مختصر سی باغیانہ مزاحمت کے ذریعے دنیا بھر میں شہرت پانے والا روسی بزنس مین یووگینی پریگوژن 50 ہزار فوجیوں پر مشتمل ویگنر نامی اُس نجی ملیشیا کا بانی ہے جس نے یوکرین جنگ کے علاوہ کریملن کی حمایت میں شام اور لیبیا میں بھی فوجی مہمات سرانجام دیں۔ یہ گروپ صدر پوتن کے ایما پر سوڈان، مالی اور وسطی افریقی جمہوریہ کو سکیورٹی خدمات فراہم کرنے کے ساتھ وہاں کے کان کنی کے کاروبار میں سرمایہ کاری بھی کرتا رہا ہے۔ پریگوژن 2000ء کی دہائی کے اوائل میں کیٹرنگ کمپنی کے سربراہ کے طور پر کریملن سے قربت کے باعث مقبول ہوا؛ اگرچہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ ذاتی طور پر روسی صدر کے کتنا قریب تھا لیکن کریملن کے اندر اس کے روابط کا نیٹ ورک موجود تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کاروباری مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے صدر پوتن سے تعلقات کے تاثر کا فائدہ اٹھاتا رہا ہو؛ تاہم گہری قربتوں کے باوجود صدر پوتن کے دشمنوں نے اسے روس کے خلاف بغاوت پہ آمادہ کر لیا۔ فی الوقت یہ سوال جواب طلب ہے کہ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے اپنی ثالثی کے ذریعے ویگنر کے کمانڈر پریگوژن کو مینج کرکے روس کو ہولناک خانہ جنگی سے تو بچا لیا؛ تاہم وہ مختصر بغاوت کے باعث روسی قیادت کے وقار اور اشرافیہ کی حکمت عملی کو پہنچنے والے اُس نقصان کا ازالہ نہیں کر پائیں گے جس کے مضمرات مستقبل قریب میں سامنے آ سکتے ہیں۔
جو کچھ روس میں ہوا‘ یہ سب اچانک نہیں ہو سکتا تھا اس کے پیچھے ضرور کوئی مربوط حکمت عملی کار فرما ہو گی۔ امر واقع بھی یہی ہے کہ یوکرین میں جنگ کے آغاز کے کچھ ہی عرصہ بعد سے پریگوژن نے روسی فوجی قیادت بشمول وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور چیف آف جنرل سٹاف ویلری گیراسیموف پر بدعنوانی اور نااہلی کا الزام لگا کر اپنی فورس کو ذہنی طور پر روسی فوجی کمانڈ سے الگ رکھنے کے علاوہ اس باغیانہ سرپرائز کیلئے نفسیاتی فضا تیار کر دی تھی جس کی وجہ سے یوکرین کے میدانِ جنگ میں روسی قیادت کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ یہ نہیں کہ پریگوژن مجموعی طور پر روسی فوج پر اندھی تنقید کرتے تھے بلکہ وہ نہایت چالاکی کے ساتھ بعض کمانڈروں کی تعریف کرکے روسی فوج کے اندر دراڑ پیدا کرنے میں بھی سرگرداں تھے۔ انہوں نے یوکرین میں لڑنے والی روسی افواج کے ڈپٹی کمانڈر سرگئی سرووکِن کو مزید ذمہ دارانہ عہدوں پر ترقی دینے پر زور دے کر ایک قسم کی رشوت دینے کی جو چال چلی وہ کافی حد کامیاب ثابت ہوئی۔ اب ماسکو ٹائمز نے خبر دی ہے کہ روسی حکام نے یوکرین میں روسی فوجی آپریشنز کے ڈپٹی کمانڈر جنرل سرگئی سرووکِن کو حراست میں لے لیا گیا‘ جو ویگنر فوجیوں کی جانب سے مختصر مدت کی بغاوت کے بعد فوج میں کی جانے والی صفائی کی زد میں آئے۔ سرووکین کو اس وجہ سے گرفتار کیا گیا کہ وہ ویگنر کی بغاوت کے دوران پریگوژن کی طرف مائل رہے۔ پریگوژن نے روس کے سینئر فوجی کمانڈروں پرالزام لگایا کہ اس کی فورس کو باخموت پہ قبضے کی لڑائی کے دوران گولہ بارودکی خاطر خواہ سپلائی نہیں ملی؛ اگرچہ باخموت فتح ہو گیا مگر اسلحہ کی مناسب کمک نہ ملنے کی وجہ سے ویگنر کے ایک ہزار فوجی ہلاک ہو گئے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بغاوت کیسے ختم ہوئی‘ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آئندہ ایسے واقعات کو کیسے روکا جائے ؟ روس کی سکیورٹی سروسز نے کہا ہے کہ وہ مختصر مدت کی بغاوت کے ذمہ داروں کے خلاف فوجداری مقدمے بند کر دیں گی۔ کریملن میں پُرشکوہ تقریب میں خطاب کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بغاوت ناکام بنانے والے روسی فوجیوں کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے جہاں یہ کہا کہ آپ نے ریاستی نظم، اجتماعی زندگی، قومی سلامتی اور آزادی کا کامیاب دفاع کرکے مادرِ وطن کو بچایا‘ وہاں یہ بھی تسلیم کیا کہ درحقیقت آپ نے بڑی خانہ جنگی روک دی ہے۔ واضح رہے کہ چند دن قبل ویگنر گروپ نے نہایت ڈرامائی انداز میں جنوبی شہر روستووف پر قبضہ کرکے ماسکو کو تڑپا دیا تھا لیکن روسی افواج کی با معنی مزاحمت اور پوتن کی بہترین حکمت عملی کے نتیجے میں کسی بڑے نقصان کے بغیر بغاوت پر قابو پا لیا گیا۔ صدر پوتن نے بتایا کہ ویگنر گروپ نے چھ روسی ہیلی کاپٹر اور ایک ہوائی جہاز مار گرایا، بغاوت کے دوران درجن بھر روسی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ ہرچند کہ کریملن نے پریگوژن اور اس کے وفادار فوجیوں کے خلاف مقدمات نہ چلانے اور بغاوت میں ملوث نہ ہونے والے سپاہیوں کو باقاعدہ طور پر روسی فوج میں بھرتی ہونے کی پیشکش کی ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا پریگوژن اب بھی کرائے کے فوجیوں پہ مشتمل ویگنر گروپ کا کمانڈر رہے گا یا نہیں۔ ویگنر گروپ اپنے آپ کو بلیک واٹر کی طرح نجی فوجی کمپنی کے طور پر ظاہر کرتا رہا لیکن روسی حکومت نے حال ہی میں کچھ ایسے اقدامات کیے جنہیں اس گروپ پر کنٹرول کرنے کی کوشش سمجھا گیا۔ روسی حکومت کو شاہد شبہ تھا کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں کسی نہ کسی طور ویگنر گروپ کے ساتھ انگیج ہیں، اس لیے روس نے ترکیہ میں ہونے والے معاہدے کی ناکامی کے بعد ایٹمی ہتھیار بیلا روس منتقل کرنے کے علاوہ ویگنرگروپ کو لاجسٹک اور اسلحے کی سپلائی محدود کر دی تھی۔
ویگنر گروپ پہلی بار 2014ء میں ابھرا تھا جب یہ پانچ ہزار سپاہیوں کے ساتھ مشرقی یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسند تحریک کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ برطانیہ کی وزارتِ دفاع نے جنوری میں بتایا کہ ویگنر 50 ہزار جنگجوؤں کے ساتھ یوکرین جنگ کا اہم عنصر بن چکا ہے۔ یقینا اس گروپ کے حجم میں اس قدر تیزی کے ساتھ غیرمعمولی اضافہ ہی بغاوت کا محرک بنا ہو گا۔ امریکی رپورٹس کے مطابق ویگنر گروپ نے 2022ء میں سکیورٹی کمپنی کے طور پر رجسٹریشن حاصل کرکے سینٹ پیٹرزبرگ میں ہیڈکوارٹر بنایا ۔ بی بی سی کی تحقیقات میں لیبیا کی خانہ جنگی میں کرایے کے جس سایہ دار گروپ کو مہارت کے ساتھ روسی فوج سے مربوط بتایا گیا‘ وہ ویگنر ہی تھا۔ ویگنر کے جنگجو اپریل 2019ء میں لیبیا میں بھی نمودار ہوئے اور امریکی حمایت یافتہ باغی جنرل خلیفہ حفتار کی افواج میں شامل ہو کر دارالحکومت طرابلس میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ کونسل کی حکومت پر حملہ آور ہو گئے۔ لیبیا سے متعلق اقوام متحدہ کی لیک ہونے والی رپورٹ میں بھی ویگنر کی طرف انگلی اٹھائی گئی تھی، اس لیے ویگنر گروپ جنگی جرائم کی طلسماتی دنیا کی پیچیدگیوں میں پنپنے والی ایسی مہیب فورس ہے جس کے ڈانڈے متضاد قوتوں سے منسلک دکھائی دیتے ہیں۔ تازہ ڈرامائی پیشرفت اس تنوع کی کلاسیکی مثال ہے جو روس کے یوکرین پر حملے کے ٹھیک 16 ماہ بعد سامنے آئی۔ یوکرینیوں کو امید تھی کہ روس کی داخلی لڑائی ان کی فوج کے لیے روسی افواج کے زیرِ قبضہ علاقوں کو واپس لینے کے مواقع پیدا کرے گی لیکن معاملات مزید پیچیدہ ہوگئے۔ صدر پوتن نے کہا ہے کہ مغرب کی فوجی، اقتصادی اور معلوماتی مشین ہمارے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ اگرچہ یہ بغاوت 36 گھنٹوں میں ہی ختم ہو گئی؛ تاہم روسی سرزمین پر پریگوژن کی باغیانہ جارحیت کے اثرات کریملن کو ایسے چیلنج سے دوچار کر گئے ہیں جسے مستقبل میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی رپوٹس کے مطابق پریگوژن طویل عرصے سے کریملن کا آدمی تھا‘ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے حق میں اپنے سوشل میڈیا ٹرول فورم کے ساتھ مداخلت کرنے کے الزام سے لے کر یوکرین، شام اور وسطی افریقی جمہوریہ میں خفیہ لڑائی تک پریگوژن کا کردار نمایاں رہا ہے۔ ویگنر کی بغاوت کو یوکرین جنگ میں الجھے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے اقتدار کے لیے سنگین چیلنج کے طور پہ دیکھا جا رہا ہے؛ تاہم معاہدے کے تحت راتوں رات جنوبی روس کے شہر روستووف سے ویگنر گروپ کے پیچھے ہٹ جانے سے بظاہر صدر پوتن کی اتھارٹی کے لیے ابھرنے والے خطرات ختم ہو گئے ہیں۔ آخری اطلاعات کے مطابق اگرچہ ویگنر گروپ کے جنگجوئوں کو جان کی امان مل گئی ہے مگر یوکرین جنگ میں ویگنر کا کردار بھی ختم ہو گیا ہے۔ اٹلی کے وزیر خارجہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ اس بغاوت نے سوویت یونین کی بحالی کے ''افسانے‘‘ کو توڑ دیا ہے۔