"AAC" (space) message & send to 7575

نئے سیاسی تمدن کی فطری صورت گری

سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں صوبے کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی کامیابی نے کراچی کے شہری ماحول میں پنپتی ہوئی پی ٹی آئی اور اندرونِ سندھ کے دیہی افق پہ ابھرتی جے یو آئی کو مات دے کر صوبہ سندھ میں متوقع تبدیلیوں کی راہ روک لی اور اَب اِسی تغیر کے غیرمعمولی اثرات سیاست کے مرکزی دھارے کے علاوہ جنوبی پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سیاسی منظرنامے کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ البتہ تمام تر پیچیدگیوں کے الرغم کراچی اور حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میں جماعت اسلامی کی سیاسی کارکردگی کافی بہتر رہی۔ اگر جماعت کی قیادت نے اپنی سیاسی جدوجہد کے مومینٹم کو اِسی طرح برقرار رکھا تو جماعت اسلامی 2023ء کے عام انتخابات میں شہری سندھ سے قومی و صوبائی اسمبلی کی کچھ نشستیں ضرور جیت لے گی۔ خلافِ توقع اندورنِ سندھ میں عبرتناک انتخابی شکست نے جے یو آئی (ایف) کی پارٹی پالیٹکس سمیت سیاسی بارگینگ کی پوزیشن کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر بلدیاتی الیکشن میں کراچی کی (دوسری بڑی) پشتون آبادی کی نمائندگی کی دعویدار اے این پی کا وجود کہیں نظر نہیں آیا۔ بظاہر یہ پیپلزپارٹی کی اُس پالیسی کا شاخسانہ نظر آتا ہے جس میں صوبائی حکومت نے شہری اور دیہی سندھ سے افغان مہاجرین کو نکال باہر کرنے کی جارحانہ حکمت عملی اپنا کر پشتون قوم پرستی کی تیزی سے ابھرتی ہوئی تحریکوں کو پس منظر میں دھکیل دیا۔
اگر ہم موجودہ سیاسی پیشرفت کو پچھلے نو ماہ کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے تناظر میں دیکھیں تو وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت کا فائدہ صرف پیپلزپارٹی اور سب سے زیادہ نقصان نواز لیگ کے حصے میں آیا۔ اِسی طرح جزوی اقتدار کی آسودگی نے خیبر پختونخوا میں جمعیت کو آگے بڑھنے کے کچھ مواقع ضرور فراہم کیے لیکن اس ادھورے اقتدار نے سندھ اور بلوچستان میں جے یو آئی ایف کی طاقت کو ناقابلِ تلافی ضعف پہنچایا ہے جس کی ایک جھلک ہمیں سندھ کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی دکھائی دی ہے۔ اِس جزوی حکمرانی کی روشنی نظر آتے ہی اندورنِ سندھ میں راشد سومرو کی مزاحمتی سیاست سے وابستہ غریب عوام کی امیدیں چمک اٹھیں لیکن توقعات پوری نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی سندھ کی پارٹی قیادت افسردہ اور جمعیت کے حامیوں کے دل و دماغ پر مایوسی کی تاریکی چھاتی گئی۔ اس وقت جمعیت کے چاروں وفاقی وزرا کی سندھ میں اپنی جماعتی قیادت سے کہیں زیادہ بہتر کوآرڈی نیشن سید خورشید شاہ کے ساتھ ہے، جس کا براہِ راست فائدہ پیپلزپارٹی کے وابستگان کو مل رہا ہے؛ چنانچہ کراچی کے علاوہ جے یو آئی ایف کی اندورنِ سندھ کی قیادت نے مصلحت آمیز خاموشی کی بُکل مار لی ہے، جس کے مضمرات عام انتخابات میں ابھر کر سامنے آنے والے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس‘ مرکز میں پی ڈی ایم کی حکمرانی کا چہرہ بن کر سامنے آنے والی نوازلیگ کی کشتی بھی بھنور میں ہچکولے کھاتی نظرآتی ہے۔ ہمارے ملک کے روایتی نظام کے ہمہ جہت جمود اوراعصاب شکن اقتصادی مشکلات نے پنجاب کی مقبول پارٹی کو فنا و بقا کے خطِ امتیاز پر لا کھڑا کیا ہے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق اگر وہ پیچھے ہٹے تو دیوالیہ پن کے خطرات مزید سنگین ہو جائیں گے جس کا سارا دوش نواز لیگ کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ اسی ڈھلوان کی طرف اگر وہ آگے بڑھتی رہے تو پارٹی کا مستقبل مزید مخدوش ہوتا جائے گا۔ اس حوالے سے عمران خان بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ معاشی و سیاسی بحران کے اِس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ تازہ مینڈیٹ کے حصول سے برآمد ہو گا۔
امرِ واقع یہ ہے کہ بدترین معاشی بحران کے پے درپے حملوں کے باوجود وفاقی کابینہ میں 35 سے زائد وزیروں اور 30 کے لگ بھگ وزرائے مملکت اور تقریباً اتنے ہی مشیروں کی فوج ظفرموج کمزور معیشت کی پہلے سے ڈولتی کشتی پر ناقابلِ برداشت بوجھ بن گئی ہے۔ موجودہ حکمرانوں سے گورننس کا انحطاط رک سکا نہ کرپشن کے رجحان میں کوئی کمی لائی جا سکی۔ چند دن قبل پارٹی قیادت کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں گورننس کی ناکامیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی پنجاب میں بتدریج کم ہوتی مقبولیت پر گہری تشویش ظاہر کی گئی۔ نواز لیگ کی صف اول کی قیادت نے میاں نوازشریف کو فوری طور پر وطن واپس بلانے اور جلد از جلد عام انتخابات کی طرف جانے پہ اتفاق کیا مگر لندن میں بیٹھے پارٹی قائد اور چیف آرگنائزر مریم نواز درست وقت کے انتظار میں ہیں۔ وہ انتخابات کی طرف جانے کے بجائے سیاسی ماحول کو مزید تلخ بنانے کی راہ پر گامزن ہیں جس کے نتائج کسی کیلئے بھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ متذکرہ اجلاس میں پارٹی لیڈرشپ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس وقت عام انتخابات پر چھ ارب روپے خرچ اٹھے گا لیکن موجودہ بندوبست کو اگر مزید طول دیا گیا تو اس پر بارہ ارب سے زیادہ وسائل صرف ہونے کے علاوہ لگ بھگ اتنی ہی رقم روایتی بدعنوانی کے سوراخوں سے بہہ جائے گی۔ یہ کیفیت سیاسی لیڈرشپ کی فیصلہ سازی کی کمزوریوں اور سیاسی نظام کی ناکامیوں کی عکاسی کر رہی ہے۔ ہمارے سیاسی زوال کی اور بھی بہت سی وجوہات ہوں گی لیکن مقبول قیادت کا ذہنی جمود جمہوریت کی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
ایک صحت مند جمہوری نظام کے معنی دراصل ایک ایسی سیاسی تنظیم کے ہیں جسے طاقتور ریاستی ڈھانچے میں متشکل کیا جا سکے اور جو اجتماعی فیصلہ سازی کے عمل کی بامعنی توضیح کی صلاحیت سے بہرور ہو؛ یعنی معاشرے کو منظم کرنے والے وہ سرکاری ادارے جو لوگوں کے سیاسی و اقتصادی مفادات، عدل و انصاف کی فراہمی اورسماجی اقدار کی تشکیل کیلئے مل کر کام کرنے کے قابل ہوں حتیٰ کہ یہی ادارے نچلی سطح تک خاندان، ابلاغِ عامہ، تعلیمی نظام اور تہذیب و ثقافت کو ریگولیٹ کرنے میں بھی کردار ادا کر سکیں۔ پچھلے پچھتر سالوں پہ محیط ہماری جمہوری پسماندگی کی وجوہات میں جمہوریت کیلئے عوامی حمایت کا فقدان، معاشی عدم مساوات، سماجی تضادات، پاپولسٹ یا شخصی سیاست اور عالمی طاقتوں کا بیرونی دبائو نمایاں ہیں۔ یہاں ووٹرز اپنے حقِ رائے دہی کی اہمیت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس قیمتی حق کے درست استعمال پر قادر نہیں ہوتے۔ عام ووٹروں کو لگتا ہے کہ موجودہ سیاسی نظام ان کی فلاح کیلئے کام نہیں کرتا بلکہ اصلاحِ احوال کی خاطر اس پر اثر انداز ہونے کیلئے اُن کی ہر کوشش بے نتیجہ ثابت ہوگی؛ چنانچہ وہ اجتماعی امور میں فیصلہ سازی کے عمل سے خود کو الگ کر لیتے ہیں۔ بلاشبہ ایک شہری کو ذاتی عوامل کے علاوہ مناسب معلومات اور سیاسی شعورکی کمی سیاست میں بامعنی شرکت سے روکتی ہے کیونکہ ہمارے مجموعی نظامِ فکر میں سماجی تلویث، سیاسی شرکت داری کی حمایت کا رجحان اور حوصلہ افزائی کے لیے درکار سوشل نیٹ ورکس نہایت محدود ہیں۔ حتیٰ کہ یہاں کی سیاسی جماعتوں کو درپیش مختلف چیلنجز میں خاندانی جانشینی کا وبال، جماعتوں کے اندر جمہوریت کی کمی اور دولت مندوں کا اثرو رسوخ نمایاںہیں۔ ان میں سے سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کا فقدان سب سے زیادہ مہلک ہے، اسی کی وجہ سے لسانی و ثقافتی شناخت کی منفی سیاست کو جگہ ملتی ہے، جس سے طبقاتی پولرائزیشن اور نسلی تقسیم وکشیدگی عوام کو تقسیم کرکے روز بروز کمزور بناتی ہے۔ ہمارے پراگندہ نظامِ سیاست کے انہی عوامل نے بتدریج جمہوریت کو ضعف پہنچایا؛ چنانچہ یہاں ووٹ لینے کیلئے مذہبی اور طبقاتی تعصبات جیسے خطرناک عوامل کا استعمال عام ہے۔ عوام کی بڑی تعداد کے مطابق سیاست ان کی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے، سیاسی جھگڑوں میں مال اور زندگیاں گنوانے کا خوف، ذہنی تناؤ، نیند کی کمی اور سیاسی بے یقینی سیاست سے لاتعلقی کا محرک بنتی ہے۔ سیاسی تشدد پر مبنی خبریں، دہشت گردی، سیاسی قتل و غارت،ریاستی جبر، وسیع پیمانے کے پُرتشدد احتجاج، فرقہ وارانہ کشیدگی اور انہی عوامل کے پہلو بہ پہلو منظم جرائم جمہوری معاشروں کے زوال کی بدترین مثالیں ہیں۔ کولمبیا اور ویتنام میں جمہوری ناکامیوں کے نتیجے میں خانہ جنگی کی بھڑکتی آگ ہی بغاوتوں کا باعث بنی۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری نظام میں فیصلہ سازی میں تاخیر ہی سیاسی عدم استحکام کا سبب بنتی ہے۔بدترین جمہوریتیں بھی آمرانہ ریاستوں کے مقابلے میں سنگین مسائل کو حل کرنے میں زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتی ہیں بشرطیکہ وہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھ سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں