کانٹ کہتا ہے حافظہ چونکہ وہبی نہیں بلکہ اکتسابی قوت ہے‘ اس لیے ذہنی وحدت اصلی و طبعی ہے‘ حقیقی نہیں؛ چنانچہ وہ حقیقت کو کبھی پا نہیں سکتی۔ گویا عقلِ انسانی براہِ راست حقیقتِ ابدی کا ادراک تو نہیں کر سکتی مگر حقائق کو بطور خبر وصول کرنے کا داعیہ ضرور رکھتی ہے۔ ان کے یہ خیالات اس ضرورت اور جوازکی تصدیق کرتے ہیں کہ کوئی مخبر صادق ہونا چاہیے جو ہمیں اُس حقیقتِ ابدی کے بارے درست انفارمیشن فراہم کرے جو لامتناہی ہے۔ جدید سائنسی ریسرچ بھی کسی حد تک اسی تصور کی تصدیق کرتی ہے‘ انسانیات پہ تحقیق کرنے والے محققین کہتے ہیں کہ عام انسان کے ڈی این اے کی کل چھ سمتیں ہیں لیکن انہیں زمین پہ 15سمتوں والے ڈی این اے بھی ملے‘ جن میں انسان اور فطرت کے مابین کمیونیکیشن کی پوری صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اندازہ لگایا گیا کہ یہ انہی مافوق الانسان کا ڈی این اے ہو گا۔ البتہ اس حوالہ سے سپائی نوزا کا تصورِ عشق زیادہ منطقی اور قرینِ قیاس واقع ہوا۔ سپائی نوزا'' عشق ‘‘کو خدا سے ''عقلی محبت‘‘ کہتے ہوئے فرماتے ہیں ''مافوق الانسان کا مقام حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم جبلتوں کی انفرادیت اور حکومت سے نجات حاصل کریں‘ نہ کہ معاشرتی عدل اور تہذیب کی تمام قیود سے آزاد ہو جائیں۔ اسی تکمیل اور جمعیتِ خاطر سے دانا انسان کا ذہنی توازن پیدا ہوتا ہے لیکن یہ توازن وہ امیرانہ اعتمادِ نفس نہیں جو ارسطو کے ہیرو میں پایا جاتا ہے۔ نطشے نے ''مافوق الانسان‘‘ کا جو تصور پیش کیا اس میں پندارِ تفوق کا جو عنصر ہے اسے بھی توازنِ ذہنی نہیں کہا جا سکتا (اقبال نے مردِ مومن کا تصور نطشے کے اسی مافوق الانسان سے حاصل کیا) بلکہ یہ سکونِ قلب کا دوسرا نام ہے اور ایک ایسی کفیتِ ذہنی ہے جو دوسرے انسانوں سے برابری کا سلوک کرنے کی تلقین کرتی ہے‘ جو انسان عقل کی وساطت سے فضیلت حاصل کرتے ہیں‘ وہ ان چیزوں کے طالب ہوتے ہیں جو مفید ہیں‘ وہ کسی ایسی چیز کی تمنا نہیں کرتے جس کے حصول کی وہ تمام نوعِ انسانی کو کھلے دل سے اجازت نہ دے سکیں۔ عظمت کا معیار یہ نہیں کہ انسان دوسروں پہ حکمرانی کرے بلکہ یہ ہے کہ غیرمہذب تمنا کی بے ثمری اور بے سودگی سے بلند تر ہو کر اپنے نفس کو مطیع و منقاد عقل بنائے۔
یہ بات سپائی نوزا کے خیال میں بالکل معقول ہے کہ عقل کا کوئی مطالبہ ایسا نہیں جو فطرتِ انسانی کے منشا کے خلاف ہو۔ حیرت انگیز طور پہ سپائی نوزا کا نظریہ‘ عشق و تصوف‘ قرآن و احادیث کے قریب معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی نے جب بھی ایمان سے عاری انسانوں کا ذکرکیا ان کی اکثرہم لایعقلون اور اکثرہم لاتشعرون کہہ کر نشاندہی فرمائی۔ فرمایا: وما یذکر الا الالباب‘ یعنی صرف عقلمند ہی واعظ و نصیحت (دلیل) کو قبول کرتے ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ عقل خدا کا تحفہ ہے‘ خدا نے بندوں کے درمیان کوئی چیز عقل سے افضل تقسیم نہیں کی۔ فرمایا کہ قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب پختہ ذہن لوگ ہوں گے۔ آپﷺ نے فرمایا‘ اے گروہِ قریش! انسان کا حسب اس کا دین ہے‘ اس کی جوانمردی اس کا اخلاق ہے اور اس کی عقل اس کی اصل ہے‘‘۔ جب خدا اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے تو انہیں عقل سے سرفراز کرتا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا‘ انسان کی قدر و قیمت اس کی عقل کے مطابق ہے۔ عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس (Package of Instincts) پہ قابو پایا۔ حضرت علیؓ ہی سے یہ فرمان بھی منسوب ہے کہ عقل عطایا ہے‘ آداب کسبی ہیں۔ عقل فطری اور علم کسبی ہے۔ فرمایا ‘جب خدا کسی انسان کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے پائیدار عقل اور صحیح کردار عطا کرتا ہے۔اسی طرح سقراط نے بھی کہا تھا کہ شرفِ آدمیت کا اعلیٰ ترین مقام وہ ہے جب عقلِ انسانی پلٹ کر خود اپنا مشاہدہ کرتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس رومیؒ کا فلسفۂ عشق عقل کی تحقیر‘ معاشرتی عدل اور تہذیب سے ماورا‘ حدود و قیود سے مبرا‘ لامحدود و لامکاں ہے۔ رومیؒ کا عشق عقلی ہدایت کے ہر اصول اور تمام مذہبی و دنیاوی قوانین سے برگشتگی پہ مائل ہے حتیٰ کہ وہ تقدیر کی جبریت کا بھی قائل نہیں۔ رومیؒ کے مفسر اقبالؒ کہتے ہیں: کب تک رہے محکومیٔ انجم میں میری خاک/ یا میں نہیں یا گردشِ افلاک نہیں ہے۔ کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی/ ان کا سِرے داماں تو ابھی چاک نہیں ہے۔ فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا/ یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک۔
قرآن پاک کا مرکزی نقطہ حضرتِ انسان کو کائنات میں تدّبر اور غور وفکر کی دعوت دینا ہے۔ قرآن جو ہمیں تحقیقِ کائنات پہ اُکساتا ہے اور اللہ تعالی ہمیں اپنے کلام میں کوئی نقص‘ کجی اور کمی تلاش کرنے کا چیلنج دیتا ہے‘ یہ مطالبہ عقل ہی سے تو کیا گیا۔ کائنات کے سربستہ رازوں کا کھوج لگانا بھی ارتقائے عقل کی کرشمہ کاریوں کا اعجاز ہے لیکن صوفیا کرام تحقیق سے زیادہ تکلّم کو پسند کرتے ہیں‘ جس سے نفسِ انسانی میں اضطراب بڑھتا ہے؛ چنانچہ اقبالؒ کے ہاں جس عقل کی تحقیر ملتی ہے‘ اس کی جڑیں ہمیں رومیؒ کے فلسفۂ عشق میں پیوست نظر آتی ہیں۔ مولانا روم نے عقل کی طبع زاد درجہ بندی کرتے ہوئے فرمایا: ایک عقل جمادی دوسری عقل نباتی‘ تیسری عقل حیوانی ہے۔ فرمایا: ایک انسانی عقل اور ایک بنوی عقل ہے‘ پھر وہ عقلِ حسی یا عقلِ طبیعی کی تقسیم کرکے اس میں سے ایک کو اخلاقی یا روحانی اور دوسری کو وجدانی عقل کہتے ہیں۔ ان کے برعکس دانتے کے ہاں انسان کی فطری درجہ بندی زیادہ معقول دکھائی دیتی ہے۔ دانتے کہتے ہیں: انسان کو تہری زندگی ملی یعنی نباتاتی‘ حیوانی اور عقلی اس لیے وہ تین راستوں پہ چلتا ہے۔ جہاں تک اس کی نباتاتی زندگی کا تعلق ہے تو وہ مفید چیزوں کو تلاش کرتا ہے۔ اس سطح پہ وہ پودوں کی سی فطرت کا حامل ہوتا ہے۔ جہاں تک اس کی حیوانی زندگی کا تعلق ہے‘ وہ ان چیزوں کو پسند کرتا ہے جو اسے لطف و مسرت باہم پہنچاتی ہیں۔ اس سطح پہ وہ جانوروں کی سی فطرت کا حامل ہوتا ہے۔ جہاں تک اس کی عقلی زندگی کا تعلق ہے وہ حق و صداقت کی تلاش کرتا ہے اور اسی میں وہ منفرد ہے یا فرشتوں جیسی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ زیست کی انہی تین سطحوں پہ ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اگر ہم غور کریں کہ ان لوگوں کا کیا مقصد ہے جو ''مفید‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ سوائے ''حفاظت‘‘ کے کوئی اور چیز نہیں ہے۔ دوسرے لطف اندوزی کے سلسلہ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ چیز لطف دیتی ہے جو خواہش اور اشتہا کے سب سے بڑے مقصد کو تسکین پہنچائے‘ وہ محبت ہے اور تیسرے عقلی وظائف‘ حق و صداقت بارے کسی کو شک نہیں ہو سکتا کہ نیکی کا درجہ سب سے بلند ہے‘‘۔ چنانچہ حفاظت اور محبت جبلی تقاضے ہیں لیکن نیکی جیسی اہم چیز عقل سے منسلک ہے اور اسی کے پاؤں میں محبت کی زنجیر ہوتی ہے‘ نہ اسے (ابدیت) محفوظ رہنے کا شوق لاحق ہے۔ یہ صرف جاننے پہ شیفتہ ہے۔ عشق کے چالیس چراغ‘ دراصل وہ چالیس اصول ہیں جو شمس تبریزی کے اقوال پہ مشتمل ہیں۔ یہ سارے تبریزیؒ و رومیؒ کے باہمی مکالمے پر مشتمل نہیں بلکہ مصنف نے بعض دوسرے کرداروں کے ساتھ بھی شمس تبریز کی گفتگو کو شامل کیا۔ (1)ہم خدا کے بارے میں جو گمان رکھتے ہیں‘ وہ دراصل ہماری اپنی شخصیت بارے ہمارے گمان کا عکس ہوتا ہے۔ (جاری)