"AAC" (space) message & send to 7575

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں تبدیلیاں

گزشتہ جمعہ کو چین کی معاونت سے مشرقِ وسطیٰ میں جاری داخلی کشمکش کے دوبڑے کھلاڑیوں‘ایران اور سعودی عرب نے باہمی تعلقات کی بحالی اور دو ماہ میں سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کر لیا۔ سعودی عرب نے 2016ء میں تہران میں اپنے سفارت خانے پر اُن مظاہرین کی یلغارکے بعد ایرا ن سے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے جو سعودی حکومت کی طرف سے ایک عالم کو پھانسی دیے جانے پر مشتعل تھے۔ ایران اور سعودی عرب کئی سالوں سے مشرق وسطیٰ کے متعدد تنازعات میں حریف فریقوں کی حمایت کے ذریعے پراکسی جنگوں میں الجھے رہے‘ خاص طور پہ یمن میں لیکن اب دونوں ملکوں کی تنازعات ختم کرنے کی طرف غیرمعمولی پیشرفت نے پوری دنیا کو ششدرکر دیا ہے۔ چین سعودی تیل کا بڑا خریدار ہونے کے ناتے علاقائی سلامتی کیلئے خطرہ بننے والے انتشار سے نجات کا خواہشمند ہے۔ 2019ء میں آبنائے ہرمز کی آبی گزرگاہوں میں گونج اٹھنے والے دھماکے چین کے دائمی مفادات کیلئے خطرہ بن گئے تھے۔ اگرچہ ایران میں پہلے ہی امریکہ مخالف جذبات کا تاثر گہرا تھا؛ تاہم 2019ء کے موسم خزاں کے بعد سے سعودی عرب میں بھی امریکی کردار کے حوالے سے بڑھتے ہوئے شبہات نے مایوسی کا عنصر پیدا کیا کیونکہ مشرقِ وسطیٰ کو اسرائیل کے سپرد کرنے کے بعد امریکہ کا سکیورٹی کردار یہاں اب ایسا نہیں رہا تھا جو اسے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے لیے اہم بناتا؛چنانچہ سعودی عرب نے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے بارے خود سوچنے کی ضرورت محسوس کی۔ دوسری جانب ایران اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں چین کی تلویث کو تجزیہ کار ''بدلتے ہوئے عالمی نظام‘‘کی نمایاں علامات کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اس امر میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ جس طرح افغان جنگ نے جنوبی ایشیا پر امریکی گرفت ڈھیلی کر دی‘ اسی طرح عراق وار مشرقِ وسطیٰ پر امریکی تسلط کے خاتمے کا وسیلہ بنی۔ 2019ء میں جب حوثیوں نے سعودی آئل فیلڈ آرامکو کو نشانہ بنایا تو اس نے سعودیہ کی تیل کی پیداوار کو عارضی طور پر متاثر کیاجس کے نتیجے میں تیل کی عالمی قیمتوں میں 14 فیصد سے زائد کا اضافہ ہواجو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں سب سے زیادہ اضافہ تھا۔یہ چین کے لیے بدترین صورت حال تھی۔ خلیج فارس میں تنازعات اس کی توانائی کی فراہمی اور اقتصادی مفادات کو متاثر کر رہے تھے۔ امریکہ جنگوں کو مہمیز دینے کی خاطر تیزی سے انحراف کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر مڈل ایسٹ کے تنازعات میں ناقابلِ بھروسہ فریق بنتا چلا گیا جبکہ چین نے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے پر محنت کی۔وہ کسی تنازع میں فریق بننے کے بجائے خود کو قیامِ امن کیلئے کردار ادا کرنے کی خاطر قابلِ بھروسہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ چین کی یہ پیش دستی اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکی ذرائع ابلاغ نے اسی ہفتے رپورٹ کیا کہ اسرائیل اور ایران جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ چین کے اسرائیل کے ساتھ بھی کافی گہرے سیاسی و اقتصادی تعلقات ہیں؛ چنانچہ ایک خیال یہ ہے کہ اس نے ایران کے علاوہ اسرائیلی مقتدرہ کو بھی مینج کیا لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے پر کافی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ عام خیال ہے کہ ایران‘ عرب معاہدہ بدلتے عالمی نظام کی وسیع تر علامت ہے یعنی امریکہ کا عالمی سپر پاور ہونے کا عہد‘ خاص طور پر سرد جنگ کے بعد کا یونی پولر دور‘ ختم ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں سعودی عرب جیسے ممالک کیلئے امریکہ واحد شراکت دار تھا لیکن اب ان ممالک کے پاس دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں خاص طور پر چین‘ جو انہیں اقتصادی، سیاسی اور بہترین عسکری تعاون مہیا کرنے والا ملک بن کر ابھرا ہے۔
