"AAC" (space) message & send to 7575

مملکت کے لیے نازک مرحلہ

گزشتہ ہفتے وقوع پذیر ہونیوالے تشدد کے واقعات نے ملک کو ایک ایسے دو راہے پہ لا کھڑا کیا جہاں وہ کبھی نہ تھمنے والی انارکی سے ہم آغوش ہوکر پورے جنوبی ایشیا کے مقدر پہ سایہ فگن ہو جائے یا پھر مملکت کو آئینی حکمرانی کے تابع کرنے کیلئے پارلیمنٹ کی بالادستی یقینی بنا لے۔
ظاہری وجوہات سے قطع نظر‘ پچھلے 75برسوں میں ملک کو آئینی نظام کے تحت منظم کرنے کے بجائے سکیورٹی سٹیٹ کے طور پہ چلانے کے مضمرات نے ریاست کو بری طرح جکڑ لیاہے۔ نو مئی کو وقوع پذیر ہونیوالے واقعات تاریخ میں پہلی بار رونما ہوئے جن کے محرکات کو سمجھنے کیلئے پچھلے دو سال کے واقعات پہ نظر ڈالیں تو حیرت انگیز عوامل سامنے آتے ہیں۔ عسکری تنصیبات پہ منظم جتھوں کے غیرمتوقع حملوں سے قبل پاکستان میں تعینات ایک طاقتور ملک کے سفیرکی پی ٹی آئی قیادت سے متواتر ملاقاتیں‘ امریکی کانگریس کے رکن بریڈ شرمین کی طرف سے وزیر خارجہ کو خط اور افغانستان کیلئے سابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے عمران خان کو ہراساں کرنے کے الزامات غیرمعمولی پیش دستی ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق واشنگٹن کے پالیسی ساز پاکستان میں پنپنے والے تازہ بحران کی نگرانی کر رہے ہیں۔ امریکی اشرافیہ پہلے قدم کے طور پر پی ٹی آئی رہنماؤں کو قانونی تادیب اور آرمی ایکٹ کے مطابق سزاؤں سے بچانے کیلئے دباؤ ڈال رہی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی طرف سے دفاعی تنصیبات پہ حملوں کے مرتکب افراد کے خلاف آرمی کورٹس میں مقدمات چلانے پہ تحفظات کے اظہارکے ساتھ 65کے قریب اراکینِ کانگرس کی طرف سے امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو خط لکھ کر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی درخواست بھی غور طلب ہے۔
9مئی کو نیب کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے جس مقدمہ میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا‘ اس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ پر ٹرسٹ کیلئے لاکھوں ڈالر کی زمین ایک رئیل اسٹیٹ ٹائیکون سے مبینہ رشوت کے طور پر وصول کرکے برطانیہ میں اسی بزنس ٹائیکون کی پکڑی گئی 190ملین پاؤنڈ بلیک منی سپریم کورٹ کی طرف سے بزنس ٹائیکون پہ عائد 460ارب روپے جرمانہ میں ایڈجسٹ کر دی گئی۔ خان صاحب کی گرفتاری کے بعد پنجاب میں بڑے پیمانے پہ عوام تو باہر نہ نکلے البتہ پی ٹی آئی لیڈر شپ چند سو کارکنوں کے غصہ کا رخ سرکاری عمارتوں‘شہدا کی علامات اور دفاعی تنصیبات کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو گئی‘اگر اس رجحان کو بروقت روکا نہ گیا تو مملکت کا وجود خطرات سے دوچار رہے گا۔مشتعل مظاہرین نے راولپنڈی میں جی ایچ کیوکے باہر آویزاں مونیومنٹ اور لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس میں توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ دیگر فوجی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچایا۔ میانوالی میں نصب جنگی جہاز کا ماڈل جلایا پشاور میں قلعہ بالاحصار میں داخل ہونے کے علاوہ سرکاری ریڈیو اسٹیشن کو آگ لگا دی۔سوات میں موٹر وے ٹول پلازہ جلانے کے علاوہ چکدرہ ایف سی ہیڈکوارٹر سے اسلحہ لوٹا‘ سکولوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔کراچی میں ایف سی ہیڈ کوارٹر کو جلا ڈالا گیا۔اسلام آباد میں بھی خیبرپختونخوا سے آئے مظاہرین نے دو تھانوں کو آگ لگائی۔تاہم جمعرات کی شام سپریم کورٹ نے احاطۂ عدالت سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر خان صاحب کی رہائی کا حکم جاری کردیا۔
