امریکی پابندیوں کے باوجود جرمنی نے ایران کے ساتھ توانائی مصنوعات کی تجارت دوبارہ شروع کر دی ہے۔ ''یوروسٹیٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی نے مارچ میں ایران سے تقریباً 70ہزار میٹرک ٹن خام تیل کی بڑی کھیپ منگوائی ہے۔ قبل ازیں 2018ء میں جرمنی نے امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے دستبرداری کے بعد تیل کی برآمدات پر پابندیاں عائد ہونے کی وجہ سے ایران سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمد روک دی تھی لیکن تازہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یورپی یونین کی رکن ریاستیں ایران پر امریکی پابندیوں کی تعمیل کرنے میں تیزی سے ہچکچاہٹ کا شکار ہو رہی ہیں، جس کی بنیادی وجہ یوکرین جنگ کے باعث بین الاقوامی توانائی کی منڈیوں میں پیدا ہونے والا وہ بحران ہے جو اُس وقت سامنے آیا جب یورپی یونین کی کچھ ریاستوں نے یوکرین جنگ کی وجہ سے روس پر عائد مغربی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ماسکو سے خام تیل اور گیس کی درآمد جاری رکھی؛ چنانچہ اس سال یورپی یونین کے ممالک کی طرف سے ایران سے پٹرولیم کی درآمدات 66 ہزار 884 ملین میٹرک ٹن تک پہنچ گئیں۔ مغربی تجزیہ کار چین، ایران اور روس کی طرف بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں کو ''بدلتے ہوئے عالمی نظام‘‘ کی وسیع تر علامت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں نے مشرقِ وسطیٰ میں نمودار ہونے والی قومی ریاستوں کو اپنی متعین پالیسی کے تحت باہم متحارب بنا کر یہاں کے قدرتی وسائل، اقتصادی عوامل اور داخلی خود مختاری کو کنٹرول کرکے انہیں مغربی مفادات کے تابع رکھا۔ اس وقت مڈل ایسٹ کی 70 فیصد تجارت یورپ و امریکہ، 20 فیصد جاپان اور10 فیصد باقی دنیا کے ساتھ منسلک ہے۔ گلف کے تیل کی سب سے بڑی مارکیٹ ہونے کے ناتے چین اور بھارت قدرتی طور پر مڈل ایسٹ کی 70 فیصد تجارت کے حصہ دار تھے لیکن تراشیدہ باہمی تنازعات خاص طور پر عرب‘ اسرائیل تنازع کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے مابین تلخی کو اس تغیرکی راہ میں حائل رکھا گیا؛ تاہم عراق اور شام کی جنگوں میں سر کھپانے کے بعد جب حالات نے امریکہ کو تیزی کے ساتھ میدانِ جنگ سے قدم نکال کر مڈل ایسٹ کو اسرائیل کے سپرد کرنے پہ مجبور کیا تو اس گیپ سے راہ نکال کر عرب ریاستوں نے تل ابیب سے تعلقات استوار کرنے کے بعد ایران کیساتھ دیرینہ تنازعات کو نمٹا کر خطے میں سکیورٹی کا نیا توازن پیدا کر لیا۔ علاقائی رنجشوں کے حل میں ثالث کے طور پر چین کا کردار امریکہ کیلئے ایک غیر متوقع جھٹکا ثابت ہوا۔ ایران و سعودیہ‘ دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات کی بحالی کو حتمی اعلان سے قبل عام نہیں کیا گیا۔ مغربی ماہرین اس معاہدے کو مڈل ایسٹ میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور خطے میں بڑاکردار ادا کرنے میں اس کی دلچسپی کے ثبوت کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ خلیجی ممالک بیجنگ کیلئے توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے علاوہ بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری اور چینی مصنوعات کی وسیع مارکیٹ بن سکتے ہیں۔ چین کی مڈل ایسٹ کے پرانے تنازعات کو عمدہ طریقے سے نمٹانے میں کامیابی کو امریکہ کے عالمی سپر پاور ہونے‘ خاص طور پر سرد جنگ کے مابعد عہد کا خاتمہ سمجھاجا رہا ہے۔
پچھلی سات دہائیوں میں سعودی عرب جیسے ممالک کیلئے امریکہ واحد قابلِ عمل شراکت دار تھا لیکن اب ان ممالک کے پاس دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں۔ چین اور روس انہیں اقتصادی، سیاسی اور عسکری معاونت دے سکتے ہیں اور یہ بھی ان کے مفاد میں ہے کہ وہ ایران کے علاوہ اسرائیل کیساتھ بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق مل کر رہیں۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے قریب رہ کر امریکہ نے ان ممالک کے مابین تنازعات کو پیچیدہ بنایا؛ چنانچہ آج بھی مغربی قوتیں ایران کیساتھ سعودی عرب کے تنازعات کو گہرا کرنے میں مفاد تلاش کرتی ہیں۔ چین نے مغرب کی اسی فکری خیانت کا فائدہ اٹھایا۔ ایران اور سعودی عرب نے کئی دہائیوں تک خطے میں پراکسی جنگیں لڑیں جس سے شام، عراق، لبنان اور یمن سمیت پورا گلف کا خطہ متاثر ہوا۔ دونوں کے درمیان پائیدار بات چیت خطے کے ممالک کیلئے خوبصورت موقع ثابت ہوئی جو دیرینہ مسائل کو تحلیل کرنے کا وسیلہ بنے گی۔ سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی اور سفارتخانوں کو دوبارہ کھولنے کی اچانک ڈیل نے واشنگٹن کو چکرا دیا ہے۔ چین نے اس معاہدے کی ثالثی کرکے امریکی خارجہ پالیسی کو پریشان کردیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل کو لے کر خطے میں امریکہ کے اقتصادی مفادات متاثر ہونے کے علاوہ نرم طاقت کے ذریعے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حامل اس معاہدے کے عالمی نظام پر وسیع پالیسی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ چین نے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی خاطر اقتصادی اور نرم طاقت کا استعمال کرکے قدم جما لیے۔ صدر شی جن پنگ کا گزشتہ دسمبر میں سعودی عرب کا دورہ سربراہِ مملکت کی حیثیت سے خطے کا تیسرا دورہ تھا۔ اپنے سفر کے دوران انہوں نے ریاض کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز رکھی۔ چینی کمپنیوں نے 34 سے زائد معاہدوں پر دستخط کرکے اپنی قوم کی اقتصادی طاقت کا لوہا منوایا۔ عام خیال یہی ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو عالمی طاقت بنانا چاہتے ہیں، اسی مقصدکے حصول میں وہ چین کو اہم حامی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ سعودیہ ایران کشیدگی میں کمی دراصل امریکی ''قومی مفاد‘‘کو متاثر کرے گی۔ واشنگٹن میں بہت سے لوگ اسے عالمی منظرنامے پہ چین کی بڑھتی ہوئی بالادستی کے طور پر دیکھنے لگے اور تعلقات بحالی کے اس معاہدے کو امریکہ پر عدم اعتماد کا ڈرامائی اظہار سمجھا گیا۔ امریکی ماہرین کہتے ہیں کہ واشنگٹن کو ریاض کے چین کی طرف رخ کو مشرق وسطیٰ میں اپنی بنیادی ترجیحات پر نظر ثانی کے چیلنج کے طور پر دیکھنا ہو گا؛ تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کو گھبرانا نہیں چاہیے‘ سعودی ایران کشیدگی میں کمی دراصل امریکی قومی مفاد میں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے امور میں مہارت رکھنے والے کچھ ماہرین نے یہ دلیل بھی دی کہ امریکی اتحادیوں کیساتھ چین کے تعلقات نئی عالمی حقیقت ہیں‘ پالیسی سازوں کو اسے قبول کرلینا چاہیے؛ تاہم امریکیوں کیلئے یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ سعودی عرب ایران سے اپنے تعلقات کی بحالی کا خواہاں کیونکر ہوا؟ سائمن ہینڈرسن نے لکھا ''ایسا لگتا ہے کہ ریاض نے تہران کیساتھ کام کرنے کا فیصلہ بائیڈن انتظامیہ اور کانگریس میں ڈیموکریٹس کی جانب سے سعودی عرب کو ملنے والی دشمنی اور امریکی حمایت میں بتدریج کمی کے سبب کیا ہے۔ رابرٹ سیٹلوف نے لکھا کہ ایران کی حالیہ جوہری پیشرفت کے جواب میں امریکی کارروائی کا فقدان اونٹ کی کمر پہ آخری تنکا ثابت ہوا جس نے ریاض کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ فیصلہ کن قدم اٹھائے۔ بہرحال‘ سعودی عرب کیلئے اس معاہدے کا مقصد محض معاشی نہیں بلکہ سکیورٹی کے ذرائع کو متنوع بنانا ہے۔ سعودی عرب نے حوثی میزائل اور ڈرون حملوں کیخلاف اپنی سرزمین کے دفاع پہ لاکھوں ڈالر خرچ کیے، اسلئے یمن کی خانہ جنگی کو ٹھنڈا کرنا سعودی عرب کیلئے نہایت اہم محرک تھا۔ ایران بھی اس معاہدے کو اپنی موجودہ جوہری پالیسی کی خاموش توثیق سمجھتا ہے۔ بلاشبہ ایران کو سعودی عرب کیساتھ معاہدے سے بہت کچھ حاصل ہوا۔ امریکی ماہرین اس معاہدے کو تہران کی جیت کے طور پر نشان زد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی پوزیشن کیلئے بڑا قدم ہے اور یہ معاہدہ اسے عالمی تنہائی سے نکالنے کا وسیلہ بن گیا ہے۔ دوسری جانب معاہدے میں ثالثی کرکے چین نے واضح کیا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی معنوں میں بڑا کھلاڑی بن چکا ہے؛ چنانچہ بیجنگ خطے میں دیگر طریقوں کے علاوہ خلیجی ممالک کے سربراہی اجلاس کی میزبانی اور شرکت کو یقینی بنانے کیلئے اپنی اقتصادی طاقت کے استعمال کا دائرہ بڑھاتا رہے گا۔ چین نے نہ صرف سعودی عرب اور ایران کی صورت میں مضبوط اتحادی تلاش کر لیے بلکہ وہ واشنگٹن کو کمزور کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ رابرٹ سیٹلوف نے لکھا کہ ''یہ معاہدہ واشنگٹن کیلئے اضافی تھپڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جو دراصل مشرق وسطیٰ میں بیجنگ کی قیادت میں ایک نئے ورلڈ آرڈرکا اشارہ ہے‘‘۔