"AAC" (space) message & send to 7575

سیاسی بحران یا فطری ارتقا

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کی تاریخ نہ دینے کے معاملے میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت از خود نوٹس لیتے ہوئے جو نو رکنی بنچ تشکیل دیا تھا‘ اُس بنچ میں دو معزز ججوں کی شمولیت پر حکومتی اتحاد کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ شنید ہے کہ اب اس معاملے کو فل کورٹ میں سننے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
چند روز قبل صدر عارف علوی نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بغیر یکطرفہ طور پہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کا جو اعلان کیا تھا‘ اس نے ایسی نامطلوب ادارہ جاتی کشمکش کو مہمیز دی‘ جس کے اثرات نے کافی حد تک اُس گہرے سیاسی جمود کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا جس نے پچھتر سالوں سے ہمارے سیاسی وجود کو جکڑ رکھا ہے۔ یہ تغیرات ہمیں ایک ایسے ادارہ جاتی تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہیں جس کی سنگینی سے امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس جیسی خوشحال اقوام سمیت رومانیہ اور بلغاریہ جیسے چھوٹے ممالک بھی گزرنے پہ مجبور ہو گئے تھے۔ جمعرات کی شام سرگودھا میں مسلم لیگ (ن) کی مرکزی رہنما مریم نواز کی طرف سے جارحانہ تنقید اُسی جاری پیش دستی کا ردِعمل تھی جو اکثر و بیشتر رونما ہو کر عمیق سیاسی بحرانوں کا محرک بنتی رہتی ہے۔ لاریب‘ ہماری توقع کے عین مطابق نہایت سرعت کے ساتھ اب اس امر کے آثار ہویدہ ہوتے جا رہے ہیں کہ ''ووٹ کو عزت دو‘‘ بیانیہ سے پسپائی کے بعد نواز لیگ اپنے بیس کیمپ پنجاب میں ایسا مقبول بیانیہ تشکیل دینا چاہتی ہے‘ جسے ان کا ووٹر پوری سرشاری کے ساتھ خرید لے چنانچہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیو لیک کے بعد جس طرح نواز لیگ کی صف اوّل‘ دوم اور سوم کی قیادت نے پریس کانفرنسوں میں جو سوال اٹھائے‘ وہ اسی سوچی سمجھی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی شروعات تھی جس کا کلائمکس ہمیں سرگودھا میں مریم نواز کی جارحانہ تقریر میں سنائی دیا۔ نواز لیگ کو شاید اب پتا چلا ہے کہ پاکستان میں طاقت کا سنٹر آف گریویٹی وہ نہیں جسے ہمیشہ سمجھا جاتا رہا ہے بلکہ یہ تو کسی اور عمارت کی راہداریوں میں پنہاں ہے‘ اس لیے لیگی قیادت نے ایک طرف اپنی مقتدرہ مخالف مہمات کی بساط لپیٹ کے آئینی طریقوں سے عمران خان کو ایوانِ اقتدار سے نکالنے کی راہ ہموار کی اور دوسری جانب وہ مقبول بیانہ بھی ڈھونڈ لیا جو اُسے نئے انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کروا سکتا ہے۔ بہرحال ہمیں سیاسی خرابیوں اور بدنظمیوں سے اس قدرگھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیاست زندگی نہیں بلکہ نقشِ حیات ہے اور رائے عامہ بہت جلد اس سیاسی افراط و تفریط کو ہموار بنا لے گی جو وقتی طور پہ اجتماعی حیات کے بہتے دھارے میں طغیانی پیدا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہی کشمکش تقسیم اختیارات کے آئینی فارمولا پہ الفاظ و معنی کے ساتھ کامل عمل درآمد کا ذریعہ بننے کے علاوہ نظام انصاف کی آزادی کی راہیں بھی کشادہ کر دے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ محوری سیاسی بندوبست اب ٹوٹنے والا ہے جس نے سیاسی عمل کے علاوہ آئینی اداروں کے ارتقا کو بھی سختی سے جکڑ رکھا تھا۔ لاریب‘ آئین میں متعین کردہ فریم ورک کے مطابق اگر پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں کو تقسیم اختیارات کی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کی آزادی ملتی تو اب تک ہمارا اجتماعی وجود تجربات کی متعدد سیڑھیاں چڑھ کر ارتقا کی کئی منزلیں سر کر چکا ہوتا لیکن افسوس کہ نیو نوآبادیاتی نظام کے تحت عالمی طاقتوں نے یہاں مہیب آمرتیوں کی وساطت سے عوام کے حق حاکمیت کو مفقود رکھ کر قومی وسائل کا استحصال کیا۔ افسوس کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے پوری مسلم دنیا میں استبدادی حکومتوں کو برداشت کیا‘ مغربی غلبہ والی عالمی منڈیاں تیار کیں‘ عالمی مالیاتی نظام کے ذریعے قرضوں اور دفاعی امداد کی آڑ میں کمزور قوموں کو کنٹرول کرنے کے علاوہ جمہوری تشدد کے ذریعے انہیں منقسم کرکے ان کی دولت اور وسائل پہ قبضہ جمایا۔ مغربی استعمار کی اسی سکیم نے ہمارے سماج کے فکری و ذہنی ارتقا کو روک کر سیاسی تشدد‘ انارکی‘ افلاس‘ مذہبی تفریق اور نسلی و طبقاتی تقسیم بڑھا کر آدمیوں کو خارجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے غیرانسانی دھندہ پروان چڑھایا۔ صد افسوس کہ آزادی کے بعد اگر قومی سیاستدانوں کو پارلیمنٹ کے فورم پہ روز مرہ سیاسی امور نمٹانے کی جمہوری روایات قائم کرنے کی مہلت ملتی تو آج طالع آزما سیاسی ایشوز کو پارلیمنٹ سے باہر لے جا کر متنازعہ بنانے کے اسباب مہیا نہ کر سکتے مگر حقیقت کو ہمیشہ کے لیے ہیڈ لاک میں نہیں رکھا جا سکتا۔ تاریخ کا اہم ترین قانون بھی یہی ہے کہ جو چیز ابھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری موجودہ لیڈر شپ ان فطری تغیرات کی الٹ پھیر میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی راہیں سنوار کر قوم کے لیے ایک صحت مند ارتقا کس طرح ممکن بناتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ سیاسیات میں آئینی بحران حکومت کے کام میں رخنہ اندوزی یا ایسا تنازعہ پیدا ہو جانے کو کہتے ہیں‘ جسے کوئی حکومت آئینی سکیم یا دیگر بنیادی گورننگ قوانین کے ذریعے سلجھانے کی صلاحیت کھو دے۔ اگرچہ ہر جگہ بحران مختلف اور ممکنہ وجوہات سے پیدا ہو سکتے ہیں تاہم عام طور پہ آئین کے مرکزی فرائض کی انجام دہی میں ناکامی یا کم از کم ناکامی کا شدید خطرہ پیدا ہو جانے کی صورت میں سیاسی بحران نمودار ہو سکتا ہے بلکہ بسا اوقات آئین تو واضح ہوتا ہے لیکن اس پر عمل کرنے والے حکمراں بوجوہ سیاسی بحران کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی حکومت آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے خلاف قانون سازی کرنا چاہتی ہو یا کسی مخصوص شق کی آئین کی روح کے منافی تشریح کے ذریعے من مانے نتائج کشید کیے جا رہے ہوں‘ اس طرح کے تجاوزات سے حکومتی ادارے ہچکولے کھانے یا پھر قانون کے مطابق کام کرنے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر حکومتی اہلکار قانون کی تنگ تشریحات کی بنیاد پر کسی سنگین مسئلے سے نمٹنے سے گریزکا جواز بنا لیتے ہیں‘ جیسے 1950ء کی دہائی میں جنوبی افریقہ کے رنگین ووٹ کا آئینی بحران پیدا ہوا‘ 1860/61ء میں جنوبی امریکی ریاستوں کی علیحدگی کا ایشو‘ 1975ء میں آسٹریلیا کی وفاقی حکومت کی برطرفی اور 2007ء کا یوکرین کا آئینی بحران ایسی پیچیدگیوں کی کلاسیکی مثالیں تھیں۔ برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کا کوئی تحریری آئین موجود نہیں لیکن وہاں کنونشن اور روایات کو غیرتحریری تصور کیے جانے کے باوجود برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک میں ایسے مسائل کو آئینی بحران کے طور پر بیان کیا گیا۔ آئینی بحران ریاست کی مختلف شاخوں کے درمیان تنازعات‘ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان یا معاشرے کے اندر مختلف دھڑوں کے درمیان تنازعات سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ عام طور پہ ریاستی ڈھانچے میں بحران اس وقت ابھرتا ہے جب سیاسی تنازعہ کے ایک یا زیادہ فریق جان بوجھ کر آئین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کریں‘ جیسے عدم اعتماد کی تحریک کے دوران حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ڈپٹی سپیکر نے آئینی حدود کراس کرکے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو غیرملکی سازش قرار دے کر رائے شماری کے آئینی تقاضے کو بلڈوزکر دیا اور اسی کے تسلسل میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے صدر عارف علوی کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیجی جسے صدر نے بلا تردد منظور کر لیا جس کے بعد ایسا بحران پیدا ہوا جس نے تمام اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی متنازعہ رولنگ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں نے ابھی تک ہمارے سیاسی نظام کو وقفِ اضطراب رکھا ہوا ہے۔ تاہم بسا اوقات غیر تحریری آئینی کنونشن کی خلاف ورزی کرنا یا خلاف ورزی شدہ آئینی قانون یا غلط سیاسی رواج کی صحیح و قانونی تشریح پر تنازعہ اٹھ کھڑا ہوناقومی زندگی میں مشکلات کا باعث بنتا ہے ‘ جیسا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کی تشریح سے ایسا بحران پیدا ہوا جس کے طلاطم میں تادیر ہمارا سیاسی نظام ہچکولے کھاتا رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں