی مزاحمت‘عثمان کے جواں سال بیٹے خوشحال کاکڑ کی شخصیت میں مرتکز ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ابھی 15 دسمبر کومحمود اچکزئی اور 28 دسمبر کو خوشحال کاکڑ نے الگ الگ پارٹی اجلاس طلب کیے۔ خوشحال کاکڑ کا اجلاس محمود خان کی نسبت تین گنا بڑا تھا۔انہیں بلوچستان کے کاکڑ قبیلے سمیت خیبرپختونخوا کے مختیار یوسفزئی گروپ کی حمایت بھی حاصل ہے۔متذکرہ اجلاسوں کے بعد پختونخوا ملی عوامی پارٹی عملاً دو گروپوں میں منقسم ہو گئی ہے۔
علاقائی جماعتوں میں تقسیم کے بعد مسلم لیگ نواز کیلئے بالعموم اور جے یو آئی کیلئے بالخصوص بلوچستان کے پشتون علاقوں میں اثر و رسوخ بڑھانے کے وسیع مواقع پیدا ہوئے لیکن جمعیت کی صوبائی قیادت اپنا دائرۂ اثر بڑھانے کی بجائے وزارت کے مزے لینے میں محو نظر آئی۔جس سے بلوچستان کی ضلعی تنظیموں میں تفریق کی دراڑیں مزید گہری ہوتی گئیں۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں بھی جمعیت پارٹی سیاست میںسیاسی توازن قائم رکھنے میں خاص دلچسپی نہیں لیتی۔ گزشتہ برس بلدیاتی الیکشن میں جے یو آئی نے لکی مروت جیسے ضلع کی تمام نشستیں ہار دیں‘بنوں میں بھی اکرم خان درانی کی موجودگی میں کوئی دوسرا گروپ جے یو آئی میں شامل نہیں ہو سکتا‘جبکہ ضم شدہ اضلاع جہاں ماضی میں جے یو آئی کا پرچم لہراتا تھا‘ وہاں مولانا حسام الدین جیسے دیرینہ رہنماؤں کی علیحدگی نے صورتحال کو بدل دیا۔ بلدیاتی الیکشن میں محسود ایریا میں پی ٹی ایم کے شاہ فیصل نامی نوجوان نے جے یو آئی کے امیدوار کو شکست دے کر تحصیل چیئرمین جیسی اہم نشست چھین لی۔ عین ممکن ہے کہ 2023ء کے عام انتخابات میں جے یو آئی خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں قومی و صوبائی اسمبلی کی زیادہ تر نشستیں جیت جائے لیکن جماعتی نظم میں وسیع اصلاحات کے بغیر مستقبل میں جمعیت کی بقا تنازعات میں گھری نظرآتی ہے۔