موجودہ بحران‘خاص طور پر خان صاحب کی گرفتاری کا ردِعمل‘ پاک امریکہ پیچیدہ تعلقات کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے‘ جس میں پاکستانی سیاست میں مسلسل مارشل لاؤں کا عنصر بھی شامل ہے۔عمران حکومت کے خاتمہ کے بعد ملک کے آئینی نظام اور انتظامی ڈھانچے میں کچھ گہری تبدیلیاں بھی امریکی مفادات کے برعکس ہوئیں۔ملکی تاریخ میں پہلی بار نئے تعینات ہونیوالے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے امریکہ کا دورہ کرنے کے بجائے سعودیہ اور چین جانے کی روایت ڈالی‘ جسے اُس نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کا اعلان سمجھا گیاجس کے تحت استعماری قوتوں نے نوآبادیاتی ممالک کے حکمرانوں پہ حکمرانی کا سسٹم تخلیق کیا تھا۔اسی بندوبست کے تحت امریکہ نے پاکستان میں آئینی نظام کو پنپنے دیا نہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ اور مقبو ل سیاسی قیادت کو ابھرنے کی مہلت دی۔ 14اگست 1947ء کو ہمیں الگ مملکت تو مل گئی لیکن وہ آزادی نہ ملی جس کا خواب دیکھا گیاتھا۔ روس میں 1917ء کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد برطانیہ کے عالمی مقاصد تبدیل ہو گئے۔ ہندوستان‘ جو ذات پات کی تقسیم پہ مبنی فرسودہ سماجی نظام اور وسیع پیمانے کی غربت کی وجہ سے سوشلزم کیلئے نہایت زرخیز خطہ تھا‘اسے کمیونزم کے نظریاتی اثر سے بچانے کی خاطر مسلم قوم پرستی کی حامل ایسی بفر سٹیٹ کی ضرورت تھی جو سوویت یونین کی نظریاتی توسیع پسندی کے سامنے دیوار بن سکے۔یہی سیاسی تقاضا دراصل اس عظیم ہندوستان کی تقسیم کا محرک بنا جسے منقسم ہونے سے بچانے کی خاطر کانگرسی قیادت تادمِ مرگ بھوک ہڑتال پہ تیار تھی؛چنانچہ پچھلے 75 سال میں عالمی طاقتوں نے ایک طرف تو ہمدردانہ شعور کیساتھ انڈیا کی انگلی پکڑ کر اسے شاہراہِ جمہوریت پہ چلنا سکھایا اور دوسری جانب پاکستان میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کوشہید کرنے کے علاوہ تحریک آزادی کی قیادت کرنیوالی جماعت مسلم لیگ اور اسکی لیڈرشپ کو ٹھکانے لگا کرمملکت کا اقتدار غیر جمہوری قوتوں کے حوالے کرکے نوزائیدہ مملکت کو جنوبی ایشیا میں مغربی استعمار کی آماجگاہ بنا دیا۔
فروری2022ء میں برطانیہ میں تعینات امریکی سفیر نے انکشاف کیا کہ1947ء میں اُسوقت کے برطانوی وزیر اعظم اٹیلی نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگلے 25 سال میں بنگال کو الگ مملکت بنا دیا جائے گا۔ اسی سکیم کے تحت بنگلہ دیش کو الگ کرنے کے اسباب پیدا کیے گئے اور1971ء میں اسوقت کے سارے سیاسی کردار امریکی ایما پر بنگال کی علیحدگی کی سکیم کو عملی جامہ پہنانے میں شامل تھے۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کے نفسیاتی جھٹکے کو جھیلنے کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کو بروئے کار لانے کے علاوہ مملکت کو 1973ء کا آئین دینے کا موقع ملا لیکن زخموں کے مندمل ہوتے ہی1977ء میں ملک کو ایک اور مارشل لاء کاسامنا کرنا پڑاجسے 1979ء میں افغانستان میں روسی فوج کے خلاف پراکسی جنگ میں استعمال کرنے کی خاطر یہاں آئینی و قانونی نظام کی بیخ کنی کے علاوہ گورننس کی بنیادیں کمزور کی گئیں۔1988ء میں سوویت یونین کے انخلا کے بعد ضیا الحق کو راستے سے ہٹانے کیساتھ ہی افغانستان کو عمیق خانہ جنگی کے دلدل میں دھکیل کر اس وقت کی جہادی قیادت کو فتح کے ثمرات سمیٹنے سے روکا گیا۔ اسی دوران طالبان کی شکل میں نئے مذہبی گروہ کے ذریعے افغانستان کی شورش پہ قابو پا کر جنوبی ایشیا بالخصوص چین کے گھیراؤ کیلئے کابل میں مستقل امریکی اڈے بنانے کی سکیم کی طالبان نے مزاحمت کی تو پہلے اسامہ بن لادن کوسوڈان سے ہانک کر افغانستان پہنچایا‘ پھر امریکہ اور اتحادیوں نے نائن الیون میں بن لادن کی تلویث کا جواز گھڑ کر کابل پہ یلغار سے قبل پاکستان میں پرویز مشرف کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔قصہ کوتاہ‘ افغانستان میں 20 سالوں پہ محیط طویل جنگ سے تھک ہار کر بالآخر امریکہ جب واپس پلٹ رہا تھا تو جنوبی ایشیا سمیت پاکستان بھی امریکی پنجہ استبداد سے نکل چکا تھا۔صدر ٹرمپ کی غیر متوقع انتخابی شکست اور عمران پراجیکٹ کی ناکامی کے باعث مقتدرہ اپنی راہِ عمل متعین کرنے میں آزاد ہو گئی۔ بلاشہ افغانستان‘ عراق اور شام کی جنگوں نے امریکی معیشت کو کمزور کرکے جنوبی ایشیا اور مڈل ایسٹ پر واشنگٹن کی گرفت ڈھیلی کر دی جسکے نتیجہ میں سعودی عرب اور ایران کے مابین تاریخی تضادات ختم اور یمن کی جنگ معدوم ہو گئی۔ پاکستان کے علاوہ مڈل ایسٹ بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کا حصہ بن کر فرسودہ سرمایہ درانہ نظام کی گرفت سے باہر نکل کر تازہ دم چینیوں کی جدید معاشی سکیم سے منسلک ہو گیا۔کیا امریکہ سیاسی مہروں پہ تکیہ کرکے مقتدر حلقوں کو ڈھب پہ لا سکتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں