چالیس چراغِ عشق میں آگے چل کر مولانا رومؒ فرماتے ہیں(16) بلند و برتر اور ہر طرح کے نقص سے پاک ذاتِ خدا سے محبت کرنا تو بظاہر آسان بات ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ مشکل انسان کا اپنے ابنائے جنس سے محبت کرنا ہے، جن میں ہر طرح کی کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں، یاد رکھو! انسان اسی کو جان سکتا ہے جس سے وہ محبت کرنے پر قادر ہو۔ محبت کے بغیر کوئی معرفت‘ معرفت نہیں ہوتی۔ جب تک ہم خدا کی تخلیق سے محبت کرنا نہیں سیکھتے، تب تک ہم اس قابل نہیں ہوسکتے کہ اللہ سے حقیقی محبت کر سکیں‘ اس کو جان پائیں۔ (17) اصل ناپاکی اندر کی نجاست ہے۔ باقی سب کچھ آسانی سے دُھل جاتا ہے لیکن آلودگی کی ایک قسم ایسی ہے جو پاکیزہ پانی سے بھی صاف نہیں ہوتی، وہ نفرت اور تعصب کے دھبے ہیں، جو روح کو آلودہ کردیتے ہیں۔ تم ترکِ دنیا اور روزے رکھنے سے بدن کا تزکیہ توکرسکتے ہو لیکن قلب کی پاکیزگی صرف محبت سے حاصل ہو گی۔ (18) پوری کائنات انسان کے اندر موجود ہے۔ تم اور تمہارے ارد گرد جو کچھ تمہیں دکھائی دیتا ہے یہ تمام چیزیں خواہ تمہیں پسند ہوں یا ناپسند‘ تمام کردار خواہ تم ان کیلئے رغبت محسوس کرو یا کراہت‘ یہ سب تمہارے اپنے اندر کسی نہ کسی درجے میں ملیں گے؛ چنانچہ شیطان کو باہر مت دیکھو بلکہ اپنے اندر تلاش کرو! شیطان کوئی غیر معمولی قوت نہیں جو تم پر باہر سے حملہ آور ہو بلکہ تمہارے اندر سے ابھرنے والی معمولی سی خواہش کا نام ہے۔ اگر تم محنت اور دیانت سے اپنی ذات کے روشن و تاریک گوشوں کو دیکھنے کے قابل ہوجاؤ تو تجھ پر عظیم اور برتر شعور کا دریچہ کھلے گا۔ جو شخص اپنے آپ کو جان لے، وہ اپنے رب کو بھی پہچان لیتا ہے۔ (19)اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تجھ سے اچھا برتاؤ کریں تو اس کیلئے پہلے تمہیں اس رویے کو تبدیل کرنا ہوگا جو تم اپنے آپ کے ساتھ روا رکھتے ہو۔ جب تک تم اپنے آپ سے پورے خلوص سے محبت کرنا نہیں سیکھ لیتے‘ بہت مشکل ہے کہ تمہیں محبت نصیب ہو، جب یہ مرتبہ حاصل ہوجائے تو پھر ہر اس کانٹے کیلئے بھی شکر گزار رہو جو تمہارے راستے میں پھینکا جائے کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ عنقریب تم پہ پھول بھی نچھاور ہوں گے۔ (20)اس بات پر پریشان مت ہوں کہ راستہ کہاں لے کر جائے گا بلکہ توجہ اپنے پہلے قدم پر رکھو۔ یہی تمہاری ذمہ داری اور یہی سب سے مشکل کام ہے۔ جب پہلا قدم اٹھالیا تو پھر اس کے بعد ہر شے کو اپنے قدرتی انداز میں کام کرنے دو اور تم دیکھو گے کہ راستہ خودبخود کھلتا جائے گا۔ بہاؤ کے ساتھ مت بہو بلکہ خود لہر بن جاؤ جس کا اپنا بہاؤ ہوتا ہے۔
(21) اُس نے ہم سب کواپنی صورت پر پیدا کیا لیکن اس کے باوجود ہم سب ایک دوسرے سے مختلف اور یکتا و ممتاز ہیں۔ کوئی بھی دو انسان ایک جیسے نہیں، کوئی بھی دو دل یکساں طور پر نہیں دھڑکتے۔ اگر وہ چاہتا کہ ہم سب ایک جیسے ہوں تو وہ ان کو ایک جیسا ہی بناتا؛ چنانچہ اب ان اختلافات کی توہین و تنقیص اور اپنے افکار کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا دراصل پروردگارِ عالم کی قضا و قدر اور بلند پایہ حکمت کی توہین کے مترادف ہے۔ (22)جب اس کا سچا چاہنے والا کبھی میکدے میں جا پہنچے تو وہ میکدہ اس کیلئے محراب و مصلیٰ کی صورت اختیار کرلیتا ہے لیکن اگر کوئی بہکا ہوا مے خوار مسجد میں بھی چلا جائے تو وہ اس کیلئے میخانہ بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اس میں اصل کردار تو ہمارے دل کا‘ ہمارے اندر کا ہے، ظاہر کا نہیں! صوفی لوگوں کو حلیے اور وضع قطع سے نہیں جانچتے۔ جب صوفی کسی پر اپنی نگاہ جماتا ہے تو وہ دراصل اپنی دونوں آنکھوں کو بند کرچکا ہوتا ہے، تیسری آنکھ سے(جو اس کے قلب میں ہے) اس منظر کے اندر کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔ (23)زندگی تو ادھارکی مانند ناپائیدار ہے، حقیقت کا ایک دھندلا سا خاکہ اور نقل ہے۔ صرف بچے ہی اصل حقیقت کے بجائے کھلونوں سے بہلتے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ کھلونوں پر فریفتہ ہیں یا بے قدری سے انہیں توڑ ڈالتے ہیں۔ اس زندگی میں ہر قسم کی انتہاؤں سے دور رہو، کیونکہ انتہاپسندی تمہارے اندرونی توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ صوفی اپنے رویوں میں انتہا پسند نہیں ہوتے بلکہ متوازن اور نرم ہوتے ہیں۔ (24) پروردگار کی سلطنت میں انسان کوخاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ خدا نے کہا '' میں نے اس کے اندر اپنی روح میں سے پھونک دیا‘‘۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس قابلیت سے پیدا کیا گیا کہ وہ اس کا خلیفہ بن سکے۔ اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا تمہارے اعمال اُس کے خلیفہ جیسے ہیں؟ یاد رکھو کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس رحمانی روح کو (جو ہم میں پھونکی گئی ہے) اپنے اندر دریافت کریں‘ پہچانیں اور اس کے ساتھ جئیں۔ (25) جنت اور دوزخ کے بارے میں فکرمند رہنا چھوڑدو کیونکہ جنت اور دوزخ اسی لمحۂ موجود میں ہیں۔ جب بھی ہم محبت محسوس کرتے ہیں جنت کا ایک زینہ طے کرتے ہیں اور جب نفرت، حسد اور جھگڑے میں پڑتے ہیں تو دوزخ کی لپٹوں کی زد میں ہوتے ہیں۔ کیا اس سے بھی بدتر کوئی دوزخ ہوسکتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ احساس پائے کہ اس سے کوئی بیحد غلط اور بُرا کام سرزد ہوگیا۔ اس شخص سے پوچھ کردیکھو وہ تمہیں بتائے گا کہ دوزخ کسے کہتے ہیں(حالانکہ یہ پشیمانی ہے، جسے توبہ کی اعلیٰ ترین صفت کہا گیا ہے: راقم)۔ کیا اس سے بڑی بھی کوئی جنت ہوسکتی ہے جب کسی شخص پر خاص لمحات میں وہ سکینت نازل ہوتی ہے جب اس پر کائنات کے دریچے کشادہ ہوتے ہیں اور انسان اپنے رب کے قرب کی حالت میں ابدیت کے اَسرار سے ہمکنار ہوتا ہے؟ پوچھو اس شخص سے‘ وہ تمہیں بتائے گا کہ جنت کیا ہوتی ہے۔
(26)کائنات ایک وجودِ واحد ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنے واقعات کے غیر مرئی دھاگوں سے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹا ہوا ہے۔ ہم سب جانے انجانے میں ایک خاموش مکالمے کا حصہ ہیں۔ کسی کو دکھ نہ دو، نرمی اور شفقت کا برتاؤ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی مت کرو خواہ بے ضرر سا جملہ ہی کیوں نہ ہو۔ الفاظ جو ایک بار ہماری زبانوں سے نکل جائیں‘ کبھی فنا نہیں ہوتے بلکہ لامحدود وسعت میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجاتے ہیں اور اپنے مقرر وقت میں واپس ہم تک آن پہنچتے ہیں۔ بالآخر کسی بھی آدمی کی تکلیف ہم سب کو ایک اجتماعی دکھ میں مبتلا کرجائے گی، کسی بھی آدمی کی خوشی ہم سب کے ہونٹوں پر مسکان کا باعث بنے گی۔ (27) یہ دنیا اس برفانی پہاڑ کی طرح ہے جہان بلند کی گئی ہر آواز، بازگشت بن کر پلٹتی ہے۔ جب بھی تم کوئی اچھی یا بری بات کرو گے، تم تک واپس ضرور آئے گی؛ چنانچہ اب اگر تم کسی ایسے شخص کیلئے بُرے کلمات منہ سے نکالو جو ہر وقت تمہارا بُرا سوچتا رہتا ہے، یہ اس معاملے کو اور بھی گمبھیر بنادے گا، تم منفی قوتوں کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں گھومتے رہو گے۔ بجائے اس کے کہ تم دوسروں کیلئے کچھ بُرا کہو، چالیس دن تک اس کیلئے اچھا سوچو‘ اچھی بات منہ سے نکالو۔ تم دیکھنا کہ چالیس دن بعد ہر شے مختلف محسوس ہوگی کیونکہ تم پہلے جیسے نہیں رہے‘ اندر سے تبدیل ہو گئے۔ (28) ماضی ایک تعبیر ہے ایک نقطۂ نظر ہے جبکہ مستقبل مایا (Illusion) ہے‘ سراب ہے۔ دنیاخطِ مستقیم کی شکل وقت کے دھارے سے نہیں گزرتی جو ماضی سے مستقبل کی طرف جا رہا ہو بلکہ وقت ہمارے اندر سے بتدریج پھیلتے ہوئی لامتناہی قوسوں (Spirals) کی صورت میں گزرتا ہے۔ ابدیت لامحدود وقت کا نہیں بلکہ وقت سے ماورا ہونے کا نام ہے۔ اگر تم ابدی روشنی کے حامل ہونا چاہتے ہو تو ماضی اور مستقبل کو اپنے ذہن سے نکال دو اور فقط لمحۂ موجود میں باقی رہو۔ یہ لمحۂ موجود ہی سب کچھ تھا اور سب کچھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ (29) تقدیر کا یہ مطلب نہیں کہ تمہاری زندگی کو مکمل طور پر باندھ کر رکھ دیا گیا۔ ہر بات کو مقدر پر چھوڑ دینا اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوئی کوشش نہ کرنا، یہ محض جہالت کی علامت ہے۔ کائناتی موسیقی ہر طرف سے پھوٹ رہی ہے، اس کے چالیس مختلف درجات ہیں۔ تمہارا مقدر وہ درجہ ہے جس پر تم اپنا ساز بجا رہے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارا ساز تبدیل نہ کیا جاسکے لیکن اس ساز سے جو نغمہ اور جو دُھن تم نکالتے ہو‘ اس کا انحصار صرف اور صرف تم پر ہے۔ (جاری)