سعودی آئل فیلڈز پر حملے کے بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے واضح کیا تھا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ یا اس کے لیے کسی جنگ میں شریک نہیں ہوگا، چین نے اسی کا فائدہ اٹھایا۔ ایران اور سعودی عرب کے کشیدہ تعلقات کے سبب شام، عراق، لبنان اور یمن سمیت متعدد ممالک متاثر ہوئے جبکہ دونوں کے تعلقات اب معمول پر آنے والے سے وسیع جغرافیائی سیاسی اختلافات کے پائیدار حل اور ایسی بات چیت کا بہترین موقع میسر آئے گا جو دیرینہ اختلافات کو ختم کرنے میں مدد دے گا۔ جاری کردہ سہ فریقی اعلامیے میں ایران اور سعودی عرب کے مابین 2001ء کے سکیورٹی معاہدے اور 1998ء کے وسیع تر تعاون کے معاہدات کا بھی ذکر کیا گیا جو ایرانی انقلاب کے بعد 1980ء کی دہائی میں سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد کی اہم پیش رفت تھی۔ ان معاہدوں میں بہت زیادہ اقتصادی، سکیورٹی اور سیاسی تعاون اور اعلیٰ سطحی سفارتی روابط کا عہد وپیماں باندھا گیا تھا۔
عرب ممالک نے اس خبر کا والہانہ خیرمقدم کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے صدر کے سفارتی مشیر انور قرقاش نے کہا کہ متحدہ عرب امارات سعودی عرب اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کے خیرمقدم کے ساتھ چینی کردار کو بھی سراہتا ہے۔ عراق کی وزارتِ خارجہ نے کہا: دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات نئے عہد کی شروعات ہے۔ عمان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا: سفارتی تعلقات کی بحالی سے علاقائی اور عالمی سلامتی کو فائدہ پہنچے گا۔ مصری وزارتِ خارجہ نے کہا ''ہمیں امید ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں کشیدگی کم کرنے اور بلادِ عرب میں استحکام لانے میں مدد گار ثابت ہو گا‘‘۔ یمن میں حوثی ملیشیا کے ایک سینئر رکن نے ٹویٹ کیا: خطے کے مسلم ملکوں کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی ضروری تھی تاکہ غیر ملکی مداخلت کے نتیجے میں اپنی کھوئی ہوئی خودمختاری کو دوبارہ حاصل کیا جا سکے۔ اگر دیکھا جائے تو اس معاہدے کا تصور ضرورت اور خواہش سے پیدا ہوا۔ سعودی عرب اور ایران کو ایسا تنازع ختم کرنے کی ضرورت تھی جو دونوں کے لیے مہنگا اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے تباہ کن تھا۔ چین کی خواہش تھی کہ وہ میچ میکر بن کر اِس تزویراتی خلا کو پُر کرے؛ چنانچہ چین امریکہ اور روس کی طرف سے فراموش کردہ اس خطے میں قابلِ اعتماد عالمی شراکت دار بن کر سامنے آیا۔ امر واقع یہی ہے کہ معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں لیکن سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے اور پیچیدہ باہمی مسائل کے حل کے لیے ابھی بہت سے مراحل سر کرنا ہوں گے۔
پراکسی تنازعات اور تباہ کن تعصبات حریف ملکوں کی قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ معیشتوں اور معاشروں کو بھی وقفِ اضطراب رکھتے ہیں۔ اس لیے ان دونوں طاقتوں کو علاقائی سلامتی کی خاطر پیچیدہ علاقائی ترتیب کی روشنی میں آگے بڑھنے کا نیا اور مشکل راستہ طے کرنا پڑے گا جس کی ابتدا ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے گریز، مشرقِ وسطیٰ کو نقصان پہنچانے پر اپنی صلاحیتیں برباد کرنے اور اس عمل میں ہتھیاروں کی مہنگی دوڑ میں شامل ہونے کے خبط سے باہر نکلنے سے ہو گی۔ آگے بڑھنے کا ایک نیا طریقہ کشیدگی کو کم کرکے پڑوسیوں کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے مواقع پیدا کرنا بھی ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال دونوں ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خطۂ عرب کے متاثرین کی بکھری ہوئی زندگیوں کو تعمیرِنو کا موقع دیں۔ اگر خطے کے مرکزی کردار معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھیں تو غیر ملکی طاقتوں کو اس خطے کے استحصال اور باہمی تنازعات کو بڑھانے کی راہ نہیں ملے گی بلکہ اس طرح عالمی طاقتوں کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ میں براہ راست یا پراکسیز کے ذریعے مداخلت کی ہر کوشش ناکام بنائی جا سکتی ہے۔ بیجنگ‘ جو اس ثالثی کی میزبانی کرکے ذمہ دار عالمی کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا اور جس نے امریکی اثر و رسوخ کا علاقہ سمجھے جانے والے سخت خطے میں پیچیدہ تنازع کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کرکے مڈل ایسٹ میں امریکی کردار کو محدود کر دیا‘ اس کیلئے اپنے عالمی حریف یعنی امریکہ کی قیمت پر یہ بہت منافع بخش سودا ثابت ہوا۔ یہ معاہدہ خطے کی بدلتی ہوئی سیاست کی طرف اشارہ ہے کہ اب عرب ریاستیں عالمی طاقتوں کے تسلط سے باہر نکل کرآزادنہ کام کرنے، تعلقات اور اتحاد تشکیل دینے اور ان میں توازن پیدا کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں