"AAC" (space) message & send to 7575

تضادات کی مینجمنٹ اور رموزِ حکمرانی

گزشتہ بدھ کے روز اعلیٰ فوجی کمانڈروں کے اجلاس میں سانحہ 9 مئی کے محرکوں کو ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پروان چڑھا کر ملک میں افراتفری پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراکر کٹہرے میں لانے کا عندیہ دیا گیا جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حراست میں تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی سرگرمیوں کو روکنے جیسے الزامات کو گمراہ کن پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے اِسے مسلح افواج کو بدنام کرکے معاشرے میں انتشار پیدا کرنے کی مذموم حرکت سے تعبیر کیا گیا۔ فورم نے کثرت سے جمع کیے گئے ناقابلِ تردید شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے انسانی حقوق کی مفروضہ خلاف ورزیوں کی سموک سکرین کے پیچھے پناہ لینے کو بے سود مساعی قرار دیتے ہوئے 9 مئی کے دن شہدا کی یادگاروں‘ کور کمانڈر ہائوس اور عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کا آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کرنے کا اعادہ بھی کیا۔ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس سے قبل بھی حکومت 9 مئی کے فسادات میں ملوث سیاسی جماعت کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈائون جاری رکھے ہوئے تھی، بڑے پیمانے کی تادیبی کارروائیوں کے نتیجے میں کئی سینئر پارٹی رہنماؤں نے خود کو مذکورہ سیاسی پارٹی سے الگ کر لیا۔ جس طرح جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی سے ٹوٹے ہوئے الیکٹ ایبلز کو اکٹھا کرکے پنجاب میں ''استحکام پاکستان پارٹی‘‘ کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد رکھی ہے‘ اسی طرح خیبرپختونخوا میں سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی سرگرداں ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ پرویز خٹک نوزائیدہ سیاسی جماعت کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور پختونخوا میں آئی پی پی کی طرف سے وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ جنگی بنیادوں پہ برپا کارروائیوں کے نتیجے میں جس قسم کی کتربیونت جاری ہے‘ کچھ بعید نہیں کہ آئی پی پی خیبرپختونخوا میں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ تیزی سے رونما ہونے والے واقعات کی توضیح آسان نہیں لیکن موجودہ صورت حال کو اگر اگست 2014ء میں اُٹھنے والی اُس تحریک سے جوڑ کر دیکھا جائے تو سارے مسائل انہی عوامل کی بازگشت نظر آئیں گے جن میں عدلیہ اور مقتدرہ کی تکنیکی اعانت سے خان صاحب نے ایک پنپتے ہوئے سیاسی نظام کو پٹڑی سے اتار دیا تھا۔ وہی جدلیات مختلف مراحل طے کرتی ہوئی سانحہ 9 مئی تک جا پہنچیں جب فریب خوردہ نوجوانوں نے نہ صرف تشدد اور عدم استحکام کو مہمیز دی بلکہ ادارہ جاتی انحطاط کے اس رجحان کو بھی تیزکر دیا جس سے ملک کا طویل المدتی نظام خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے، علی ہٰذا القیاس! تمام تر دباؤ اور تادیب کے باوجود اب بھی چیئرمین تحریک انصاف کو عوامی حمایت اوربین الاقوامی سطح پر غیرمعمولی سفارتی مدد‘ خاص طور پر یورپ و امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس لیے انہیں روایتی طریقوں سے مسخر کرنا آسان نہیں ہو گا۔
ہمارا ادارہ جاتی ڈھانچہ طویل عرصے تک عالمی نظام سے مربوط رہا ہے‘ اس لیے سسٹم میں مختلف عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ کو نظرانداز کرنا اور قومی امور کو بین الاقوامی تانوں بانوں سے الگ رکھنا محال ہو گا۔ یہ بجا کہ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کی ساخت میں جوہری تبدیلیوں کی بدولت عالمی طاقتوں کی گرفت کچھ ڈھیلی پڑی لیکن افغانستان پہ امریکی یلغار نے ایک بار پھر پاکستان کو گرفت میں لے کر مضمحل کر دیا۔ پچھلی دو دہائیوں میں جنگِ دہشت گردی کا اتحادی ہونے کے باوجودکچھ واقعات نے امریکہ اور ہماری مقتدرہ کے مابین تعلقات کو دگرگوں رکھا۔ نومبر 2001ء میں تورا بوار آپریشن‘ دسمبر2001ء کی بون کانفرنس‘ جس میں طالبان کے سب مخالفین کو متحد کرنے کی کوشش کی گئی‘ اسی طرح جنوری 2011ء میں ریمنڈ ڈیوس واقعہ‘ مئی 2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن‘ نومبر 2011ء میں سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی طیاروں کی بمباری جیسے واقعات باہمی اعتماد کے رشتوں کو کمزور کر گئے۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ سلالہ حملے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف نے دھرنا دے کر طور خم کے راستے امریکی فوج کی سپلائی روکنے کے علاوہ ڈرون حملوں کے خلاف جنوبی وزیرستان تک تاریخی لانگ مارچ بھی کیا۔ امریکہ مخالف ان مہمات کو مغربی میڈیا میں بے مثال پذیرائی ملی اور انہیں اینٹی امریکن لیڈر کے طور پر ابھرتا دیکھا گیا۔ چین کے ساتھ سی پیک معاہدہ اصولی طور پر 2010ء میں طے پاگیا تھا لیکن بوجوہ اسے شریف حکومت تک ملتوی رکھنا پڑا؛ چنانچہ 2011ء میں لکھے گئے حسین حقانی اور مائیکل کوگل مین کے تجزیوں اور اکثر مضامین میں دہشت گردی کی جنگ میں ناکامیوں کا وبال پاکستان کے سر مڑھنے کے امریکی عزائم ظاہر ہونے لگے تھے۔ کانگریس اورسینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹس اور امریکی عہدیداروں کے کاٹ دار جملے اس امر کے عکاس تھے کہ واشنگٹن کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ امریکی اور یورپی اخبارات میں گاہے پاکستانی اداروں کے خلاف مضامین چھپنے لگے۔ 2012ء میں اوباما انتظامیہ نے قطر میں طالبان کا دفتر قائم کرکے جب افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو ادھر 2013ء میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے علاوہ نواز حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لیے پی ٹی آئی اور علامہ طاہر القادری کے دھرنوں کو بروئے کار لایا گیا اور آخرکار 2017ء میں پاناما سکینڈل کی آڑ میں عدالتی فعالیت کے ذریعے نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس سے ایک طرف سی پیک کی راہیں مسدود ہونے لگیں اور دوسری جانب ایسے سیاسی عدم استحکام کو تحریک ملی جس کے نتائج آج بھی ہمارا تعاقب کر رہے ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالنے سے چند دن قبل امریکی سفیر سے ملاقات کرکے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا لیکن جنوری میں صدر ٹرمپ نے جب ٹویٹر پہ لکھا کہ '' پاکستان نے ڈبل گیم کی‘ پچھلے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 بلین ڈالر امداد دینے کے باوجود ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا گیا‘‘ تومعاملات دوبارہ بگڑنے لگے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ضیاء الحق آمریت کے دوران ملک میں امریکہ مخالف نظریات کی آبیاری شروع ہو گئی تھی۔ 1990ء کی دہائی میں مذہبی جماعتوں کی احتجاجی مہمات نے عوامی سطح پر بھی امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکائے رکھا۔ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکی پابندیوں نے پاکستان کو مزید دورکر دیا لیکن القاعدہ کی تسخیر کو جواز بنا کر افغانستان پر امریکی جارحیت نے پاکستان کو ایک بار پھر دو راہے پر لا کھڑا کیا۔ معروضی حالات اور مشرف آمریت کی کمزوریوں کے باعث پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا پڑا جو ہماری قومی سلامتی کے خلاف ہی لڑی جانی تھی؛ تاہم دو دہائیوں پر محیط اس جنگ کے نشیب و فراز کے دوران جب ہمارے دفاعی اداروں اور عوامی حلقوں میں امریکہ مخالف جذبات عروج کو چھو رہے تھے‘ عین اسی وقت ہمارے ادارہ جاتی نظام میں روایتی سیاسی قیادت سے بیزاری اور 'تیسری قوت‘ سے وابستگی بڑھانے کی متوازی مہم بھی زوروں پر تھی۔
خان صاحب نے اپنے پونے چار سالہ دورِ حکمرانی میں سرکاری وسائل خرچ کرکے گلوبل لیول کے اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورک میں اشرافیہ کے خاندانی ڈھانچے اور نوخیز نسلوں کو خود سے منسلک کرنے میں غیرمعمولی مہارت دکھائی، یعنی ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت امریکہ مخالف جذبات کو پہلے خان صاحب کے پیکر میں مرتکز کیا جاتا رہا اور پھر حالات کی صرف ایک کروٹ کے بعد جب خان صاحب نے ہیئت مقتدرہ کے خلاف پوزیشن لی تو ان سے وابستہ ہماری وہ پوری نسل امریکہ کی جھولی میں جا گری جسے پچھلے چالیس سالوں میں امریکہ سے نفرت کرنا سکھایا گیا تھا اور یوں ہمارے اربابِ بست و کشاد اپنے ہی سدھائے ہوئے ہاتھیوں سے ابلاغی جنگ ہارنے لگے۔ یہی وہ نفسیاتی اڑچن تھی جو ہماری فیصلہ سازی کے سسٹم اور داخلی تضادات کو مزید گہرا کر گئی اور آج انہی پیچیدگیوںکا فائدہ اٹھا کر امریکہ بنیادی آزادیوں اور انسانی حقوق کے نعروں کو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا آلہ کار بنا رہا ہے۔ اگرچہ عالمی تانوں بانوں میں الجھی 9 مئی کی سازش ناکام ہوئی لیکن ابھی اس کے مضمرات کو پوری طرح سمیٹا نہیں جا سکا۔ یہ ادھوری فتح ہے‘ جسے ابھی معرکے سے الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ فاتح کا ایک قدم ہارے ہوئے دشمن کی گردن اور دوسرا میدانِ جنگ کی کشاکش میں پھنسا ہوا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں